سٹیٹ بینک کا ممکنہ گورنر، غربت کی موت اور خالق کی درگاہ پہ جانے والے


وہ پاکستان کے سٹیٹ بنک کا گورنر بننے کی خواہش دل میں لئے موت سے لڑتارہا اگرچہ وہ موت کو تو شکست تو نہ دے سکا مگر مقامات مقدسہ جانے والوں کے لئے ایک اہم سوال چھوڑ گیا مگراس کی موت میرے بھی ذہن کو جھنجوڑ نہ سکی تھی۔ شاید اس کی وجہ اس کے گھر والوں کی ظاہری سفید پوشی ہو۔ حالانکہ وہ مقامی اور قومی میڈیا کے ذریعے پوری قوم سے اسے موت کے منہ جانے سے بچانے کی دہائی دیتے رہے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

وہ شخص کون تھا اس کے بارے میں تفصیل میں جانا شاید مناسب نہ ہو مگر اتنا بتاتا چلوں کہ وہ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت میں شعبہ اکنامکس کا طالب علم تھا جو اس شعبہ میں تعلیم مکمل کرکے معاشی امور کے ماہر کی حیثیت سے سٹیٹ بنک کا گورنر بننا چاہتا تھا وہ بون میرو نامی موزی مرض سے لڑتے لڑتے زندگی کی بازی ہار گیا ہے۔ وہ خیراتی اداروں کے ساتھ ساتھ مخیر حضرات سے بھی اپنی زندگی بچانے کے لئے مالی امداد مانگتا رہا انہیں تھوڑی بہت امداد ملی بھی ضرور مگر اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی اس لئے وہ زندگی کی بازی ہار گیا۔

اب سوشل میڈیا پر گلگت بلتستان سمیت ملک کے مختلف علاقوں سے ہر تیسرے روز کسی لاچار بندے کی طرف سے فریاد سامنے آتا ہے کہ جس میں اپنے کسی عزیز کا علاج کرانے سے قاصر ہونے پر مجبور ہو کر مخیر حضرات سے امداد کی اپیل کرتے نظر آتے ہیں اس طرح کے امداد کی اپیل کرنے والوں میں گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے تعداد زیادہ نظر آتی ہے جو کہ پورے ملک کی مجموعی صورتحال کا عکاس بھی ہے۔ ایک طرف جہاں گلگت بلتستان کے لوگوں کی بڑی تعداد اپنے علاج معالجے کے لئے امداد مانگنے پر مجبور نظر آتے ہیں وہیں پر گلگت بلتستان سے لوگوں کی بڑی تعداد حج، عمرہ اور زیارات کے لئے مقامات مقدسہ کی طرف رخت سفر باندھتے نظر آتے ہیں تو ایسے لاچار اور مجبور لوگوں کی موجودگی میں ان لوگوں کو مقدس مقامات پر جانے کے عمل پر سوال اٹھتا ہے۔

مگر وہ ان مقامات مقدسہ کے تقدس کو مشکوک بنانا یا ان کی اہمیت کو کرنا نہیں بلکہ اپنے اعمال پر نظر ثانی کے لئے متوجہ کرنا ہے کیونکہ مقامات مقدسہ خاص طور خانہ کعبہ، مسجد نبوی، روضہ رسول، نجف اشرف، کربلامعلی اس کائنات کے بہترین اور قابل رشک مقامات میں سے ہیں اگر کوئی ان مقامات کی اہمیت کا منکر ہو جائے تو ان مقامات کے تقدس میں تو کوئی کمی تو نہیں ہو گی مگر اس کی اپنی عاقبت تو برباد ضرو ر ہو جائے گی تاہم دیکھنا یہ ہوگا کہ ان مقامات پر جانے سے وہ ہستیاں خوش ہوں گی تو بادی النظر میں شاید جواب ”ہاں“ میں مل جائے مگر اس کا تجزیہ کیا ہے تو جواب ”ہاں“ میں ملنا نہ صرف مشکل ہے مگربسا اوقات ناممکن نظر آتا ہے، کیونکہ ان کے روضہ پر جانے سے زیادہ ان روضہ والوں کے نقش قدم پر چلنا اہم ہے۔

کیونکہ علم کی ابتدا خدائے بزرگ و برتر کو پہچانے کے بعد اس کے بتائے ہوئے احکامات پر عمل درآمد ہے۔ اور اُس خدائے بزرگ برتر نے اپنے ان برگیذہ بندوں کے ذریعے زندگی کے ہر موڑ کے لئے کچھ رہنما اصول واضح طور پر بیان کیے ہوئے ہیں ان رہنما اصولوں میں سب سے بڑا اصول بے بس و لاچار انسانوں کی مدد ہے۔ ان بے بس لاچار لوگوں میں مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ بے وقت موت کا شکار ہونے والے سر فہرست ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے بارے میں سبھی لوگ جانتے ہیں اس کے باوجود لوگوں کا حج، عمرہ اور زیارت پر چلے جانا بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

البتہ حج فرض ہونے کی وجہ سے شاید کوئی جواز پیش کر سکے مگر مؤخر الذکر دونوں فرض تو نہیں تاہم سنت سمجھ کر اتنی بڑی رقم خرچ کرنے سے پہلے سنتوں کی فہرست بنا کر ترجیحات طے کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ ان رقوم کو کہاں خرچ کرنے سے مالک حقیقی اور اس کے محبوب کی خوشنودی حاصل ہو گی۔ اور یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ حج زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے ورنہ سید لولاک خود فتح مکہ کے بعد ہر سال حج فرماتے رہتے۔

