بیٹی کی “قندیل”۔۔۔ گویا دبستاں کھل گیا


ایسی باتیں اچانک ہوتی ہیں۔

جیسے کوئی قندیل آنکھوں کے سامنے جل اٹھے۔ اور اس کے پیچھے پیچھے ایک نئی دنیا کے نظارے۔

یوں ہوا کہ برق سی لہرائی، پھر ہزاروں صفحے ہوا کے ساتھ اُڑنے لگے۔ کتابوں کی جلد کھُل گئی اور وہ ترتیب سے لگے کتب خانوں کی الماریوں سے باہر نکل کر سامنے آنے لگیں، اندھیروں میں اُترنے لگیں۔

میں مبہوت ہوکر دیکھ رہا تھا۔ یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں؟ اس تلاطم کے پیچھے شاید کچھ بھی نہیں، ایک ڈبّا ہے اور ڈبّے کے اندر دھات کا ٹکڑا۔ مگر اس ٹکڑے میں بجلی بھری ہوئی ہے۔ میں اس کے سامنے والے چمک دار حصّے پر انگلیاں پھیرتا ہوں، وہ اس طرح سمٹنے لگتا ہے جیسے کاغذ کا صفحہ۔

یہ کل رات کی بات ہے۔ میری بیٹی پردیس سے واپس آئی تو اس کے ہاتھوں میں دھنک رنگ کا کاغذی تھیلا تھا اور چہرے پر مسکراہٹ۔ ’’میں آپ کے لیے یہ لے کر آئی ہوں….‘‘ اس نے کاغذ میں لپٹا ہوا ایک ڈبّا مجھے تھما دیا۔

تحفے کے نام پر سرپرائز مجھے زیادہ اچھے نہیں لگتے۔ اس لیے کہ اکثر ایسی چیزیں مل جاتی ہیں جن کو رکھا جا سکتا ہے نہ پھینکا جا سکتاہے۔ پھر آپ چہرے پر لاکھ مجلسی تبسم سجا کر شکریہ ادا کرتے رہیے اور بے تکی چیز کے لیے جگہ بناتے رہیے۔ مگر یہاں معاملہ دوسرا تھا۔ آنے سے پہلے اس نے مجھے واٹس اپ پر میسیج بھیجا تھا کہ آپ کو کچھ منگوانا ہو تو بتایئے۔ ناکردہ گناہوں کی حسرت کی طرح ایک فہرست توہر وقت میرے پاس تیار ہوتی ہے کہ ان کتابوں کو حاصل کیا جائے۔ مگر وہ جو کسی پرانے افسانے میں اس سے بالکل مختلف موقع کے لئے ایک کردار نے جواب دیا تھا __

’’ایک ہو تو بتائوں …..‘‘

یہاں بھی کتنی ہی کتابیں اس فہرست میں درج ہیں جو دل و دماغ میں بسی رہتی ہے۔ کسی کو کیا بتائیں، کون مانے گا؟ پھر اس میں سے نہ جانے کتنی کتابیں مل کے نہیں دیتیں۔ کتاب یوں ہی تو نہیں ہاتھ آ جاتی۔

اس کے میسیج کا میں نے جواب گول کر دیا۔ ’’تم آ جائو، یہ سب سے بڑا تحفہ ہے۔‘‘ میں نے اس قسم کی بات کہہ دی۔ وہ کتاب تو نہیں لائی، یہ لے آئی۔ ایک کتاب نہیں، کتابیں ہی کتابیں۔

’’یہ کنڈل ہے ….‘‘ اس نے مجھے بتایا اور پھر فوراً ہی ڈبّا میرے ہاتھ سے لے لیا کہ اس کو ’’سیٹ‘‘ کرکے میرے حوالے کرے۔

اچھا، تو یہ مجھ تک پہنچ گیا آخر کار، میں نے دل میں سوچا۔ میں اس کے نام سے ناواقف نہ تھا۔ کئی بار دیکھا تھا۔ اس میں پنہاں ہزاروں کتابوں تک رسائی کے امکان کو للچاوے کے ساتھ سُنا تھا، اس کو گھما پھرا کر بھی دیکھا تھا۔ اس کے باوجود دل نہیں مان کے دیا کہ یہ کتاب کی جگہ لے سکتا ہے۔ کم از کم میرے لیے نہیں۔

