مسلم دانشوروں سے شدت پسند علما کی زیادتیاں


میں نے 12 اور 22 اپریل کے ”ہم سب“ میں چھپے ہوئے مضامین میں کئی ایسے عوامل کا ذکر کیا تھا۔ جس سے مسلم سائنس صدیوں پہلے زوال پذیر ہوگئی تھی۔ یورپین سائنس کے تیزی سے آگے بڑھنے کی وجوہات بارے بھی بتایا گیا تھا۔ جگہ کی تنگ دامانی کی وجہ سے کئی وجوہات کا ذکر نہ ہوسکا تھا۔ زوال پذیری کی ایک وجہ کا ذکر آج کیاجا رہا ہے۔ جونہی یونانی سائنس اور فلسفہ ترجمہ ہوکر عرب علاقوں میں آئے۔ عربوں نے اسے سمجھا، اس پرغور و خوض کیا اور اس میں اضافے شروع کر دیئے۔

یہ کام صدیوں تک عراق، شام، شمالی افریقہ اور اندلس کے تعلیمی اور تحقیقی اداروں میں ہوتا رہا۔ 5۔ صدیوں تک علم کی شمع مسلم تہذیب میں روشن رہی۔ اس شمع کو روشن رکھنے میں الکندی فارابی، ابن سیناء، عمرخیام، الخوارزمی، ابن الہشم اورابن خلدون اور کئی دیگر ستارے شامل رہے۔ اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو اس دعوے کی سچائی مشتبہ رہتی کہ مسلمانوں کا تمدن دنیا کے عظیم تمدنوں میں سے ایک ہے۔ جیسا کہ میں پہلے ایک مضمون میں عرض کرچکا ہوں کہ منگول حملے بھی مسلم دانشوروں کو سائنس، فلسفہ، ریاضی اور فلکیات میں ہونے والی تحقیقات سے نہ روک سکے۔

البتہ ان دانشورانہ کاموں میں سب سے بڑی رکاوٹ مسلم معاشرے کے اپنے شدت پسند اور بنیاد پرست لوگ تھے۔ کڑمذہبیت اور دنیوی علوم میں کشیدگی اس دن شروع ہوگئی تھی جب مسلم تہذیب میں یونانی فلسفہ اور سائنس کا تعارف ہوا۔ سکندریہ، آیونیہ، ایتھز اور بعد میں قسطنطنیہ سے یونانی علوم کی کتابیں لائی گئیں۔ اور ان کے عربی میں تراجم شروع ہوئے۔ تب ایسا محسوس ہوتاتھا کہ مسلم صاحبان فکروخیال ان علوم کے منتظر تھے۔ شدت پسند اور بنیاد پرست علما نے شروع سے ہی ان علوم کی مخالفت شروع کردی تھی۔

طاقتور علما کے غیظ وعضب سے بچنے کے لئے دانشوروں نے روشن دماغ خلفا اور حکمرانوں سے حمایت حاصل کی۔ کچھ دانشوروں کو خلفا کی حمایت سے فائدہ بھی حاصل ہوا۔ علما کی مخالفت کی وجہ سے فلسفہ اور سائنس صرف خواص تک محدود ہوکر رہ گئے۔ مسلم معاشرے کے عوام تک یہ علوم کم ہی پہنچ سکے۔ کام کرنے کے لئے مسلم سائنسدانوں اور فلاسفرزکو کم ہی کھلا ماحول مل سکا۔ لیکن صدیوں تک مشکل حالات میں بھی کام جاری رہا۔ زیادتیوں کا شکار بہت سے لوگ ہوئے لیکن ہم ان میں سے چند کا ہی ذکر کریں گے۔

الکندی عربوں کے فلاسفر کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ مختلف علوم پر ان کی 270 کتابیں ہیں۔ وہ قدیم فلسفیوں میں شمار ہونے والے واحد عرب مسلم فلسفی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سچائی آفاقی اور اعلیٰ ترین ہوتی ہے۔ فلسفہ اس پیغام کی ایک اور شکل ہے جو پیغمبرز وحی کے ذریعے لاتے رہے۔ انہوں نے وحی کا انکار نہیں کیا۔ الکندی کے نزدیک سچائی کے بہت واضح معنی تھے۔ وہ معنی جس کی تشریح افلاطون، ارسطو اور دیگر یونانی حکما کرتے رہے ہیں۔

