جدید سائینٹیفک تقاضے اور فواد چوہدری؟


مذہب اور سائنس کی آویزش بہت قدیمی ہے۔ اہل مذہب کی باہمی سر پھٹول یا جنگ و جدل رہی ایک طرف انہوں نے سائینٹیفک اپروچ کے حاملین پر صدیوں جو مظالم ڈھائے اور جو اذیتیں پہنچائیں اُن کی ایک طویل درد ناک داستان ہے آج جن سچائیوں کو ہم مسلمہ حقائق تسلیم کرتے ہیں ایک زمانے میں ان پر اظہارِ خیال کرنا ناقابلِ معافی جرم تھا مثال کے طور پر گردشِ زمین کا نظریہ آج اس قدر قبولیت عامہ کا حامل ہے کہ کوئی اس کی مخالفت میں بولے تو بچے بھی اس پر ہنسیں گے اور مذاق اڑائیں گے سب کو معلوم ہے کہ دن اور رات کیسے بدلتے ہیں مگر قدیم زمانے کے لوگ گردشِ زمین کی حقیقت سے بے خبر تھے وہ ظاہری طور پر جو کچھ دیکھتے تھے اُسی کو حقیقت خیال کرتے تھے یہ کہ سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور مغرب میں غروب ہو جاتا ہے۔

آج کا انسان یہ جانتا ہے کہ اس وقت اگر یہاں پاکستان میں رات ہے تو لازم نہیں پوری دنیا میں رات ہو امریکا میں اس وقت سورج چمک رہا ہے کیونکہ وہ کہیں ڈوبا نہیں ہے پچھلے زمانوں میں ہماری عقل ڈوبی رہی مگر اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے کئی لوگوں کی عقلیں آج بھی ڈوبی ہوئی ہیں یا ان پر تو ہمات کے پردے چڑھے ہوئے ہیں چاند دیکھنے کا مسئلہ بھی ان میں سے ایک ہے۔ جب سے پاکستان بناہے تب سے یہ نان ایشو کسی نہ کسی حوالے سے ہر سال ایشو بنتا چلا آرہا ہے بالخصوص عیدین کے مواقع پر یہ اختلاف رائے مخالفانہ پروپیگنڈے تک پہنچ جاتا ہے

ہمارے عامتہ المسلمین کو ہمیشہ سے یہ شوق رہی ہے کہ کم از کم ہمارے ایک ملک میں عید بھی ایک ہی مقررہ دن کو ہونی چاہیے تاکہ قومی یکجہتی کا بہتر مظاہرہ ہو سکے رویت ہلال کمیٹی کی مہنگی تشکیل بھی اسی مقصد کے تحت قبول کی گئی تھی مگر افسوس یہ کمیٹی بھی اپنے بلند بانگ دعووں کے باوجود اپنا مقصد حاصل کرنے میں تاحال ناکام ہے اور ہمیشہ ناکام رہی ہے۔ کبھی مولانا احتشام الحق تھانوی اس کمیٹی کے کرتا دھرتا ہوتے تھے لیکن قومی ایکتا تب ہوئی نہ اب ہوتی ہے۔

اب تو پشاور کی بڑی مسجد کے مفتی پوپلزئی ہر سال بازی لے جاتے ہیں وہ ایک دو نہیں بیس بیس شرعی شہادتوں سے اپنا چاند اس خوبصورتی سے دیکھ لیتے ہیں جسے ہمارے سرکاری مولوی صاحبان اپنی بزرگانہ محنت مشقت اور قدیمی دور بینوں کی مدد کے باوجود دیکھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں اور نتجتاً قوم ہر سال یکجہتی کا مظاہرہ دیکھنے سے قاصر رہ جاتی ہے۔ عالمان کی شان کے سامنے تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارا اتنے اثر رسوخ والا پاپولر وزیر فواد چوہدری تھوڑی سی جسارت کرنے کے بعد معتوب ٹھہرا ہے۔

لہٰذا ہم اپنے عوام کی خدمت میں یہ التماس ضرور کریں گے کہ وہ مذہبی علماء کی شان و شوکت کے سامنے سرنگوں ہو جائیں ہر سال قومی یکجہتی کا مظاہرہ دیکھنے کی شوق یا حسرت ہی دل سے نکال دیں۔ خواہش تو ان کی یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان ملتِ واحدہ کا تصور ابھارتے ہوئے تمامتر مذہبی تہوار منانے میں یک رنگی و یکجہتی دکھائیں جب مکہ میں حج ہو رہا ہوتا ہے وہ پوری دنیا میں اسی روز ”یوم عرفہ“ منائیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ خواہشات کا گھوڑا بے لگام ہوتا ہے مگر ہمیں اکیسویں صدی کے تقاضوں کی مناسبت سے اس گھوڑے کو لگام دینی پڑ رہی ہے ایک مشترکہ خلافت کے لیے ہماری قوم میں بڑا جوش و خروش رہا ہے جو ہر برادران کی اماں پوری قوم کی اماں تھیں صدی پرانا کتنا خوبصورت شعر ہے ”بولیں اماں محمد علیؔ کی / جان بیٹا خلافت پہ دے دو“۔

