سماجی ہم آہنگی اور سماجی انصاف


تم کون ہو؟ اگر کوئی کسی اجنبی سے پوچھے تواِسکے مُتفرق جوابات ہو سکتے ہیں۔ اِسلئے کہ فرد کی کثیر جہتی شنا خت فطری بلکہ ہمارا روز مرہ کا تجربہ ہے۔ اِس کے باوجود گزشتہ دو دہائیوں میں شناخت ہی کا مسئلہ ہمارے خطے بلکہ شاید دُنیا کا ایک بڑا مسئلہ بن کر اُبھرا ہے۔ جنوب ایشیائی مُلکوں میں شناخت اور شناختی بحران پر کافی سوچ بچار اور بات چیت کی گئی ہے۔ لیکن اکثر ماہرین اور تجزیہ کار مذ ہبی یا زیادہ سے زیادہ لسانی شناخت کو ہی سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتے ہیں۔

کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے لیکن یہ ِمحدود اَپروچ دوسرے دو بڑے مسئلوں کو نظر انداز کردیتی ہے۔ ایک مسئلے کو تو زیادہ محسوس اور آجاگر کرنے کی ضرورت ہے جس میں افراد اور عوام بھی اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں جبکہ دوسرا مسئلہ زیادہ گہرائی اور گیرائی کا متقاضی ہے اور اِس میں ریاست کا کردار نہایت اہم ہے۔

پہلا مسئلہ شناخت کا ہے۔ عموماً ہرطرح کے فتنہ و فساد یا سماجی انتشار کو مذہبی شناخت اور تناؤکھچاؤ سے جوڑ دیا جانا ہے جو کہ حقیقت کے منافی ہے۔ دراصل کوئی بھی فرد، مرد یا عورت، اور سماجی گروہ بیک وقت ایک سے زیادہ سماجی شناختوں اور پہچانوں میں بندھا ہوتا ہے اور اس خیال کے عظیم پرچارک ’اَمرتیا سین‘ کی زُبان میں کوئی بھی شخص بیک وقت ایک مسلمان، ہندو اساطیر کا ماہر، انڈیٓن فلمز کا دلدادہ اورانگریز اشرافیہ کا سا طرز زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ ایک شاعر، ادیب، موسیقار، مورخ، سیاسی کارکن یا ہم جنس پرستی کا حامی بھی ہو سکتا ہے۔

پروفیسر سین کے نزدیک ماسوائے رنگ و نسل جو آج کل کے دور میں ایک بے معانی چیز ہے شناخت ایک متغیّر یا اختیا ری شے ہے۔ کوئی بھی شخص اپنی پسند کے مطابق اپنا دین۔ مذہب، زبان، علاقہ یا کوئی ایسی ثقافت چُن سکتا ہے جس میں وہ پیدا نہ ہوا ہو، حتٰی کہ بین النسلی شادی سے اگر اپنی نہیں تو کم از کم اپنی اولاد کی نسل تک بدل سکتا ہے۔ گویا شناخت پتھر پر لِکھی تحریر نہیں ہے۔

اِسی ضمن میں ٹیگور کے افسانے ”گورا“ کی مثال دینا غیر موزوں نہیں ہو گا جس میں کلکتہ کے ایک گاؤں میں گوری رنگت والا ایک ہندو پوجا پاٹ اور عقائد میں نہ صرف کٹر ویدانت، براہمنیت اور چُھوت چھات پسند واقع ہوتا ہے بلکہ انگریز سماج اوراُسکی کالونیئل حکمرانی سے بھی نفرت کرتاہے۔ حالات میں کچھ ایسا بدلاؤ آتا ہے کہ ایک دن بسترِمرگ پر اُسکا باپ اُسے بتلا دیتا ہے کہ درصل وہ ایک آئریش کرسچن میاں بیوی کا پُوت ہے۔

اُسکا باپ 1857 کے غدر میں مارا گیا اوراُسکی ماں اُسے جنم دے کرچل بسی تھی اور انہوں نے لاولدیت کے باعث اُسے پالا پوسا تھا۔ چند دن وہ بڑی کشمکش یعنی شناختی بحران میں مبتلا رہا، پھراُسکی بیوی ’سُچاریتا‘ جے اُسے سمجھایا کہ ”آدمی اپنے ماحول کی پیداوار ہوتا ہے مگر غلط رسوم ورواج یعنی چُھواچُھوت اور نفرتوں وغیرہ کو بدل بھی سکتا ہے“ جس کے بعد وہ کشٹ کر کے ایک نارمل زندگی گزارنا شروع کر دیتا ہے۔ یہی معاملہ اجتماعی یا انفرادی سطح پر مذہب، زُبان اور ثقافت کا بھی ہو سکتا ہے۔

