پرچے کی طوالت ناپ کر نمبر دینے والے اساتذہ اور ”پیاز“ دے کر پاس ہونے والے شاگرد


پاکستان کے نظام تعلیم میں مارچ، اپریل اور مئی کا مہینے سالانہ امتحانات کے حوالے سے سیزن کے ہوتے ہیں۔ گذشتہ روز گورنمنٹ ہائی سکول اوچ شریف میں قائم انٹر میڈیٹ کے امتحانی سنٹر میں جانے کا اتفاق ہوا تو بے اختیار اپنے سکول کے درخشاں زمانے کی یاد دل و دماغ میں ہمکنے لگی اور ایک ایک کر کے تمام کلاس فیلوز اور اساتذہ کرام کے روشن چہرے خوشبو بن کر آسودگی دینے لگے۔ خیال آیا کہ شاید ہم گورنمنٹ ہائی سکول اوچ شریف میں ”اداس نسلوں“ کی آخری خوش قسمت کڑی تھے جنہوں نے سکول کے عروج، بہترین تعلیمی ماحول، نظم و ضبط، اپنے فضیلت مآب اساتذہ کرام کی شفقت، ان کے وقار اور ان کی مشفقانہ مار کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور برداشت کیا۔ ”پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ“۔ اب تو سکول کی حالت اور استادوں کا رویہ اور ”مار نہیں پیار“ مارکہ شاگردوں کا برتاؤ دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اس قوم کے مستقبل میں بس ”ویرانی سی ویرانی ہے“۔

صاحبو! کیا دن تھے جب امتحان کی ڈیٹ شیٹ گوند لگا کر کمرے کی کچی دیوار پر چپکا دی جاتی تھی اور ایک کونے میں بیٹھ کر کتابوں کے درمیان مظہر کلیم (ایم اے ) کے ”عمران سیریز“ رکھ کر پورے خشوع و خضوع کے ساتھ دن رات پڑھائی مصروف رہتے۔ ا ماں صدقے واری جاتی تھی کہ میرا بچہ تین گھنٹے سے مسلسل پڑھ رہا ہے۔ پانی تک پینے کے لیے نہیں اٹھا اور ابا اس فکر میں گھلے جاتے کہ میرا لخت جگر امتحان کو لے کر خستہ ہوتا جا رہا ہے۔

جس دن پرچہ ہوتا، اس صبح جب اٹھتے تھے تو دل کانپ کانپ جاتا تھا۔ تاہم ایسے مواقع پر میا سورہ یٰسین پڑھ کر پھونک دیا کرتی تھیں اور دل مطمئن ہو جاتا تھا کہ اب کوئی مسئلہ نہیں۔ گھر سے نکلنے سے پہلے امتحانی گتے کے ہمراہ ایگل مارکہ پین، مارکر اور نیلی روشنائی کی ”بوتلی“ کی پوری تسلی کر لیتے۔ گورنمنٹ ہائی سکول اوچ شریف کے سبزہ زار کے ”امتحانی مرکز“ میں پہنچتے ہی کوئی کمینہ سا لڑکا اچانک یہ کہہ کر ”تراہ“ نکال دیتا تھا کہ ”فلاں سوال آ رہا ہے“۔ یہ سنتے ہی ہاتھ پاؤں پھول جاتے تھے اور جلدی سے کسی لڑکے سے کتاب پکڑ کر ”فلاں سوال“ پر ایک نظر ڈال لی جاتی تھی کہ کچھ نہ کچھ تو ذہن میں رہ جائے۔

پی ای ٹی رشید صاحب اور اصغر صاحب کے زیر نگرانی اسمبلی کے بعد ہیڈ ماسٹر حنیف انجم صاحب کی امتحانات کے حوالے سے نصیحت آمیز خطاب کے بعد پرچہ شروع ہوتا اور جونہی سوالیہ پرچہ سامنے آتا فوراً الٹا کر کے رکھ دیتے۔ ابو کی ہدایات کو مدنظر رکھتے ہوئے پہلے درود شریف پڑھ کر دعا مانگتے۔ پھر پرچے کو آہستہ آہستہ الٹ کر دیکھتے۔ سوال مرضی کے ہوتے تو ٹھیک ورنہ جواب مرضی کے لکھنا پڑ جاتے تھے۔ جس سوال کا جواب دینا ہوتا تھا اس پر پین سے نشان لگا دیا جاتا۔