آج ہم نے جس طرح ستم ظریفی حالات کے تحت ناگواری و جبرو کراہت میں ایک مشترکہ خلافت کے نظریے کو خیر باد کہتے ہوئے ستاون خلافتوں یا حکومتوں کو قبول کر لیا ہے اور جس طرح ان ستاون ممالک کی خلافتوں یا حکومتوں کا یہ حق مان لیا ہے کہ وہ اپنے اپنے قومی تقاضوں کی مناسبت سے امہ کی مشترکہ سوچ کے نظریے سے بالاتر ہو کر کوئی بھی فیصلہ لے سکتے ہیں اسی طرح اب قومی سطح پر اس حقیقت کو بھی تسلیم کر لینا چاہیے کہ مختلف قومی و مذہبی طبقات گروہ یا فرقے جب چاہیں اپنے غیر سرکاری تہوار اپنی سہولت کے مطابق منالیں یہی جمہوری سوچ اور آزادیوں کا تقاضا ہے کہ حکومتیں خواہ مخواہ لوگوں کے مذہبی و سماجی معاملات یا رسوم و رواجات میں ٹانگیں اڑانے سے باز آجائیں جمہوری تقاضوں کی روشنی میں فی زمانہ بہترین حکومت ہوتی ہی وہ ہے جو لوگوں کے ذاتی، مذہبی یا سماجی معاملات میں کم سے کم مداخلت کرے فلاحی و رفاہی ریاست میں حکومت کا رول تو یہ ہونا چاہیے کہ لوگوں کی غربت یا معاشی تنگ دستی کو کس طرح خوشحالی میں بدلا جائے بے روزگاری کا خاتمہ کیا جائے اگر آپ اپنے نوجوانوں کو روز گار نہیں دے سکتے ہو تو کم از کم انہیں بے روزگاری کا مناسب الاؤنس دو۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کنٹرول کرو تاکہ عوام اپنی بنیادی ضروریاتِ زندگی مناسب نرخوں سے خرید سکیں۔ ایسی ٹھوس پالیسیاں بناؤ جن سے عام عوام کے روٹی کپڑے اور مکان کا مسئلہ حل ہوا ور پھر تعلیم و صحت جیسے بنیادی انسانی مسائل حل ہوں فری تعلیم اور فری علاج عوام کا بنیادی انسانی حق اور ہر حکومت کا فرض ہے ہماری حکومتیں اصل عوامی مسائل اور دکھوں کا مداوا تو کرتی نہیں البتہ جو نان ایشوز ہیں انہیں ایشوز بناکر قوم کو کیوں الجھائے رکھنا چاہتی ہیں؟

درویش بنیادی طور پر ایک مولوی آدمی ہے ساری زندگی قال اللہ وقال رسولؐ پڑھتے اور پڑھاتے گزری ہے اور پورے وثوق سے یہ لکھے دے رہا ہے کہ ہمارے دین میں پاپائیت کا کوئی تصور نہیں ہے یہ تصور مسیحیت سے ادھر آیا ہے۔ پادری صاحبان کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے اور پھر معافی دلانے یا توبہ قبول کروانے کا نظریہ ضرور پایا جاتا ہے لیکن ہمارے مذہب میں تو پاپائیت یا مولویت کا ادارہ دورِ ملوکیت کی پیداوار ہے کیونکہ عہدِ رسالت و خلافتِ راشدہ میں تو جو حکمران ہوتے تھے وہی نمازوں کی امامت بھی کرتے تھے اور دیگر سیاسی و سماجی امور و معاملات میں بھی رہنمائی و قیادت فرماتے تھے۔

اسلام میں خدا اور بندے کا براہ راست باہمی تعلق واسطہ ہے کوئی مسلمان محتاج نہیں ہے کہ وہ مولوی صاحب کو سیڑھی بنائے گا تو خدا تک پہنچے گا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال اکسویں صدی کے اقبال تھے وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ہمارے یہاں علماء یا عالمان کی اصطلاح قطعی طور پر غلط استعمال ہو رہی ہے ہم نے اسے غلط طور پر محض مذہبی لوگوں تک محدود کر رکھا ہے حالانکہ جو سائنسدان ہیں وہ سائنس کے علماء ہیں جو وکلاء ہیں وہ قانون کے علماء ہیں جو ادیب و شاعر ہیں وہ ادب کے علماء ہیں جو معاشی ماہرین ہیں وہ علمائے معیشت ہیں لیکن ہم نے علماء کا مطلب یہ مشہور کر رکھا ہے جو مذہبی مولوی ہو چاہے نالج میں وہ علمی مقام نہ رکھتا ہو یا محض لباس کی تراش خراش یا وضع قطع سے یہ کام چلا رہا ہو وہ عالم ہے۔

ہماری اس تمامتر بحث کا مدار وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کی پہلی کھری بات بنی ہے جس میں انہوں نے یہ کہاہے کہ آئندہ چاند دیکھنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے مدد لیں گے عصرِ حاضر میں سائنس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ ہمیں بھاری بھر کم پرانی دور بین اور اسے استعمال کرنے والوں سے آگے نکلنا ہو گا انہی کی زبانی قوم کو یہ معلوم ہوا کہ ہر سال کئی ملین کی رقومات ان لوگوں کی خوشنودی پر خرچ کر دی جاتی ہیں جو خدمتِ خلق اور بے لوث اللہیت کا پرچار کرتے نہیں تھکتے مگر سوال یہ ہے کہ فواد چوہدری جیسا بے باک قانون دان اپنے تمام تر ٹھوس دلائل کے باوجود کیا اپنی اس قیادت کو قائل کر سکے گا جو آج بھی روحانیت کو سپر سائنس بنوانے اور منوانے پر تلی بیٹھی ہے۔ نیا پاکستان بنانے کے دعوے دار جدید سائنٹیفیک تقاضوں کا ادراک بھی تو حاصل کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).