سہولت لے لو زندگی دے دو


شیراز کے شہریار کے ساتھ بیوی نے بے وفائی کی تو لگ گیا ظالم صنف نازک کی نسل کُشی میں۔ کابینہ کے وزراء حیران تھے کیونکہ سلطنت کا شیرازہ صنف نازک کے خاتمے کی شکل میں بکھررہا تھا۔ وجہ کیا تھی شہریار روز نئی نویلی دلہن لاتا اور صبح قتل کرکے ہاتھ صاف کردیتا۔ بادشاہ کا مشیرپریشان تھا اور پریشانی بجا تھی کیونکہ بادشاہ سلامت کے لئے روز نئی نویلی دلہن کا بندوبست اس کو مشکل میں ڈال رہا تھا۔ سلطنت کے مظلوم کندھے بیٹیوں کے جنازے اٹھاتے اٹھاتے تھک گئے تو ان کی بد دعاؤں نے مشیر کی بیٹی کے دل میں بادشاہ سے شادی کی آرزو جگائی۔ مشیر بے چارے نے خوب سمجھایا لیکن بیٹی دھن کی پکّی نکلی اور برابر ضد کرتی رہی۔ مجبوراً مشیر کو بادشاہ سے اپنی بیٹی کی شادی کرانی پڑی۔

نئی دلہن کمال کی تھی پہلی ہی رات بادشاہ کو کہانی سنانے لگ گئی اور عین کلائمکس میں چھوڑ کر اگلی رات سنانے کا وعدہ کرتی رہی۔ پہلے دن جان بچ گئی تو اگلے دن دوبارہ نئی کہانی سناتی اور کلائمکس میں چھوڑ دیتی۔ بادشاہ شوقین تھا کہانیوں کا تھبی تو مشیر کی بیٹی کی جان بچتی رہی۔ تاریخ لکھتی ہے کہ انہی کہانیوں کی وجہ سے مشیر کی بیٹی کی جان بھی بچ گئی اور ”الف لیلیٰ“ کی شکل میں داستانوں کا مجموعہ بھی بن گیا۔

داستانوں کا یہ مجموعہ جب بھی ذہن میں آتا ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی اپنا ملک ”شیراز“ اور اپنے سیاستدان ”شہریار“ جیسے محسوس ہونے لگتے ہیں کیونکہ یہاں بھی اور کچھ نہیں بس بادشاہ کی بے لگام خواہشیں اور جھوٹ کی ہزار داستانیں ہیں۔

آئی ایم ایف کے سخت شرائط تسلیم کرلئے گئے ہیں۔ دیکھ کر ایسا لگا جیسے ہماری تاریخ بھی الف لیلوی داستانوں کا مجموعہ ہو۔

شرط سامنے آئی بجلی گیس مہنگی کرو ہم مان گئے سوچا تک نہیں کہ جہاں ایک سال میں لاکھوں لوگ خط غربت سے نیچے یوں اچانک چلے جاتے ہوں وہاں مہنگائی کا یہ طوفان کتنی تباہی مچائیگا اور اوپر سے تین سال میں صارفین سے تین سو چالیس ارب روپے کی وصولی۔ بجلی اور گیس جب نہ تھے تو کون سی قیامت دنیا میں بپا تھی؟ کوئی مشکل تو نہیں تھا۔ چھین لو سہولتیں لیکن جان تو سہولت سے بھی پیاری ہے۔ جینے کی اتنی بڑی قیمت پچھلے سات عشروں سے ادا کی جارہی ہے۔ کمال اور مقام افسوس ہے دو ہی طبقے ہیں حکمران اور عوام اور دونوں میں زمین و آسمان کا فرق۔ فرق مٹانے کی کوئی کوشش نہ پہلے کی گئی ہے اور نہ آئندہ کوئی امید ہے۔

آئی ایم ایف نے دوسری شرط سامنے رکھی کہ عوام پر ساتھ سو ارب کے اضافی ٹیکس بھی لگانا ہوں گے ہم مان گئے۔ عوام سے تو نہیں پوچھا جاسکتا لیکن جہاں عوام اپنے نمائندے بھیجتے ہیں وہاں ہی کسی سے مشورہ کرلیتے۔ مقروض قومیں ہمیشہ دفاعی انداز اپناکر شرطیں مان لیتی ہیں اور یہی ہم 1958 ء سے آج تک کرتے آئے ہیں۔ ستم بالائے ستم ہوا کے دوش پر صدا یہی آتی ہے کہ حکومت کرنا تو بہت آسان ہے۔ چلو مان لیتے ہیں آسان ہے مگر یہ آسان کام تو آپ سے پہلے اسی طرح اور لوگ بھی کر رہے تھے۔

