نواز شریف کا پاور شو؟


سپریم کورٹ آف پاکستان سے اپنی درخواست ضمانت میں توسیع مسترد ہو نے کے بعد نواز شریف نے لاہور میں اپنی سیاسی پاور شو کر نے کا فیصلہ کیا۔ لاہور جہاں مسلم لیگ (ن) کے گیارہ قومی اسمبلی اور اکیس صوبائی اسمبلی کے اراکین ہیں۔ پچھلے ایک سال میں یہ دوسرا موقع ہے جب نواز شریف نے لاہور میں پاور شو کرنے کی کو شش کی، گزشتہ برس 12 جولائی کو جب وہ گرفتاری دینے آئے۔ پچھلے پندرہ برس سے مسلم لیگ، ن کا گڑھ ہے۔ 2008 ، 2013، 2018 کے الیکشن اس بات کا ثبوت ہیں۔

مگر کیا وجہ ہے مسلم لیگ کے سپورٹر الیکشن میں ووٹ تو ن لیگ کو دیتے ہیں مگر احتجاجی سیاست سے پرہیز کرتے ہیں۔ جب نواز شریف گزشتہ برس لاہور کے ہوائی اڈے پر اترے تو جلوس کے شرکاء جن کی تعداد پندرہ ہزار کے قریب تھی وہ ائیر پورٹ بھی نہ پہنچ سکا۔ لاہور، گوجرانولہ، شیخوپورہ، کی آبادی کو دیکھتے ہو ئے یہ تعداد بہت کم تھی۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا، جس سپریم کورٹ کو نواز شریف اور ان کے حامی دن رات برا بھلا کہتے ہیں اسی سپریم کورٹ میں ضمانت میں توسیع کے لیے بھی پہنچ گئے۔ چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ ”آپ کوچھ ہفتے علاج کرانے کے لیے دیے تھے، ٹیسٹ کرانے کے لیے نہیں“۔

اس فیصلے کے بعد نون لیگ میں تنظیمی تبدیلیاں ہو ئیں جو بغیر الیکشن کے ایک فردِ واحد کی خواہش پر ہوئیں۔ شہباز شریف گروپ کا کردار محدود ہوگیا۔ کہا گیا، چونکہ شہباز شریف کا بیانیہ ناکام ہو گیا ہے۔ وہ خود لندن چلے گئے ہیں اور بھائی کو اجازت نہیں مل سکی لہذا پارٹی اب واپس نواز شریف کے بیانیے کی جانب آگئی ہے۔

نواز شریف کا بیانیہ بھی خوب ہے۔ مقدمات میں ریلیف مل جائے تو خاموشی نہ ملے تو شور شرابہ اور مزاحمتی سیاست شروع کرنے کا عندیہ دیا جاتا ہے۔ اس باربھی لندن جانے میں ناکامی کے بعد ایک ریلی نکالنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مریم نواز کو نائب صدر بنایاگیا۔ اور کہا گیا وہ شنگھائی فلائی اوور پر عوام کے جم غفیر سے خطاب کریں گی۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔ میرے اندازے کے مطابق ریلی میں شرکا کی تعداد تقریباً پانچ ہزار تھی۔

مریم نواز نے خطاب کا فیصلہ منسوخ کر دیا۔ کیونکہ شرکا کی تعداد ان کی نظر میں خاصی مایوس کن تھی۔ مریم نواز شایدبھول رہی ہیں۔ کہ لاہور کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین حمزہ شہباز کے نامزد کر دہ ہیں اور حمزہ شہباز اپنے والد کے بیانیے کے حامی ہیں۔ مسلم لیگ کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ ان کا سپورٹر ووٹ مسلم لیگ ن کو دیتا ہے مگر مزاحمتی سیاست نہیں کر سکتا۔ کیونکہ تاجر طبقہ اپنے کاروبار کے مفادات کے آگے سیاسی پسند ناپسند کو اہمیت نہیں دیتا۔

ان دونوں جلوسوں کو بطور رپورٹر کورکرتے ہوئے راقم الحروف اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ مسلم لیگ شہباز شریف کے بیانیے پر گامزن ہے۔ کل کے جلوس میں قصور، گوجرانولہ اور فیصل آباد سے مسلم لیگ کے رہنما اپنی قیمتی گاڑیوں میں جاتی امرا پہنچے مگر کارکنوں کی بڑی تعداد کو اپنے ہمراہ لانے قطعی ناکام رہے۔ ان قیمتی گاڑیوں کی طویل قطار تھی جو جاتی امرا موجود تھی مگر ان گاڑیوں میں دو تین افراد ہی بیٹھے ہو ئے تھے۔ افطاری کے بعد کارکنوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہو گئی تھی۔ قیمتی گاڑیوں کی تعداد دوسو تھی۔ دوسرے شہروں سے آنے والے لوگ جلوس کے جاتی امرا سے نکلنے کے بعد واپس جاتے دکھائی دیے۔ مسلم لیگی رہنما سیف اللہ کھوکھر خاصے متحرک دکھائی دیے اور جلوس کے راستے کے دس مقامات پر کارکنوں کو اکٹھا کیا۔

سب سے بڑی ریلی مجبتبی شجاع لے کر آئے۔ شنگھائی فلائی اوور پر تمام کارکنوں کو اکٹھا کیا گیا جہاں مریم نواز نے خطاب کرنے کا خطاب کر رکھا تھا۔ مگر نواز شریف کی گاڑی وہاں سے گزر گئی۔ اور مریم نواز نے خطاب نہیں کیا۔ کیونکہ وہ شرکاء کی بڑی تعداد کی توقع رکھتی تھی جوکہ ناپید تھا۔ گاڑی کے گزرتے ہی کارکنوں نے گھروں کو جانا شروع کردیا۔ کورٹ لکھپت جیل پہنچتے ہی ریلی کی تعداد بہت تھوڑی رہ گئی۔

کوٹ لکھپت جیل کا عملہ نواز شریف کو گرفتار کرنے جاتی امرا گیا تھا مگر نواز شریف نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا۔ جس پر حکومتی موقف یہ ہے کہ نواز شریف ایک بار پھر توہین عدالت کے مرتکب ہو گئے۔ اس پر وہ ایک درخواست دائر کریں گے۔ کیونکہ 7 مئی غروب آفتاب تک نواز شریف کوجیل میں ہونا چاہیے جبکہ وہ آٹھ بجے کے بعد اپنے گھر سے باہر آئے اور جیل رات بارہ بجے کے بعد پہنچے۔ نواز شریف کی گاڑی حمزہ شہباز ڈرائیو کر رہے تھے۔ جیل حکام نے محکمہ داخلہ کو مراسلہ بھیجا کہ جیل قوانین کے مطابق ہم قیدی نمبر 4470 کو وصول نہیں کر سکے۔ محکمہ داخلہ کے فیکس کے بعد قید ی کو وصول کر لیا گیا۔ یو ں یہ سفر اہتمام پذیر ہوا اور اپنے پیچھے ایک سوال چھوڑ گیا کہ کیا مسلم لیگ ن میں شہباز شریف کا بیانیہ زیادہ موثر ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).