اس کی وجہ شاید قرآن جو ہماری زندگی کے لئے رہنما اصول بتاتا ہے اس پر غور نہ کرنا ہے۔ اگر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ قرآن کا موضوع انسان ہے جس کا ذکر پہلی وحی سے ہی ملتا ہے اور اسی انسانیت کی بہتری تمام انبیاء اولیاء کی تعلیمات کا مرکز و محور رہا ہے۔ اور اسی قرآنی اصول کی روشنی میں ایک انسان کو بچانا پوری انسانیت بچانے کے برابر قرار دیا گیا ہے۔

ایک روایت جو الصحِیح اور صحِیح الترغِیبِ والترہِیب نامی حدیث کی کتابوں سے ماخوز ہے۔ یہ حدیث انسانیت کی بہتری کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے ”ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا، اور عرض کی، اے اللہ کے رسول، اللہ کے ہاں محبوب ترین کون ہے؟ اور کون سے اعمال اللہ کو زیادہ پسند ہیں؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک محبوب ترین وہ ہے، جو لوگوں کو زیادہ فائدہ پہنچانے والا ہے، مشکل دور کرتاہے، قرض ادا کر دیتا ہے، بھوک مٹاتا ہے۔

اور کسی شخص کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس کے ساتھ چلنا، مجھے مسجد نبوی میں ایک ماہ کے اعتکاف سے بھی زیادہ پسند ہے۔ ”اس طرح صحیح مسلم سے ماخوذ ایک روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ والسلام نے ارشاد فرمایا: جبریل ہمسایہ کے بارے میں مجھے وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ وہ اسے وارث بنا دیں گے۔ ہمسایہ میں اپنے ہم مذہب و ہم مسلک ہونا بھی شرط نہیں ہے۔ اور جب کوئی مجبور ہو جائے تو دشمنی خاطر میں نہیں لائی جاتی ہے اس دین مبین کی تعلیمات کا حصہ ہے حضرت امام زین العابدین کا اپنے والد اور چچا کے قاتل کو انجان بن کر پانی پلانا اس بات کا واضح ثبوت ہے۔

اس طرح کی احادیث و اقعات ہماری انسانیت، مسلمانیت اور حسینیت کے دعویٰ کو چوک چوراہے پر بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہیں۔ حج کے معاملے میں قابل غور بات ہے جو استطاعت رکھے اس پر جج واجب ہے۔ اس سے پہلے قرآن کی سورة الذاریات آیت نمبر 19 کے مطابق ہمارے مال پر مانگنے والوں اور محروم لوگوں کا بھی حصہ ہے۔ اس قرآنی ہدایت نامے کے فارمولے کے مطابق اگر ہم بہت زیادہ امیر ہیں اور ہمارا پڑوسی بہت زیادہ غریب تو اس کا مطلب ہوا کہ ہم نے ان کا حق مارنے کی وجہ سے ہم اتنے مالدار ہوئے ہیں۔

اس آیت کی سب سے خوبصورت تشریح صاحب تفہیم القرآن نے بڑی خوبصورت انداز میں کی ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ ضرورت مندوں کی مدد خیرات سمجھ کر کرنے کے بجائے اپنا فرض سمجھ کر کرنا چاہیے اور وہ ضرورت مند سائل بن کر آنے کا انتظار نہ کیا جائے بلکہ کسی کے ضرورت مند ہونے کا علم ہو جائے تواس کی مدد کے لئے پہنچ جائے۔ صاحب تفہیم القرآن نے ابن عباس، مجاہد اور زید بن اسلم سے روایت کا مفہوم بیان کیا ہے کہ اس کے مطابق اس آیت میں محروموں اور مسکینوں کا جو حق بیان کیا ہے اس سے مراد شرعاً ان پر فرض ہونے والے زکوة کے علاوہ ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ”اس ارشاد الہی کی اصل روح یہ ہے کہ ایک متقی و محسن انسان کبھی اس غلط فہمی میں مبتلاء نہیں ہوتا کہ خدا اور اس کے بندوں کا جو حق میرے مال میں تھا کہ ذکوة ادا کر کے میں اس سے سبکدوش ہو چکا ہوں، اب میں نے اس بات کا کوئی ٹھیکہ نہیں لیا ہے کہ ہر ننگے بھوکے، مصیبت زدہ آدمی کی مدد کرتا پھروں۔ اس کے برعکس جو اللہ کا بندہ واقعی متقی و محسن ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت ہر اس بھلائی کے لئے جو اس کی بس میں ہو دل و جان سے تیار رہتا ہے“۔

ظاہر ہے جب ہم زائد مال کو ان مجبوروں اور لاچاروں پر خرچ کریں گے ہمارے پاس نہ حج، عمرہ یا زیارت کے لئے جانے کے لئے کچھ نہیں بچے گا لہذا اس کا مفہوم ہمارے ذہین میں آتا ہے وہ یہ ہے اگر ایسے لاچاروں اور مجبوروں کی مدد کے بعد بچنے والی رقم سے حج، عمرہ اور زیارت کے لئے چلے جائیں تو اللہ کے ہاں مقبول ہوگا ورنہ اپنی انا کی تسکین تو ہو سکتی ہے مگر اللہ کی خوشنودی حاصل ہونا بہت مشکل ہے۔ اس لئے خالق اور خالق کے محبوبوں کے درگاہوں پہ جانے سے پہلے اس کی مخلوق کا خیال رکھ کر ذات باریٰ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی سکتی ہے جو کہ و مقصدِ اصلی یعنی باریٰ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).