بہرحال ایسی مثالوں سے صرف استدلال مقصود ہے یہ مُراد ہرگز نہیں کہ شناخت کی قطعاً ”کوئی اہمیت نہیں ہے۔ کیونکہ یہ اس سچائی سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ قومییتی اور صنفی سیاست اور حقوق کی جد جہد پاکستان سمیت بہت سے مُلکوں میں شناخت پر ہی مبنی ہے جس کی اپنی ٹھوس وجوہات اور اسباب ییں۔ تفہیم کی بات یہ ہے کہ کسا بھی شناختی جدوجہد کے عمل میں برتری یا کمتری کا عنصر اور امتیازی رویے، خواہ وہ کسی بھی جانب سے ہوں، خود ساختہ اورغیر فطری ہیں۔

دوسرا مسئلہ سماجی انصاف کا ہے جس کا براہِ راست تعلق درج بالا مسئلے سے ہی ہے۔ سماجی انصاف کا ایک پہلُو، سماجی انصاف کے عظیم نظریہ دان ’جاہن رالز‘ کے مطابق ریاست اور ریاستی پالیسوں سے متعلق ہے اور اِس کے تین غالب اصول ہیں :

پہلے اصول کے مطابق ہر شہری کو اُسکی بنیادی مذہبی، سیاسی، سماجی، ثقافتی آزادیاں، حقوق اور انسانی وقار حاصل ہونا چاہیے بشمول جائیداد کے حق اور ترقی کے مواقع کے ؛ دوسرا اصول کہتا ہے کہ ریاست ایسی کوئی بھی سٹرکچرل ردّوبدل کرنے میں حق بجانب ہے جس سے اقلیتوں سمیت، غریب اور پچھڑے ہوئے لوگوں کو سماجی اور معاشی افادہ اور ریلیف حاصل ہوتا ہو۔ یعنی ریاست کو ایسے اقدمات بطور پالیسی اختیار کرنے چاہییں جس سے امراء اور صنعتکار بے شک زیادہ متموّل ہو جائیں، بے شک معاشی عدم مساوات بڑھ جائے مگر غریب اور مفلوک الحال لوگوں کو بھی خاطر خواہ مالی اور سماجی افادہ پہنچے ؛ تیسرا اُصول تر جیہی اُصول کہلاتا ہے یعنی پہلے دو اصولوں میں سے کوئی بھی ایسا اُصول ہرگز اختیار نہیں کیا جانا چاہیے جس سے کسی بھی شہری کی بنیادی آزادیوں، حقوق اور وقار پر حرف آنے کا اندیشہ ہو۔

دوسرے لفظوں میں، جاہن رالز کے مطابق عدم مساوات اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے جتنا بڑا مسئلہ تفریق اور امتیازی رویّوں کا ہے کیونکی سماجی انتشار اور باہمی چپقلش کی اصل وجہ غیر منصفانہ سماج ہے۔ لاجیکلی یہاں یہ بات بھی اخذ کی جاسکتی ہے کہ موخرلذکر کی وجہ سے ہی بین المذاہبی، بین الطبقاتی اور بعض اوقات قومیتی تنازعات جنم لیتے ہیں۔ یعنی حکیم رالز کے مطابق عدم مساوات سے، جس کا خاتمہ شاید مشکل ہے، کہیں زیادہ بھاری بھرکم اور کہیں زیادہ ضروری مسئلہ اِمتیازی رویوں کا ہے اور اگر کِسی مُلک میں، جیسا کہ پاکستان میں صورتِ حال ہے، امتیازی پالیسی ادارتی یا سرکاری سطح پر اختیاریدہ ہو تو وہاں پر تنازعات کا جنم لینا لازمی اور بدیہی بن جاتا ہے۔ اس لئے انتشارکا تعلق، سراسر غربت یا مذہب یا شناخت سے جوڑنا غیر حقیقی اورغیر ثابت شدہ ہے۔ درحقیقت اِس کے ڈانڈے غیر منصفانہ تفریق اورغیرمنصفانہ ترجیحات میں پیوست ہوتے ہیں۔

عمومی نظریات اور تصورات کے بر خلاف سماجی ہم آہنگی کو درج بالا ہر دو تناظر میں سمجھنا ضروری ہے۔ ہمارے ہاں بین المذاہبی ہم آہنگی پر، افسوس پاکستان میں طبقاتی تفریق کا ذکر بہت ہی غیر فیشن ایبل رہا ہے، بحث مباحثہ، مناظرے زیادہ تر صحائف کی تفہیم و تشریح کے پس منظر میں رہے ہیں، جس میں سرکاری عملداروں کے ساتھ ساتھ سّول سوسائٹی اور دینی پیشوا بھی پیش پیش رہے ہیں۔ اولین نقطئہ نظر کے مطابق دراصل مسئلہ مذاہب کی منفرد اور جدید یا ترقی پسندانہ شرح و تفہیم سے حل کیا جا سکتا ہے جیسا کہ چارلس امجد علی، جاوید غامدی، علی اسلان اور خورشید ندیم وغیرہ سمجھتے ہیں یا پھر اِسی طرح کا پیام، پیغامِ اسلام اور صوفیانہ کانفرنسوں میں سرکاری سطح پر دیا جاتا ہے، دوسرے نقطئہ نظر کیمطابق مزاہب کی جلاوطنی یا بیک قلم منسوخی سے ہی مسئلہ کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ معروف عالمی مُلحدین ’لارنس کراس‘ ، ’سام حارث‘ اور ’رچرڈ ڈاکن‘ وغیرہ خیال کرتے ہیں۔

