وہ بچہ کہتا تھا کہ ٹیچر میں لوزر نہیں ہوں


اس کی عمر نو دس برس ہو گی۔ وہ بہت کم بولتا تھا اور اس کی کسی سے کچھ خاص دوستی بھی نہیں تھی۔ کبھی کبھی اسے دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے اسے کسی کی ضرورت ہی نہیں، دوستوں کی بھی نہیں۔ اس عمر کے بچے جیسے خوش باش اور انرجی سے بھرپور ہوتے ہیں اس کے برعکس وہ کافی خاموش اور سنجیدہ تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بیمار یا کمزور تھا، ذہنی اور جسمانی طور پر وہ بالکل فٹ تھا۔ پابندی سے اسکول آتا اور نہایت دلجمعی سے پڑھتا تھا۔

اسکول میں کرایا جانے والا کام جلد سیکھ لیتا اور اپنا کام مکمل یکسوئی سے کرتا، یوں بھی توجہ ہٹانے والا کوئی دوست بھی تو نہیں تھا اس کا۔ اپنا کام ختم کرتا اور اس کے بعد کبھی کبھار اگر اسے کچھ فارغ وقت مل جاتا تو ادھر ادھر دیکھنے یا کسی سے بات کرنے کے بجائے وہ یا تو اپنا بیگ ترتیب دینے لگتا یا پھر اپنا پینسل باکس نکال کے ڈیسک پر رکھتا اور اپنی پنسلوں کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں گھماتا رہتا۔ ایسا کرتے وقت وہ ان پنسلوں کو بہت غور سے دیکھا کرتا تھا کبھی کبھار تو انھیں دیکھ کر ایسے مسکراتا کہ جیسے وہ بے جان پینسلیں نہ ہوں بلکہ کوئی جیتا جاگتا وجود ہوں۔

آس پاس کے ماحول سے یکسر بے خبر، سب سے لاتعلق، کھویا کھویا سا۔ کچھ دن سے عجیب بات ہوئی، وہ رونے لگا۔ چپ چاپ، بے آواز، اتنی خاموشی سے کہ پتا بھی نہیں چلتا تھا کہ رو رہا ہے۔ آنسو تھے کہ ٹپکتے ہی جاتے اور ایسے کہ رکنے کا نام نہ لیتے۔ اس کی چھوٹی سی ناک سرخ ہوجاتی اور پورا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ جاتا۔ اس رونے نے اس کی روز مرہ روٹین پر کوئی فرق نہیں ڈالا وہ اسی توجہ سے اپنا کام کرتا اور کام مکمل کرنے کے بعد بالکل پہلے جیسے اپنے بستے یا پنسلوں کو ترتیب دیتا رہتا البتہ اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہتے رہتے۔

دوسرے بچے اس کی طرف اشارے کرتے یا اس کی جانب دیکھتے ہوئے سرگوشیاں کرتے مگر اس سب سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ اس کی ٹیچر نے کئی بار پوچھا مگر جواب میں خاموشی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ ایک دن وہ کچھ زیادہ ہی پریشان تھا وہ کام بھی نہیں کر پا رہا تھا ڈیسک پر کہنیاں ٹکائے اپنا چہرہ ہاتھوں میں تھامے بس روئے جا رہا تھا۔ اسکول بریک میں جب سب بچے کلاس روم سے باہر چلے گئے تو ٹیچر نے اسے اعتماد دلایا کہ وہ ان سے بات کر سکتا ہے اور اپنی پریشانی ڈسکس کر سکتا ہے۔

وہ اپنی ٹیچر کو غور سے دیکھتا رہا جیسے فیصلہ کر رہا ہو کہ اسے اپنی ٹیچر کو یہ بات بتانی چاہیے یا نہیں پھر اس نے اپنی ٹیچر پر بھروسا کر ہی لیا۔ ”پاپا“ اس کے رونے میں شدت آگئی ”آئی مس پاپا“۔ ”آپ کے پاپا کو کیا ہوا“ ٹیچر نے پوچھا۔ ”کچھ بھی تو نہیں“ وہ معصومیت سے بولا۔ ٹیچر نے سوچا کہ بچے کے والد اس سے دور رہتے ہیں اور یہ ان کو یاد کرتا ہے۔ سوال کیا ”بیٹا آپ کے پاپا کہاں ہوتے ہیں“ جواب ملا ”یہیں“۔