مہنگائی تب بھی تھی آج بھی ہے۔ اپوزیشن اور حکومت کی لڑائی تب بھی تھی اور آج بھی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت آپ اپوزیشن میں تھے اور آج حکومت میں۔ تخت اسلام آباد میں کمال کا کوئی بہت بڑا فرق ہے جو بھی اس پر براجمان ہوتا ہے ماضی کی یادیں بھول جاتا ہے۔ آپ بھی شاید وہ وقت بھول گئے ہیں جب آپ کے لئے آپ کی عوام ہی سب سے اہم تھی۔ مان لیتے ہیں حکومت کرنا آسان ہے تو پھر وہ کون تھا جو ببانگ دہل موت کو بھیک پر ترجیح دے کر مایوس قوم کے ایک جم غفیر کے سامنے امید بن کر کھڑا ہوتا تھا۔ حکومت آسان ہے بالکل صحیح فرمایا کسی دن اپنی ریاست میں خلیفہ ثانی بننے کی کوشش کرو پھر دیکھ لو کتنا مشکل ہے حکمران بننا۔

کیا کریں بدقسمتی ہے جو بھی اس منظرنامے میں آیا ہے شہریار ہی بنا ہے اور یہی اس ملک کے ساتھ سب سے بڑا ظلم ہے۔ لگتا بالکل نہیں کہ ہمارے شہریار خود اپنی زندگی بدلنے کی کوشش کریں گے۔ جب تک یہ شہریار اور ان کے مشیر زندگی اور سوچ نہیں بدلیں گے تماشا یوں ڈھنگ سے جاری رہے گا۔ بات حیرانی کی ہے ملک میں ایک ہزار سے زائد نمائندے قانون سازی کے لئے موجود ہیں لیکن آج تک کوئی ایسا قانون پاس کرنے میں ناکام ہیں جس سے کشکول پاؤں تلے روندا جاسکے۔

شاہانہ زندگی کے خرچے ان کے دیکھو ماہانہ لاکھوں تنخواہیں اور بادشاہوں جتنی مراعات۔ کیا ان میں کمی نہیں کی جاسکتی؟ مارگریٹ تھیچر جب ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ میں تھیں تو دنیا کے سب سے کم کابینہ کے ساتھ برطانیہ کو ترقی کے بام عروج پر پہنچا دیا تھا ہماری مٹی نے کیا آج تک کسی کو جنم نہیں دیا جو دن رات خود احتسابی کے عمل سے خود کو گزار کر بطریق احسن حکمرانی کرسکے؟

یہاں تو وزراء کے دیدار ہی سے پتا چل جاتا ہے ترقی کی رفتار کا۔ ماہانہ خرچہ تنخواہ کے علاوہ ضرورت سے اتنا زیادہ ہے کہ اگر چاروں صوبائی اسمبلیوں کے وزراء اور وفاقی وزراء کے غیر ضروری مراعات بھی ختم کیے جائیں تو قومی خزانے کو بہت فائدہ مل سکتا ہے جوکہ ناممکن ہے۔ یہ طبقاتی زندگی میں بٹی قوم کے لئے وہ عجیب تجویز ہے کہ جس کو دیکھ کر لوگ ہنسیں گے لیکن یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہم غریب ملک کے باسی ہیں اور اس غریب ملک کے سارے شہریار زندگی کے ہر سہولت سے آراستہ ہیں۔

تلخ ہے مگر حقیقت ہے اپنی تاریخ کے ان ساتھ عشروں میں اور کچھ بھی تو نہیں ہوا سوائے ”شہریار“ کے ارمان پورے کرنے کے۔

المیہ ہے ہماری تاریخ کے جتنے بھی ”شہریار“ ہیں ان کی محبتوں میں لاکھوں کروڑوں ایسے دیوانے ہیں جن کی باتیں سن کر اور کام دیکھ کر لگتا تو یوں ہے جیسے پاکستان تو کوئی چیز ہی نہیں صرف زمین کا ایک ٹکڑا ہے چھینا گیا تو کہیں اور سے کچھ اور بندوبست کرلیا جائے گا۔

حقیقت تسلیم کرنے میں شرم کیسی، کیا ڈوب مرنے کا مقام نہیں آج تک ہم اس چھوٹے سے ملک کو سنبھالنے سے یوں قاصر ہیں کہ پرائے من مانیوں کو مان کر خود اپنی بقاء داؤ پر لگا رہے ہیں۔ تماشا لگا ہوا ہے کوئی اپنی غلطی مان نہیں رہا ہر ایک انقلابی بننے کی کوشش میں غریبوں کو ختم کرنے پر تلا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف نے کہا ٹیکسز اربوں میں لگاؤ ہم مان گئے۔ آئی ایم ایف نے مہنگائی کو لگام دینے کی بجائے شدت لانے کا کہا ہم مان گئے۔ کیا سوچنے کی اتنی چھوٹی سی زحمت بھی گوارا نہیں کہ لائف سٹائل بدلیں گے تو طوفان تھم جانے کی امید پیدا کرسکیں گے۔

سہولت جان سے پیاری بالکل نہیں اور ہماری حکومتوں نے ہمیشہ عوام کو سہولتوں کا جھانسہ دیا ہے جس کے بدلے میں زندگیوں کے بے شمار دیے بجھ گئے ہیں۔

ہوش کے ناخن لینے سے کوئی مر نہیں جاتا کیونکہ اجتماعی بے حسی کا راستہ اتنا عجیب ہے کہ جس کا اختتام شعور کی موت پر ہوتا ہے اور جہاں شعور فوت ہوجاتا ہے وہاں بس عبرت کے لئے چند نشانات ہی چھوڑے جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).