سیاستدانوں کی مسکراہٹیں، عوام کی بدحالی اور تحریک انصاف کا تربوز


ملک کا ایوان بالا سینٹ، سینیٹرز کی عدم دلچسپی اور غیر حاضری کی وجہ سے کورم پورا نہ ہونے کی نشاندہی پر اکثر برخاست ہو جاتا یے۔ بس چند سوال کچھ غیر تسلی بخش جوابات، شور شرابے اور چند قہقہوں کا راوی بس چین ہی لکھتا ہے۔ مگر ایوان زریں قومی اسمبلی کی صورتحال سینٹ سے کافی مختلف ہوتی ہے کیوں کہ وزراء، مشیر اور کسی عید کے دن وزیر اعظم عمران خان بھی جلوہ گر ہو جاتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے سیشن میں عوامی مسائل پر غیر سنجیدگی دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان ممبران قومی اسمبلی کا دور دور تک عوام سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔

اکثر ممبران اپنی فائلوں پر وزیروں کے دستخط کرانے کے لیے پریشان نظر آتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری حکومت کو چابی دینے کے لیے دھواں دار تقریر کرتے ہیں تو جواب میں وزیر مواصلات مراد سعید بھی گلا پھاڑ پھاڑ کر ایان علی اور بلاول بھٹو کی رشتے داری ظاہر کرنے کی ڈیوٹی پر لگے ہوئے ہیں اور سیشن گو بے بی گو کے نعروں کے بعد ختم ہو جاتا ہے۔ پارلیمنٹ سے لے کر ٹاک شوز تک ان تمام پارلیمینٹیرینز کی ایک دوسرے سے ذاتی نیاز مندی جاری رہتی ہے اور تھوڑے سے کھیل تماشے کے بعد ان کی مسکراہٹوں کی یہ قسط ختم ہو جاتی ہے۔

اس وقت ملک کی پارلیمینٹ غیر اہم ہوتی نظر آ رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت ایڈز سمیت تمام تر مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ زمین اور آسمان کے درمیان لٹکی ہوئی نظر آ رہی ہے اور حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف جو اپنے آپ کو خدائی فوجدار سمجھنے والی جماعت ہے پہلے بھی پارلیمان کو غیر اہم سمجھتی تھی اب بھی اسے غیر فعال بنانے میں مصروف نظر آ رہی ہے۔ میرٹ اور انصاف کی بات کرنے والے وزیر اعظم عمران خان امپورٹیڈ ٹیکنوکریٹس کی تعنیاتی کو ہی اپنی حکومت کی کامیابی سمجھتے ہیں۔ راتوں رات امپورٹید گورنر اسٹیٹ اور چیئرمین ایف بی آر کی تعنیاتی سمیت سینکڑوں اہم فیصلوں میں میرٹ کی دھجیاں اڑائی گئیں نہ ہی کوئی اشتہار نہ ہی کوئی منظوری ایسا لگ رہا ہے کہ یہ خدائی فوجداروں کی حکومت آسمانی اشاروں پر ہی کام کر رہی ہے۔

مہنگائی، بیروزگاری، بھوک اور افلاس جو عوام کے اوپر ٹھونسی جا رہی ہے یہ سب اوپر سے ہی نازل ہو رہا ہے بیچاری تحریک انصاف کے فرشتے تو صرف احکامات بالا پر عمل در آمد کر رہے ہیں۔ نئے پاکستان بنانے والی پاکستان تحریک انصاف کو نہ ہی یتیم بچوں کے خالی ہاتھ نظر آ رہے ہیں نہ ہی مسکینوں کے خالی پیٹ کیوں کہ انہوں نے طلسماتی چشمے پہنے ہوئے ہیں جس میں ہر چیز ٹھیک نظر آ رہی ہے۔ اس نئے پاکستان میں سستے بازار خالی نظر آ رہے ہیں عوام بد حال ہے اور خدائی خدمتگاروں کی حکومت عوام پر اربوں روپے کے مذید ٹیکس لگانے کی حکمت عملی میں مصروف ہے کہ کن نت نئے طریقوں سے عوام اور اپوزیشن کو قابو کیا جائے۔

اپوزیشن تو نیب گردی کے خلاف چیخ و پکار میں مصروف ہے اور عوام مہنگائی اور بیروز گاری کے نوحے سنا رہے ہیں۔ ریاست مدینہ (ثانی) میں غریبوں کو مہنگائی کی چٹنی کھلانے کے بعد بھی کرپشن کا چورن ختم نہیں ہو رہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن شاید بادشاہ اور چرواہے والا قصہ سن کر کبھی رو اور کبھی ہنس رہے ہیں کہ بادشاہ نے اعلان کیا تھا کہ کوئی ایسا قصہ سنائے جو اس نے کبھی نہ سنا ہو تو وہ اسے اپنی آدھی سلطنت دے دے گا مگر شرط یہ ہے کہ وہ ساتھ کوئی ایک پھل لائے اگر قصہ پہلے سنا ہوگا تو یہ پھل اسے ایک ہی دفعہ میں نگلنا پڑے گا ایک چرواہا بھی اپنے قسمت آزمانے کے لیے سیب سمیت گیا اور اس نے باد شاہ کو جب اپنا قصہ سنایا تو بادشاہ بولا یہ قصہ تو پہلے سنا ہوا ہے اب تمہیں سیب ایک ہی دفعہ میں نگلنا پڑے گا اس وقت چرواہا رونے لگا اور پھر ہنسنے لگا بادشاہ نے رونے اور ہنسنے کی وجہ معلوم کی تو چرواہا بولا حضور رو اس لیے رہا ہوں کہ مجھے ایک ہی دفعہ سیب نگلنا ہوگا اور ہنس اس لیے رہا ہوں کہ میرے بعد جس شخص کی باری ہے وہ اپنے ساتھ تربوز لایا ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن تو جیسے تیسے اپنا سیب نگل ہی لیں گے پر امتحان تو اب تحریک انصاف کا ہے کہ وہ یہ تربوز نگلنے میں کامیاب ہو پائے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).