ایک رائے ایسی بھی ہے جس میں ہر دھرم کے مذہبی پیشوا اور سیموئیل ہنٹنگٹن جیسے سطحی مفکرین شامل ہیں جِن کی رائے میں مذہبی اور ثقافتی ٹکراؤ طے شدہ، آفاقی اور تاریخی ہے۔ وہ یہ بات سوچے سمجھے بغیر ’کہ مذہبی روایات اور ثقافتیں مسلسل بدلتی اورباہمی لین دین کرتی ہیں‘ کلَیش آف سویلائیزییشن ’اور عالمی کشیدگی پر زور دیتے ہیں۔ جبکہ تاریخ اور ترقی یافتہ معاشروں کے تجربہ سے ثابت ہے کہ سماجی بے انصافی، ادارتی تفریق اور امتیازی رویوں اوردوہرے معیارات سے ہی قومی اور بین الاقوامی تنازعات جنم لیتے ہیں اور اِنہی کے خاتمے سے ہی سماجی ہم آہنگی اور امن تشکیل دیا جا سکتا ہے۔

ثانوی نقطئہ نظر کے مطابق انتشار و فساد اور بعض صورتوں میں تشدد کے رحجانات ریاستی حکمرانوں، مولویوں، پنڈتوں اور پادریوں کا یک رخی اور یک رنگی شناخت پر زور دینے سے پیدا ہوتے ہیں اور ہوئے ہیں جس کی بد ترین مثال پاکستان، ہندوستان اور افغانستان ہیں۔ رفتہ رفتہ یہ مسئلہ میانمر۔ سری لنکا اور بنگلہ دیش میں بھی اُبھر کر شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ریاست اور سوّل سوسائٹی کے اداروں کو ایسے اقدامات کرنے چاہییں جس سے افراد اور گروہوں کی رنگا رنگ اور کثیر پہلوّی شناخت کو نوع بنوع طریقوں سے اجاگر ہو سکے۔

اس ضمن میں اکثریت اور اقلیت کا حوالہ اور شُمار بے معنی ہے کیونکہ یہ تقسیم فروعی، حادثاتی، جغرافیائی اورپیہم متبّدل ہے۔ سماجی جمہوریت کے نزدیک تعداد نہیں بلکہ متناسب نمائندگی، مساوی شہریت اور سماجی انصاف کی بنیاد پر پالیسی سازی کرنی چاہیے کیونکہ کسی ایک عقیدے، ثقافت یا دبستانِ فکر سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد زیادہ ہونا اس با ت کی دلیل نہیں ہے کہ اُن کا موقف درُست بھی ہو۔ لہٰذا لوگوں کواپنے اپنے مزاہب، شناخت اور ثقافتوں پر عمل کرنے کی تو مکمل آزادی میسر ہونی چاہیے لیکن سماجی انصاف کا تقاضا محض مساوات اور غیرامتیازی سرکاری پالیسیاں اپنا کر ہی پورا کیاجا سکتا ہے۔

جہاں تک اخلاقیات کا معاملہ ہے یہ بات وا ضح کرنا ضروری ہے کہ منصفانہ معاشرے کی بنیاد، بر خلافِ عام تصور، مذہبی اخلاقیات پر نہین ڈالی جاسکتی کیونکہ اِس میں نہ صرف مذاہب کے درمیان، با وجود اُن کے دعوٰئی مُطلقیّت اور دعوئٰ یکسانیت کے، ہرہر بات پر واضح اختلافات ہیں بلکہ ایک ہی مذہب کے مختلف فرقوں کے درمیان بھی شدید نظریاتی اور اخلاقیاتی اختلافات پائے جاتے ہیں۔

صرف جمہوری اور انسانی حقوق کی اخلاقیات ہی بڑی حد تک یونیورسل اور غیر اختلافی ہیں جن کے اِکتساب و احترام سے ہر ایک کی مادی، معاشرتی اور تفریحی تسکین کا سامان ہو سکتا ہے اور ایسے ہی معاشرے میں نہ صرف مثبت تعلیم، صحتمندانہ بحث مباحثے اور علمی و فکری اختلافات کا حُسن قائم دائم رہتاہے بلکہ سائینسی، فنی اور تکینکی ترقی بھی مسلسل جاری رہتی ہے کیونکہ یہ سب کچھ پُراَمن معاشرے میں ہی ممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).