الکندی

معقولیت پسند ہونے کی حیثیت سے الکندی نے یہ تجویز پیش کی کہ مقدس کتاب کی ان ان عبارتوں کو جن کی لفظی تفسیر حقیقت کے خلاف ہو، خردمند انسانوں کی رہنمائی کے لئے کنایہ سمجھنا چاہیے۔ امثالی تفسیر کو جائز ثابت کرنے کے لئے الکندی نے عقلی دلائل پیش کیے۔ امثالی استدلال کی ایک مثال قرآن کی وہ آیت ہے جس میں ایمان لانے والوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ سورج، چاند، تارے، پہاڑ، درخت اور درندے اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ الکندی کے نزدیک سجدہ کرنے سے مراد اللہ کا حکم ماننا ہے۔

اس استدلال کو مزید وسعت دے کر الکندی کہتا ہے یہ ایک کائناتی قانون کا وجود ہے۔ جس کی تعمیل مادے کے تمام جاندار اور غیر جاندار انواع پر فرض ہے۔ الکندی کے نزدیک اگر تفسیرمعقول انداز سے کی جائے تو یہ عقل کو بھاتی ہے۔ الکندی جو ایک بڑے دانشور تھے تین خلفا المامون، المعتصم اور المواثق کے دور میں ایک ستارے کے طورپر چمکتے رہے۔ پھر شدت پسندوں نے بادشاہ کو قائل کرلیا کہ یہ دانشور بہت خطرناک عقائد کا حامل ہے۔

خلیفہ متوکل نے لوگوں کے اکسانے پر الکندی کے کتب خانے کو ضبط کرنے کا حکم دے دیا۔ 60 سالہ فلسفی کو سرعام 50 کوڑے مارے گئے۔ سرعام کوڑوں کی سزا اس کے دل میں بیٹھ گئی۔ وہ بالکل خاموش ہوگیا۔ یہ پہلا دانشور تھا جو شدت پسندی اور بنیاد پرستی کے ردعمل کا شکار ہوا۔ بہت جلد وہ وفات پاگیا۔ معروف طبیب الرازی ( 865 تا 925 ء) دنیائے اسلام کے بہت بڑے طبیب ہوگزرے ہیں۔ طب کے شعبے میں ان کے عظیم کارناموں کے سبب انہیں عرب کا جالینوس کہا جاتا تھا۔

بغداد میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ تہران کے قریب ایک سرکاری ہسپتال میں مہتمم مقرر ہوئے۔ وہ اپنے شفاخانے میں امیروں اور غریبوں کا یکساں خیال رکھتے تھے۔ الرازی کا یونانی عقلیت سے تعلق الکندی سے بھی زیادہ تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ اللہ نے انسان کو پیدا کیا اور عقل کا ایک حصہ انسان کے لئے ودیعت کردیا۔ اور اسے مادی کائنات کو سمجھنے کے قابل بنا دیا۔ اور آج کل ہم دیکھ رہے ہیں کہ انسان کو کائنات کی بہت سمجھ آرہی ہے۔ کائنات کے خفیہ گوشے اس پر وا ہو رہے ہیں۔ مذہب کے متعلق الرازی کے غیر مقلدانہ نظریات نے اسے مسلم حلقوں میں غیر مقبول بنادیا۔ الرازی کافی حدتک آزاد خیال تھا۔ اپنے خیالات کی وضاحت وہ کھلے عام کرنے لگا۔ اسے اس کی بھاری قیمت اداکرنی پڑی۔ بات کرنے کا ہر ایک کا اپنا انداز ہوتا ہے۔ اس نے ایسے الفاظ کا بھی استعمال کیاجس سے وحی کی نسبت عقل کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ بہت تیزی سے دانشوری سے معمور اس کی کتابیں گمنامی کی نذر ہو گئیں۔

