افغانستان سے متعلقہ دوحہ مذاکرات پرائیویٹ کنٹریکٹر چلا رہے ہیں ؟


دوحہ میں امریکہ اور طالبان کی مذاکراتی نشست کا ایک اور مرحلہ کسی اہم اعلان کے بغیر ختم ہو گیا ہے۔ اس بار مذاکرات کے آخری تین دن رمضان المبارک میں آئے۔ پہلے روزے پر فریقین نے چھٹی کی۔ طالبان کی جانب سے افغان حکومت کو مذاکرات میں شامل کرنے سے انکار بدستور موجود ہے۔ صدر اشرف غنی نے اس بار بیانات کے ذریعے خود کو فریق ثابت کرنے کی بجائے کچھ عملی چالیں چلی ہیں۔

جس وقت دوحہ میں مذاکرات ہو رہے تھے انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کو ٹیلی فون کیا اور افغانستان میں امن کے قیام کے سلسلے میں پاکستان کی کوششوں کی ستائش کی۔ ایک دو فرمائشیں بھی کیں جن کا تعلق افغان طالبان کا کابل حکومت کے لئے نرم گوشہ پیدا کرنے سے ہے۔مذاکرات سے عین قبل 3200افغان سیاستدانوں‘ سماجی رہنماﺅں‘ سرداروں اور اہم شخصیات پر مشتمل لویہ جرگہ طلب کیا گیا۔

لویہ جرگہ کے اکثر شرکاءنے صدر اشرف غنی اور ان کی حکومت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے افغان امن مذاکرات میں ان کی نمائندگی کو ضروری قرار دیا۔ لویہ جرگہ افغان روایات کے مطابق اہم قومی شخصیات کا نمائندہ پلیٹ فارم ہے۔ لویہ جرگہ کا اجلاس اشرف غنی کے لئے اس وقت کارآمد ثابت ہو سکتا تھا اگر افغان چیف ایگزیکٹو آفیسر عبداللہ عبداللہ اور ان کے حامی اس کا بائیکاٹ نہ کرتے۔

ان کی عدم شرکت سے یہ بات یقینی ہو گئی ہے کہ اگلے صدارتی انتخاب میں اشرف غنی کی جیت خاصی مشکل ہو سکتی ہے۔ اگر تب تک طالبان نے اقتدار سنبھال لیا تو امریکہ کی کٹھ پتلی حکومتوں کا سلسلہ اشرف غنی کے بعد تھم جائے گا۔

طالبان اور امریکہ کے درمیان دوحہ میں مذاکرات کا جب چھٹا دور جمعرات 9 مئی کو اختتام پذیر ہوا تو اس کے متعلق کوئی حتمی نتیجہ سامنے نہ آ سکا۔ مذاکرات میں طالبان وفد چودہ افراد پر مشتمل تھا جبکہ زلمے خلیل زاد کی سربراہی میں امریکی وفد میں وہی لوگ شامل تھے جو مذاکرات کے پانچویں مرحلے میں طالبان کے درشت اور دو ٹوک رویے کو برداشت کر چکے تھے۔ حالیہ مذاکرات میں امریکہ کی کوشش رہی کہ وہ طالبان کو جنگ بندی اور افغان حکومت سے بات چیت پر آمادہ کر سکے مگر طالبان ان معاملات پر نرمی دکھانے پر آمادہ نہیں۔

مذاکرات کے چھٹے مرحلے میں جن نکات پر طالبان اور امریکہ کے درمیان معاملات آگے بڑھے ان میں افغانستان سے امریکی انخلاءافغان سرزمین کسی اور کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کا معاملہ۔

