لاپتہ شیعہ افراد: ’دروازے بند نہ کرو نجانے کب میرا بیٹا آ جائے‘


’میری ساس گھر کے دروازے بند نہیں کرنے دیتیں کہ کہیں ان کا بیٹا واپس نہ آ جائے۔‘

یہ کہنا ہے کہ کراچی سے تعلق رکھنے والی معصومہ ممتاز کا جن کے شوہر انجینیئر ممتاز حسین ڈیڑھ برس سے لاپتہ ہیں۔

جہاں گزشتہ 13 دن میں صدر مملکت عارف علوی کی نجی رہائش گاہ کے باہر دیے گئے دھرنے کے نتیجے میں 19 افراد کی واپسی ہوئی ہے وہیں ممتاز حسین کے اہلخانہ اب بھی ان کی راہ دیکھ رہے ہیں۔

معصومہ ممتاز کو 25 جنوری 2018 کا دن آج بھی اچھی طرح سے یاد ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر کام کے سلسلے میں کراچی سے کوئٹہ گئے ہوئے تھے اور وہ شام پانچ بجے تک ان سے مسلسل رابطے میں تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

شیعہ برادری کا دھرنا 19 افراد کی بازیابی کے بعد ختم

’میری اہلیہ نے وہ 14 ماہ ایک بیوہ کی طرح گزارے‘

پاکستان کے ’لاپتہ‘ شیعہ کہاں ہیں؟

’زیارت کرنے جاؤ تو واپسی پر ایجنسیاں اٹھا لیتی ہیں‘

انھوں نے مجھے کہا ’میں جلد گھر پہنچنے والا ہوں، کھانا گھر آ کر کھاؤں گا۔‘

معصومہ ممتاز کے مطابق شام چھ بجے تک جب ان کے شوہر گھر نہیں پہنچے اور ان سے رابطہ بھی نہیں ہو پا رہا تھا تو ہم سب پریشان ہو گئے۔ پھر جس گاڑی میں وہ واپس آ رہے تھے اس کے ڈرائیور سے پتہ چلا کہ انھیں راستے میں اتار لیا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہم نے ہر دروازہ کھٹکٹایا، ہر طرح سے کوشش کی، ہائی کورٹ میں پیٹیشن دائر کی، ایف آئی آر کٹوائی، سب جگہ ڈھونڈا، سارے مقتدر اعلیٰ اداروں سے رجوع کیا، چیف جسٹس کے دورہ کراچی پر ان سے باقاعدہ ملاقات کی، ان کے ہاتھ میں درخواست دی، لیکن کہیں سے کچھ معلوم نہیں ہوا۔ آخر میں مجبور ہو کر صدر کے گھر کے باہر دھرنا دیا۔’

معصومہ ممتاز کا کہنا ہے کہ ان کی ساس بیٹے کے جدائی میں ذہنی مریض بن چکی ہیں۔ ’وہ ہر وقت پریشان رہتی ہیں، اپنے بیٹے کو ڈھونڈتی رہتی ہیں، گھر کے دروازے بند نہیں کرنے دیتیں کہ نجانے کب میرا بیٹا آ جائے۔‘

56 سالہ انجینئر ممتاز حسین کی چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے جن میں سے ایک بیٹی اور ایک بیٹا اپنے والد کی طرح انجینئرنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

ان کی اہلیہ کے مطابق انجینئر ممتاز لاپتہ ہونے سے قبل پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔

کراچی کے علاقے لائنز ایریا میں اپنے گھر سے اٹھائے جانے والے 18 سالہ علی حیدر رضوی کے والد علمدار علی کے مطابق ان کے بیٹے کو ساڑھے تین سال قبل گھر والوں اور محلے داروں کے سامنے لے جایا گیا تھا۔

علمدار علی کے مطابق 15 سے 20 مسلح افراد جو عام لباس پہنے ہوئے تھے ان کے گھر آئے اور بیٹے کو ساتھ لے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ افراد پولیس کی دو موبائل گاڑیوں اور تین سفید موٹرسائیکلوں پر آئے تھے۔

’جب وہ لینے آئے تو میں نے پوچھا کہ اس نے کیا کیا ہے مجھے بتایا جائے، انھوں نے ہم پر بندوقیں تان لیں اور ہمیں کمرے میں بند کر دیا۔

’کہنے لگے اگر آپ نے کچھ کیا تو گولی مار دیں گے اور وہ میرے بچے کو لے کر چلے گئے۔ اس کے بعد سے آج تک اس کا پتہ نہیں ہے۔‘

علمدار علی کے مطابق ان کے بیٹے اپنی والدہ سے زیادہ قریب تھے۔

’میری اہلیہ کی حالت یہ ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں جب وہ روتی نہ ہوں، اکثر رات کو آنکھ کھلتی ہے تو دیکھتے ہیں کہ وہ بیٹھی رو رہی ہوتی ہیں۔‘

ان کے مطابق ان کی اہلیہ نے اپنے بیٹے کے لاپتہ ہونے کا اتنا اثر لیا ہے کہ انھیں ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس کے امراض بھی لاحق ہو گئے ہیں۔

علمدار علی کے چار بچے ہیں جن میں سید علی حیدر رضوی دوسرے نمبر پر ہیں۔

ان کے مطابق ’میرے بچے مجھ سے اپنے بھائی کے بارے میں پوچھتے ہیں، ہر احتجاج میں ساتھ جاتے ہیں لیکن وہ خوفزدہ ہیں۔‘

لاپتہ شیعہ افراد

نعیم حیدر لاپتا ہونے سے دو روز قبل اپنی حاملہ بیوی کے ہمراہ عراق میں زیارات کے بعد کراچی پہنچے تھے

کراچی میں حالیہ دھرنے کے بعد کچھ لاپتہ افراد ایسے بھی ہیں جن کے زندہ ہونے کی نوید تو ان کے اہلخانہ کو ملی ہے تاہم وہ ان کے ساتھ نہیں۔

دھرنے کے بعد بازیاب ہونے والے 19 افراد میں سے دس ایسے ہیں جنھیں گرفتار ظاہر کر کے عدالت میں پیش کیا گیا ہے یا پیش کیے جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔

کراچی سے ہی 2016 میں لاپتہ ہونے والے نعیم حیدر بھی ان میں سے ہی ایک ہیں۔

نعیم حیدر کو 16 نومبر 2016 کی رات درجن کے قریب مسلح افراد ہتھکڑیاں لگا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ ان افراد میں سے بعض نے چہروں پر نقاب پہن رکھے تھے جبکہ دیگر پولیس وردی میں تھے۔

نعیم حیدر کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ وہ حراست میں لیے جانے سے دو روز قبل ہی اپنی حاملہ بیوی کے ہمراہ عراق میں زیارات کے بعد کراچی پہنچے تھے۔ ان کی گمشدگی کے دور میں ہی ان کے یہاں ایک بیٹے نے جنم لیا جسے آج تک نعیم حیدر نے نہیں دیکھا۔

نعیم کی بہن سلطانہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی والدہ بیٹے کے انتظار میں علیل رہنے لگی ہیں اور وہ خود جمعے کو ان کی گمشدگی کے تقریباً ڈھائی برس بعد ان سے پولیس کی حراست میں ملاقات کرنے والی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp