فکری و نظریاتی جنگ


حق و باطل کے درمیان روز اول سے کشمکش چلتی چلی آ رہی ہے۔ ایک دوسرے کو مغلوب کرنے کی کوششیں بھی اسی تواتر سے ہو رہی ہیں۔ اس کے لیے ہر قسم کے اوچھے ہتھ کنڈے اختیار کیے جاتے ہیں۔ البتہ کسی قوم، ملک یا نظریے کو دوسروں پر مسلط کرنے کے لیے شروع سے اب تک دو ہی طریقے رائج ہیں۔ ایک طریقہ وہ ہے جس میں طاقت و قوت کا مظاہرہ اور جسم و اسلحے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ دونوں طرف سے خون بہتا ہے اور لوگ زخمی ہوتے ہیں۔

یہ عسکری جنگ کہلاتی ہے۔ جبکہ ایک طریقہ فکری اور نظریاتی جنگ کا ہے۔ یعنی ایسی جنگ جو آلاتِ حرب کے بجائے دیگر ذرائع سے لڑی جائے۔ جس میں کسی قوم کی ذہنیت و معاشرت، تہذیب و تمدن اور خیالات تبدیل کیے جاتے ہیں۔ اس جنگ میں جسم کے بجائے عقائد و نظریات پر حملہ ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے نظریاتی جنگ عسکری جنگ سے زیادہ خطرناک ہے۔ کیونکہ جسم کا زخم جلد یا بدیر مندمل ہو جائے گا، جبکہ عقائد پر ضرب دونوں جہانوں کا خسارہ ہے۔

نظریاتی جنگ سست رفتار کے ساتھ دائمی اثرات مرتب کرتی ہے۔ عسکری جنگ کے ذریعے حاصل کی جانی والی فتح کو نظریاتی جنگ ہی استحکام اور دوام بخشتی ہے۔ دراصل یہ جنگ کفار نے اسلام کو ختم کرنے کے لیے شروع کی ہے۔ اور اس کی ابتدا اسی وقت ہو گئی تھی جب شیطان نے آدم علیہ السلام کے دل میں وسوسہ ڈالا اور آج یہی جنگ کفار کا انتہائی مؤثر آلہ ہے۔ اور پوری دنیا میں اس کے معرکے جاری ہیں، جس میں کفار کا پلڑا بھاری ہے۔

ویسے تو اسلام کے خلاف نظریاتی جنگ کا محاذ شروع سے ہی سرگرم عمل تھا لیکن اس کا پہلا اور بھر پور وار اس وقت ہوا جب عباسی دور خلافت میں فلسفہ و منطق کی کتابیں اور عقلی علوم یورپ سے عالم اسلام منتقل ہوئے۔ اور عقلی بنیادوں پر نت نئے فتنوں کا باب کھل گیا۔ چونکہ یہ مسلمانوں کے عروج کا زمانہ تھا جو کسی طرح کفار کو گوارا نہیں تھا اور عسکری میدان میں کفار بری طرح شکست کھا چکے تھے لہذا انتقامی آگ بجھانے اور مسلمانوں کو مغلوب کرنے کے لیے وہ علوم جس پر کلیسا نے پابندی لگا رکھی تھی، انہوں نے عالم اسلام بھیج دیے۔ تا کہ عقلی علوم کے ذریعے شکوک و شبہات پیدا کرکے اسلام کی جڑیں کاٹی جا سکیں۔

اسلام کے خلاف کفار کا بغض چونکہ دائمی ہے اس لیے ان کی سازشیں اور اسلام کو ختم کرنے کی کوششیں ہر دور میں جاری رہی ہیں۔ اسی تسلسل کے ساتھ آج بھی دنیا میں کفار یہی جنگ چار محاذوں پر نئی ترکیبوں کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ ان میں سے پہلا محاذ استشراق کا ہے۔ کفار کا ایک مخصوص گروہ جنہیں مستشرقین کہتے ہیں مشرقی علوم اور تہذیب، خاص طور پر اسلام کا مطالعہ کرکے ان میں کجی اور خامیاں تلاش کرتے ہیں تا کہ اس کے ذریعے مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کیا جا سکے۔ اور دیگر اقوام کو اسلام کی طرف آنے سے روک سکے اس کے لیے وہ اسلام کی ایسی تصویر پیش کرتے ہیں جسے دیکھ کر دیگر مذاہب والے اسلام سے متنفر ہو جاتے ہیں۔ مستشرقین کی ان فریب کاریوں کی وجہ سے دنیا اسلام کا حقیقی چہرہ دیکھنے سے قاصر ہے۔ اس کے علاوہ ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مشرقی تہذیب و تمدن کا مطالعہ کرنے سے جو معلومات حاصل ہو ان کی روشنی میں ایسا لائحہ عمل طے کیا جائے جس سے استعمار اور عالمگیریت کی راہ استوار ہو سکے۔

دوسرا محاذ استعمار ہے۔ یعنی کفار کی مقتدر قوتیں دیگر علاقوں پر اپنا تسلط جماتی ہیں۔ اور اسے اپنی کالونی قرار دے کر اس کے تمام وسائل لوٹ لیتی ہیں۔ انیس اور بیسیوں صدی استعمار کے عروج کا زمانہ تھا۔ جس میں انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے 1857ء میں مغل سلطنت ختم کر کے ہندوستان پر اور اس کے علاوہ 1851ء میں نائجیریا، 1888ء میں مصر، 1898ء میں سوڈان اور 1914ء میں عراق پر قبضہ کیا۔ اس کے علاوہ روس بھی اسی ڈگر پر چلتے ہوئے ترکی کے بہت سارے اضلاع پر قابض ہوا۔

شمالی افریقہ، الجزائر، تیونس، مڈغاسکر، مراکش اور شام فرانس کے حصے میں آئے۔ صومالیہ، اریٹریا اور لیبیا پر اٹلی نے اپنے پنجے گاڑے۔ الغرض بیسویں صدی میں پورا عالم اسلام استعماری قوتوں کے زیر نگیں آ گیا تھا۔ لیکن یہ سب آناً فاناً نہیں ہوا بلکہ اس کے کے پیچھے کئی صدیوں کی مرحلہ وار محنت کار فرما تھی۔ اور یہی محنت دراصل نظریاتی جنگ تھی۔ جس کا آغاز پندرہویں صدی میں اس وقت ہوا جب کولمبس نئے تجارتی راہ ڈھونڈنے نکل پڑا۔

اس کوشش کی ایک مثال ایسٹ انڈیا ٹریڈنگ کمپنی ہے، جس کی بنیاد 1600ء میں پڑی۔ وہ لوگ جو ہندوستان میں تجارت کرنے آئے تھے اڑھائی صدی بعد یہاں کے حکمران بن بیٹھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ خلافت کا خاتمہ اور مسلمانوں کے اذہان سے خلافت کا تصور نکال دینا انگریزوں کی نظریاتی جنگ کے ذریعے حاصل کی جانی والی بڑی فتوحات میں سے ایک ہے۔

تیسرا محاذ عالمگیرییت (Globalization) کے نام سے موسوم ہے۔ عالمگیریت دراصل استشراقی اور استعماری اہداف کو مختصر مگر پر اثر راہ کے ذریعے حاصل کرنے کا نام ہے۔ باالفاظ دیگر عالمگیریت استشراق اور استعمار کا نیا ایڈیشن ہے۔ اس کی صحیح تعریف یوں ہوگی: ”عالمگیریت ایک ایسی تحریک ہے، جس کا مقصد اقتصادی، ثقافتی، معاشرتی، دینی، قومی اور وطنی امتیازات کو ختم کر کے پوری دنیا کو یہودی اہداف اور امریکی نظریے کے مطابق جدید سرمایہ دارانہ نظام کے دائرے میں لانا ہے۔“ (العولمۃ، از صالح الرقب ص 6)

عالمگیریت کو نئے عالمی نظام (New World Order) سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ دراصل یہودیوں کے اس دیرینہ عالمگیر ریاست کا خواب ہے جس کے لیے وہ صدیوں سے کوشش میں ہیں جس کا مرکز ”یروشلم“ ہو اور بادشاہ ”دجال۔“

چوتھا محاذ التنصیر (Christianity Mission) ہے۔ یعنی مسلمانوں کو مرتد بنانا اور اسلام سے خارج کر کے نصرانی بنانا۔ یہ کام جبرا اورتبلیغ دونوں ذریعے سے ہوا۔ جبرا نصرانی بنانے کا آغاز پندرہویں صدی میں اندلس میں خلافت کے خاتمے کے ساتھ ہوا۔ آگے چل کر کئی فرقوں نے اس کام کا بِیڑا اٹھایا اور انہیں ”مشنری“ کہا جانے لگا۔

ہندوستان میں ان کی آمد مغل بادشاہ اکبر کے دور میں ہوئی۔ اکبر آزاد خیال ہونے کی وجہ سے ان سے خاصا متاثر تھا۔ یہ لوگ سر عام نصرانیت کی تبلیغ کرتے اور مناظروں کے چیلنج دیتے، یہ الگ بات ہے کہ ہر بار منہ کی کھاتے۔ ان کی تبلیغ کا بڑا ذریعہ این جی اوز ہیں، جو رفاہی خدمات کی آڑ میں نصرانیت کی تبلیغ کرتے ہیں۔

ایک طرف تو باطل اتنے زور و شور سے حملہ آور ہے اور اپنا کام اس خوبی سے کیے جارہا ہے کہ آج سارا عالم اسلام ان کے شکنجوں میں جکڑا ہوا ہے۔ سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ ہم کیا کریں اور اس ذلت سے نجات کیسے حاصل کریں۔ اس کا جواب یہی ہے کہ اولا اپنی کمزوریاں دوم اپنی قوتیں پہچاننی ہوں گی۔ پھر کمزوریوں کا خاتمہ اور قوتوں پر اعتماد کرکے قدم بڑھانا ہو گا۔ اگر ہم اپنی خامیوں کا جائزہ لیں تو ہم ایمان، اعمال، علم، صحت، معیشت، سیاست، مال، وغیرہ سب چیزوں میں کمزور ہیں۔

جبکہ ہماری قوتوں میں سب سے بڑھ کر یہی ہے کہ ہم حق پر ہیں اور فتح کے وعدے، اللہ تعالیٰ کی نصرت، محفوظ اور کامل شریعت، جغرافیائی اعتبار سے مسلم ممالک کا اہم جگہوں پر قابض ہونا اور معدنی وسائل سے بھرپور ہونا اس کے علاوہ ہیں۔ لہذا جس دن ہم نے غفلت کی چادر عمل کی تلوار سے چاک کردی اس دن ہمارے عروج کی شروعات ہوں گی۔

شارق یوسف
Latest posts by شارق یوسف (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).