افضل جوئیہ صاحب، حسن جہانیاں ساغر صاحب، اسحاق جوئیہ صاحب، خورشید صاحب اور محمود الحسن صاحب کی کڑی نگرانی اور پی ای ٹی رشید کے منہ میں دبی وسل کی ہولناک سیٹیوں کے ساتھ پرچہ شروع ہوئے بمشکل آدھا گھنٹہ ہی گزرتا تھا کہ پیچھے بیٹھے کسی ہونہار بالک کی آواز آتی ”سر ایک شیٹ دے دیں“ اور دل اچھل کر حلق میں آ جاتا تھا۔ سمجھ نہیں آتی تھی کہ کمبخت نے آدھے گھنٹے میں ایسا کیا لکھ لیا ہے کہ آٹھ صفحے بھر گئے ہیں۔ ایسے لڑکے پرچے کے بعد فخر سے بتایا کرتے تھے کہ وہ دس شیٹیں ایکسٹرا لگا کر آئے ہیں۔ ہماری حسرت ہی رہی کہ کاش ہم بھی کم از کم ایک شیٹ ہی ایکسٹرا لگا سکیں لیکن دور جاہلیت سے لے کر آج تک ایسی نوبت کبھی نہ آ سکی۔ الٹا جب ہم پرچہ ختم کرتے ہیں تو آخری تین چار صفحات ضرور خالی رہ جاتے ہیں۔

پرچہ شروع ہونے کے مراحل بھی بڑے دلچسپ ہوا کرتے تھے۔ جیسے ہی سوالیہ پرچہ تقسیم ہو جاتا، قرب و جوار کے لڑکوں میں سرگوشیاں شروع ہو جاتیں۔ سب کا ایک دوسرے سے ایک ہی سوال ہوتا تھا ”یار! صرف پہلا لفظ بتا دو“۔ اشفاق ملک اور ارشد تبسم جیسے کسی ذہین فطین لڑکے کو اگر سارے سوالوں کے جوابات یاد ہوتے تو وہ وقتی طور پر ”فرعون“ بن جاتے۔ منتوں، ترلوں حتی کہ امتحان کے بعد ”سنگین نتائج کی دھمکیاں“ دینے کے باوجود وہ اس بے یار و مدد گار زمین زاد کی ایک نہ سنتے بلکہ شان بے نیازی سے کندھے اچکا کر رہ جاتے۔ کئی دفعہ تو مشتاق گشکوری صاحب اور خلیل ڈی ایم صاحب کو بھی کہہ دیتے کہ ”استاد جی! یہ دیکھیں نومی مجھے تنگ کر رہا ہے“۔ دھت تیرے کی۔ ان کتابی کیڑوں سے ایسی توتا چشمی اور بے اعتنائی کی کبھی امید بھی نہیں ہوتی، لہذا فوراً پھوئی لگا کر سفارتی تعلقات ختم کر لیتے۔

پرچے کے دوران ”بوٹیاں“ لگانے کا رواج عام تھا تاہم اس دور میں لوگوں کی زندگیوں میں ابھی ٹیکنالوجی کا گزر نہیں آیا تھا لہذا ”دیسی“ قسم کی بوٹی لگائی جاتی تھی۔ مثلاً باتھ روم میں کتاب رکھ دی اور بعد میں ہر دو منٹ بعد ایک پھیرا لگا آئے یا قمیض کی اندر والی سائیڈ پر کچی پنسل سے کچھ ”خلاصہ“ لکھ لیا۔ آصف انصاری، عامر شاہین جیسے کچھ بے باک لڑکے کاغذوں کی چٹیں بھی چھپا کر لے آتے تھے۔ ہمارا ایک دوست ایک دفعہ اسی طرح چٹ سے نقل لگاتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا لیکن اول درجے کا ہوشیار تھا۔ اس سے پہلے کہ رمضان نعیم صاحب ثبوت کے طور پر اس سے چٹ چھینتے۔ اس نے جلدی سے کاغذ کا گولا بنایا اور منہ میں ڈال کر نگل لیا۔ استاد صاحب منہ پھاڑے دیکھتے ہی رہ گئے۔ ”حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھے“۔

سب سے زیادہ خطر ناک لیکن دلچسپ پرچہ ریاضی کا ہوتا تھا۔ سوال بے شک کسی کو نہ آتے لیکن سب اپنے جواب ضرور ملا لیا کرتے تھے۔ اس مقصد کے لیے کلاس کے سب سے ہونہار لڑکے سے سرگوشی میں پوچھا جاتا تھا کہ جواب کیا آیا ہے؟ اگر وہ کہتا کہ 56، تو تھوڑی دیر میں سب کے پرچوں پر 56 تحریر ہو چکا ہوتا تھا۔ جو لڑکا سب سے پہلے پرچہ ختم کر کے اٹھتا۔ اسے پکا پکا فیل تصور کر لیا جاتا تھا۔ مزے کی بات یہ کہ ایسے تمام تر جوابات لکھنے کے باوجود لڑکوں کی اکثریت 33 نمبر لے کر پاس ہو جاتی تھی کیونکہ الحمدللہ پرچے چیک کرنے والے بھی ”ممتحن“ بھی ہماری طرح کے ہوتے تھے جن کے بارے میں ابھی تک مشہور ہے کہ ”گٹھیں“ (بالشت) ناپ کر نمبر دیتے ہیں۔ اللہ ان سب کی مغفرت کرے کہ انہی کی بدولت آج ہم جیسے ”پیاز“ دے کر پاس ہونے والے بہت سے جاہل، ”عزت دار صحافی“ اور ”دانشور“ بنے ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).