بخارا کے ایک قدامت پرست خاندان کے ایک امیرنے الرازی کے لئے ایک بہت ہی سخت سزا کا حکم سنادیا۔ امیر نے طیش میں آکر یہ حکم دیاکہ الرازی کو اس کی اپنی کتاب سے اتنا ماراجائے کہ یا تو اس کا سر یاکتاب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے۔ اس سزا سے اس کی بینائی ضائع ہوگئی۔ جب معالج نے تجویز دی کہ اس کی آنکھوں کا علاج ہوسکتا ہے تو اس نے کہا میں نے دنیا کو بہت دیکھ لیا اورمجھے یہ خیال پسند نہیں کہ اسے مزید دیکھنے کے لئے جراحی کراؤں۔ یوں ہمارا ایک دوسرا بڑا دانشور بھی شدت پسندی اور قدامت پرستی کا شکار ہوگیا۔

al-Razi (AD 865-925)

ایسے ہی ابن سیناء ( 890 تا 1037 ء ) کے ساتھ بھی ظلم ستم کیاگیا۔ ابن سیناء کو قبل ازوقت تخلیق پانے والا غیر معمولی ذہین شخص سمجھا جاتا ہے۔ اس کے کارنامے اور تحریریں کئی شعبوں پر محیط ہیں۔ وہ ستر سال کی عمر میں ایک معروف طبیب بن گیاتھا۔ ارسطو کی مابعد الطبیعات پر اس کو مکمل عبور حاصل ہوگیاتھا۔ جدید دور کی طب کے وجود میں آنے تک اس کی کتاب القانون صدیوں تک یورپ کے تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل رہی۔

اس کے علاوہ اس نے حکمت ودانائی پر بھی بڑاکام کیا۔ اس کی کتابیں، فلسفہ، منطق اور طب پر بہت مشہور ہیں۔ اسلام پر ابن سینا کا ایمان توتھا۔ لیکن وہ غیر مقلد تھا۔ علمی تحقیقات کے دوران اسے بہت سی تکالیف کا سامنا کرناپڑا۔ الکندی کی طرح ابن سینا ء بھی آزاد خیال فلسفی تھا۔ عقلی استدلال پر یہ بہت زور دیتے تھے۔ ایک دفعہ اس کے عقائد وخیالات سے ناراض عوام اور سپاہیوں کا ایک گروپ اس کے گھر آیا۔ تاکہ اسے قتل کردیاجائے۔

لیکن وہ پہلے ہی کسی دوسری جگہ اپنے دوست کے پاس پناہ لے چکے تھے۔ ابن سیناء کئی بار سزا سے بچنے کے لئے فرارہوئے۔ حکمرانوں نے اس کی کتابوں پر پابندی عائد کردی۔ اس کے بہت سے مخالفین پیدا ہوگئے تھے۔ دوستوں نے اسے اعتدال میں رہنے کا مشورہ دیا۔ لیکن ابن سیناء نے کہا ”میں کم طویل لیکن زیادہ وسیع زندگی کو زیادہ طویل مگرتنگ زندگی پر ترجیح دیتا ہوں“ یہ دانشوراپنے راستے پر جرات سے چلتے رہے۔ مذہبی عقائد اور سائنس ومنطق کے درمیان امتزاج کی کوشش کرتے رہے۔

باربار ابن سیناء کوعلما کے غیض وغضب کانشانہ بننا پڑا۔ عوام اور بہت سے علما انہیں بدعتی کہتے تھے۔ اس کا انہیں بڑا رنج تھا۔ انہیں اپنے عہد کے بعد کی صدیوں میں بھی بدعتی سمجھا جاتارہا۔ حتیٰ کہ امام غزالی نے بھی ابن سیناء کو منکر خداقرار دیا۔ ”ارسطو کے فلسفہ کی اشاعت وترویج کی وجہ سے ہمیں 2۔ فلسفیوں ابن سیناء، الفارابی اور ان کے پیروکاروں کو منکر قرار دے دینا چاہیے“ موجودہ دور کے بنیاد پرست اورشدت پسندبھی مسلمان دانشوروں اور سائنسدانوں کو مطعون قراردیتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2