”یہیں؟ مطلب آپ کے ساتھ رہتے ہیں؟ “ حیرت سے پوچھا۔ ”جی“ کیسی بے بسی تھی اس کے لہجے میں۔ ”پھر بھی آپ ان کو مس کرتے ہو“ آنکھیں مسلتے ہوئے اس نے اثبات میں سر ہلا دیا اور پھر وہ دھیرے دھیرے بولا، ”پاپا آفس سے آتے ہیں تو بھی بہت بزی رہتے ہیں مجھ سے تو ایک بات بھی نہیں کرتے اور جب میں ان سے بات کرتا ہوں تو وہ سنتے ہی نہیں، میں ان کو نظر آتا ہوں نا ٹیچر؟ “ ٹیچر کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا ہو، ”بیٹا میں آپ کے پاپا سے بات کروں؟

”، “ نہیں نہیں ”وہ گھبرا گیا“ وہ بہت غصہ کریں گے آپ کو ڈانٹیں گے ایک دفعہ جب ماما نے ان سے یہ بات کی تھی تو انہوں نے ماما کو بھی بہت ڈانٹا تھا ”۔ ٹیچر نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا“ لیکن بیٹا اس طرح تو آپ بیمار ہو جاؤ گے اور ٹیچر ہونے کے ناطے ان کے نوٹس میں تو یہ لانا ہی پڑے گا لیکن آپ فکر مت کرو وہ مجھے کچھ نہیں کہیں گے ایسا بھی تو ہوسکتا ہے ناں کہ میرے سمجھانے سے وہ سمجھ جائیں اور پھر آپ کو اس طرح انھیں مس نہ کرنا پڑے ”۔

وہ مان گیا۔ ٹیچر نے بچے کے والد کو فون کرکے بلایا، جواب ملا کہ وہ بہت مصروف ہیں اگر کوئی ضروری بات ہے تو بچے کی والدہ کو بلا لیا جائے۔ ٹیچر نے بتایا کہ ضروری ہے کہ یہ بات انھی سے کی جائے۔ اگلے روز وہ آگئے ٹیچر نے ساری بات تفصیل سے بتائی اور یہ مشورہ بھی دیا کہ بچے کے ساتھ کچھ وقت ضرور گزاریں تاکہ وہ اس احساس سے نکل سکے کہ اس کے باپ کے پاس اس کے لیے وقت نہیں۔ بچے کے والد نے ساری بات سننے کے بعد بس اتنا ہی کہا ایسے رونا تو نہیں چاہیے ڈونٹ وری آج کے بعد وہ کلاس میں نہیں روئے گا۔

ٹیچرنے محسوس کیا وہ اپنی بات ٹھیک سے سمجھا نہیں پائی تو بولی ”کچھ بچے زیادہ حساس ہوتے ہیں اگر آپ اس کو زیادہ توجہ دیں تو یقیناً۔ والد نے ٹیچر کی بات کاٹ کر کہا، “ آپ کے توجہ دینے کا شکریہ اور اب آپ بے فکر ہو جائیں، میں نے آپ سے کہا ہے وہ آئندہ آپ کو روتا ہوا نظر نہیں آئے گا ”۔ اگلے روز وہ کلاس میں خاموش تھا بالکل نہیں رویا۔ دو تین پیریڈ ایسے ہی گزر گئے، سب بچے خاموشی سے اپنا اپنا کام کر رہے تھے کہ اچانک ایک قہقہہ گونجا، وہ ہنس رہا تھا اور پھر وہ ہنستا ہی چلا گیا۔

بالکل ایسے ہی جیسے وہ روتا تھا اس کے ہاتھ کام کر رہے تھے اور وہ ہنستا جا رہا تھا۔ کسی کی آواز آئی اسٹوپڈ ایڈیٹ کبھی ہنستا ہے کبھی روتا ہے، دبی دبی سی تمسخرانہ ہنسی کی آواز آنے لگی مگر وہ ان سب باتوں سے بے نیاز اپنا کام کررہا تھا اور ہنسے جا رہا تھا۔ ٹیچر نے پوچھا تو وہ بولا ”پاپا نے کہا میرا کام بہت امپورٹنٹ ہے اور میرے پاس فضول باتوں کے لئے بالکل وقت نہیں، تم بڑے ہو رہے ہو یہ بات اچھی طرح سمجھ لو، اور لوزرز کی طرح رونا دھونا بند کرو“۔

”ٹیچر میں لوزر نہیں ہوں اور میں نے پاپا سے پرامس کیا ہے کہ اب میں کبھی نہیں روؤں گا، اچھے بچے تو پرامس نہیں توڑتے ناں اس لئے اب جب بھی پاپا یاد آئیں گے تو میں ہنسوں گا، روؤں گا بالکل نہیں“۔ وہ پھر سے ہنسنے لگا۔ ٹیچر کو ایسا لگا کہ اس ہنسی کے پیچھے چھپے ہوئے آنسو اس معصوم کے بہہ جانے والے آنسوؤں سے کہیں زیادہ تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).