لیکن فیصلہ میرے اختیار میں کب تھا۔ میری بیٹی نے یہ گنجائش کہاں چھوڑی تھی۔ اس نے پہلے بھی ایک بار ایسا ہی قطعی فیصلہ کیا تھا۔ جب میرے لیے موبائل فون کا بندوبست کر دیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ فون زندگی کا جزو بن گیا اور دن بھر میں وقت گزارنے کا ایسا ذریعہ جس پر نہ جانے کتنے گھنٹے خرچ ہو جاتے ہیں۔ اب تو یہ حال ہے کہ باقاعدہ یاد کرنے پر خیال آتا ہے کہ جب موبائل فون نہ تھے تو زندگی کیسی تھی، ہم کیا کرتے تھے۔ رابطے تب بھی تھے اور ملاقاتیں بھی۔ لیکن اتنی وسعت کہاں تھی۔

ہر قسم کی ٹکنولوجی سے جی چُرانے کے باوجود میری سمجھ میں آنے لگا کہ یہ میرے لیے کتنا اہم ثابت ہوگا، میرے مطالعے کی تاریخ میں سنگِ میل۔

مگر وہ ابھی میرے ہاتھ کہاں آیا تھا؟ اس کو چارج کیا جا رہا تھا، اس پر میرا اکائونٹ سیٹ اپ کیا جا رہا تھا اور اکائونٹ کے لیے آئیڈنٹی۔ کتنے مشکل مرحلے جن کو میں خود تو کبھی نہ حل کر پاتا۔

اس وقت مجھے ایک اور خیال آرہا تھا۔ وہ میرے لیے اس طرح تحفہ لے کر آئی ہے جب برسوں پہلے میں اس کے لیے کھلونے لے کر آتا تھا۔ اب کہانی میں ہمارے کردار اور کرداروں کا عمل بدل گیا ہے۔ کھلونا اچھا لگتا تھا تو اس کے گالوں میں ننھے ننھے گڑھے پڑ جاتے تھے۔ وہ ان کے ملنے پر خوش ہوتی تھیں مگر ان کے نہ ملنے پر رونا دھونا اور ضد نہیں کرتی تھی۔ یہ کام چھوٹی صاحب وافر مقدار میں کر لیتی تھیں۔ مجھے وہ موقع بھی یاد آنے لگا جب اس کا ایک کھلونے پر دل آ گیا تھا اور وہ ضد نہیں کر رہی تھی۔ دکان میں ایک موٹی سی گڑیا رکھی ہوئی تھی، کپڑے کی بنی ہوئی، جس کا ناک نقشہ بھی موٹا موٹا سا تھا۔ پھولے پھولے گال اور پھڈّی ناک اس نے کی گڑیا کی فرمائش کر دی اور میں نے روک دیا کہ تم ہر دکان میں جا کر یہ کہنا شروع کر دیتی ہو کہ یہ چاہیے، وہ چاہیے۔ ہم تمہارا نام رکھ دیں گے __ یہ چاہیے، وہ چاہیے۔

دکان سے باہر نکلتے نکلتے میں خود ہی واپس پلٹا اور گڑیا شیلف سے اٹھا کر اس کے حوالے کر دی۔ گڑیا کو کلیجے سے لگا کر وہ اس قدر پھوٹ پھوٹ کے روئی ہے کہ بس۔ مجھے اندازہ نہیں ہوا کہ گڑیا اس قدر پسند آئی ہے اور وہ غالب کی طرح تہیّہ طوفان کیے ہوئے ہے۔ مجھے اپنے آپ شرمندگی ہونے لگی۔ اس سفر کے برسوں بعد وہ موٹی سی گڑیا اس کے کمرے میں رکھی ہوئی ہے۔ گڑیا تو کمرے میں اب بھی موجود ہے۔ بیٹی دوسرے شہر اپنے گھر جا چکی ہے۔ لیکن اگر اس دن میں گڑیا نہیں دلواتا تو کیا ہوتا؟ شاید وہ رو دھو کر چُپ ہو جاتی یا پھر اس کے ننھے سے دل میں خراش آ جاتی۔ بچّوں کے لیے تحفے کا معاملہ کس قدر سنجیدہ ہوسکتا ہے۔ آج پھر مجھے خیال آ رہا تھا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2