افغانستان گریٹ گیم کا اہم میدان ہے۔1933ءسے 1973ءتک یہاں ظاہر شاہ کی بادشاہت رہی،1960ءکی دہائی میں مطلق العنان‘ بادشاہت کو آئینی بادشاہت میں تبدیل کر دیا گیا۔ ایسے بہت سے فنکار گلو کار اور شاعر اب بھی پاکستان میں موجود ہوں گے جو جشن کابل کی رونق دیکھ چکے ہیں۔ مہدی حسن اور فریدہ خانم جیسے گائیک وہاں آواز کا جادو جگا کر انعام و اکرام پاتے رہے۔

1973ءمیں ظاہر شاہ کے کزن محمد داﺅد نے ان کا تختہ الٹ دیا۔ بادشاہت کا ملک کے شہری علاقوں سے تعلق کمزور پڑ چکا تھا۔ ملک قحط سالی‘ بدعنوانی اور ناقص معاشی پالیسیوں کی زد میں تھا۔ داﺅد خان نے آئینی بادشاہت کو جمہوریہ میں تبدیل کر دیا اور خود افغانستان کا پہلا صدر بن گیا۔ افغانستان میں سرگرم کمیونسٹ پارٹی(پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی آف افغانستان) کے ایک دھڑے نے محمد داﺅد کی حمائت کی۔

پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کے سوویت یونین کے ساتھ مضبوط تعلقات تھے۔1976ء میں داﺅد خان کو پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کے بڑھتے عوامی اثرورسوخ پر تشویش ہونے لگی۔ اس نے پارٹی کا اثرورسوخ کم کرنے کی کوشش کی۔ پارٹی کے لوگوں کو حکومت سے نکال دیا۔ ان کی جگہ قدامت پسندوں کو عہدے دیدیے۔ پھر پارٹی کو تحلیل کرنے کا حکم دیدیا۔ اپریل 1978ءمیں پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کے ساتھ وفادار فوجی دستوں نے داﺅد خان کو قتل کر دیا۔

اس کا خاندان اور محافظ بھی مارے گئے۔ پارٹی نے حکومتی امور چلانے کے لئے انقلابی کونسل تشکیل دیدی مگر اسے عوامی حمائت نہ مل سکی۔ حفیظ اللہ امین جیسا سفاک اقتدار میں آیا اور اس کا بھی اختتام موت پرہوا۔ سوویت یونین کی مداخلت۔ پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی افغانستان کا کردار اور پھر جہاد سے طالبان حکومت تک پہنچتے پہنچتے معلوم ہوتا ہے کہ نصف صدی سے یہ بدنصیب ملک جنگ اور تباہی کا شکار ہے۔

امریکہ سے مذاکرات کا محور اگر صرف امریکی بوجھ میں کمی کرنا ہے تو ان مذاکرات سے کچھ زیادہ امید نہیں لگانی چاہیے۔ انخلاءکے بعد افغانستان کے ہمسائے اگر ایک بار پھر یہاں پراکسی جنگ پر تیار ہو گئے تو افغانستان کا بطور ریاست وجود خطرے کا شکار ہو سکتا ہے۔ امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں قیام امن‘ قیدیوں کی رہائی شامل ہیں۔ افغان حکومت سے بات چیت کو طالبان نے انخلا کے بعد کا معاملہ قرار دیا ہے۔

زلمے خلیل زاد دوستوں اور دشمنوں کی صفوں میں داخل ہو کر گنجائش بنانے کے ماہر ہیں۔ افغان پالیسی کو ان کے حوالے کر کے امریکہ گویا اجرت پر سفارت کاری کو رواج دے رہا ہے۔ پرائیویٹ سکیورٹی کنٹریکٹر متعارف کرانے کے بعد امریکہ اب سفارت کاروں کو بھی پرائیویٹ انداز میں چلا کر کچھ نئی بین الاقوامی روایات کو فروغ دے رہا ہے۔یہ تجربہ ریاست کے اخراجات کم کرنے کی کوششوں اور ریاست کو کم سے کم تنازعات میں مداخلت کرنے کی منصوبہ بندی کا حصہ دکھائی دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).