ماں جی آپ کے نام


جون کے مہینے کا ایک گرم ترین دن تھا، وہ ایئر فورس کے ایک کالج میں انگریزی کی ٹیچر تھیں۔ اور اسی کالج سے غالبا وہ پچھلے 15 سال سے وابستہ تھیں۔ وہ کالج سے پڑھا کے گھر واپس پہنچیں، استاد کے غرور کا نشان، وہ کالا گاؤن اتارا اور اس کو کھونٹی پہ ٹانگہ۔ ان کے ہیل والے جوتوں کی آواز آج بھی میرے کان نہیں بھولے۔

انہوں نے ہاتھ دھوئے اور کچن میں دوپہر کے کھانے کی تیاری میں لگ گئیں۔ بچے آئے تو ان کو جلدی سے کپڑے تبدیل کرنے کا کہا، کھانا میز پر لگایا، بچوں کو بٹھایا، کھانا کھلایا، کچن سمیٹا، ظہر کی نماز ادا کی۔

ابھی بیٹھی ہی تھیں اخبار لے کر، کہ ٹیوشن پڑھنے کے لیے بچے آنا شروع ہو گئے۔ اِس سب میں کب عصر ہوئی اور کب مغرب، وقت گزرنے کا پتہ ہی نا چلا۔ تھکاوٹ کے آثار اب چہرے پر نمایاں تھے، لیکن رات کا کھانا بھی پکانا ہے ابھی، اپنے بچوں کو بھی دیکھنا ہے کہ کتنا پڑھا ہے آج، شوہر بھی پورے دن کے بَعْد تھکا ہارا ابھی گھر پہنچا ہی تھا۔ رات کے کھانے اور ایک مرتبہ پِھر کچن صاف کرنے تک رات کے دس بج چکے تھے۔

عشاء کی نماز پڑھی اور اس کے ساتھ ہی ان کا دن تمام ہوا۔

یہ ایک عام سا دن تھا میری ماں جی کا۔

ہم تِین بہن بھائی ہیں، دو بڑی بہنیں اور ایک میں سب سے چھوٹا بھائی۔ بڑی بہن متحدہ ہائے امریکا اور میں آسٹریلیا میں رہتا ہوں۔ دوسری بہن شادی کے بعد اسلام آباد میں ہی رہتی ہے۔

ماں جی پچھلے پینتیس سال سے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ آج تک ہمیشہ سوچا کہ کچھ لکھنا ہے ماں جی کے بارے میں، لیکن شاید ان کا رتبہ، ان کا درجہ اتنا بلند ہے کہ جب بھی لکھنے بیٹھوں، الفاظ ہی نہیں ملتے کہ کچھ لکھ پاؤں میں۔ انہوں نے بہت محنت کی، اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے، بچوں کی یونیورسٹیز کی فیس پوری کرنے کے لیے شام دیر دیر تک ٹیوشنز پڑھائیں

لیکن اِس سب کے باوجود، اپنے گھر کو، اپنے خاندان کو، بکھرنے نہ دیا۔ یہ ہی کوشش کی کہ زندگی کی غلام گردشوں میں بچے اور پورا گھرانا گم نہ ہو جائے

ان کے ہاتھوں سے ہزاروں بچے پڑھ کر نکلے، اور ہر جگہ پہ اپنا اپنا مقام، اپنا نام پیدا کیا۔ میری ماں جی، اللہ انہیں عمر خضر عطا فرمائے، ایک قابل خاتون کی زندہ مثال ہَیں، نوکری بھی کی، گھر بھی سنبھالا، رشتے داریاں بھی نبھائی، بچوں کو بھی پڑھایا، شوہر کے ساتھ ہر اونچ نیچ میں ایک دیوار کی طرح کھڑی رہیں، پانچ لوگوں کے خاندان کو یکجا رکھا، اپنا کیئریر خود بنایا، اور اسی معاشرے میں رہتے ہوئے اس شاندار کیئریر پر آنْچ تک نہ آنے دی۔

لیکن آج بھی اللہ کے فضل سے وہ تھکی نہیں ہیں۔ آج بھی اسلام آباد کے ایک نامور ادارے سے وابستہ ہیں۔ روز جاتی ہیں، پڑھاتی ہیں، خوش رکھتی ہیں، خوش رہتی ہیں۔ اپنے نواسے نواسیوں میں ان کے جان ہے۔

حسن نثار صاحب نے 2014 میں ایک کالم لکھا تھا ”ماں“ کے نام سے۔ اس کا ایک بہت ہی پیارا جملہ یاد ہے ”کون کہتا ہے کہ ماں تقسیمِ نہیں ہوتی، ماں ہی تو تقسیمِ ہوتی ہے۔ “ ماں جی بھی بیک وقت، امریکہ میں بھی ہیں، آسٹریلیا میں بھی اور اسلام آباد میں بھی۔ تقسیمِ دَر تقسیمِ ہونے کے باوجود آج خود بھی قائم ہیں۔ احترام، محبت، احسان، صلہ رحمی سب کچھ ماں جی کی بدولت ہے۔

لیکن یہ ایک نامکمل تحریر ہے، شاہینہ امتیاز کے نام، ایک نامکمل تحریر ماں جی کے نام، ماؤں کے عالمی دن کے موقع پر۔ ایک ایسی تحریر جس کو شاید میں اپنی پوری زندگی میں ختم نہ کر سکوں، کیوں کہ ہر ماں کی طرح، میری ماں بھی عظیم ہے۔ اور عظیم لوگ ایک تحریر میں نہیں سماء سکتے۔

منور رانا صاحب کے ایک نظم ماں جی، آپ کے نام:

لبوں پر اس کے کبھی بدعا نہیں ہوتی،

بس اک ماں ہے جو کبھی خفا نہیں ہوتی،

اِس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے،

ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رَو دیتی ہے،

میں نے روتے ہوئے پونچھے تھے کسی دن آنسو،

مدتوں ماں نے نہیں دھویا دوپٹہ اپنا،

ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہوگا،

میں جب گھر سے نکلتا ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہے،

جب بھی کشتی میری سیلاب میں آ جاتی ہے،

ماں دعا کرتی ہوئی خواب میں آ جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).