پیار کاآخری لمحہ۔ اور پھر بس


ان کی آنکھو ں کا رنگ بد ل رہا تھا۔ پہلے گرے، پھر آسمانی اور پھر دھیرے سے فیروزی رنگ چمکنے لگا۔ جسم ساتھ چھوڑ رہا تھا۔ میں نے اس کے کاندھو ں پہ دونوں ہاتھ رکھے اور پو چھا ”آپ کیا محسوس کر رہے ہیں؟ “

انہو ں نے گردن اْٹھاکر میری طرف دیکھا اور دھیرے سے کہنے لگے ”آپ نے جو کر نا ہے جلدی کر لیں۔ میری امی انتظار کر رہی ہیں“۔ یہ جملہ توپ کے گولے کی طرح میرے دل پہ جا کر لگا۔

وہ یہا ں نہیں تھے۔ وہ خود کو کہیں اور محسو س کر رہے تھے۔ میرا بچپن کا، پل پل کا ساتھ تھا۔ میں بھاگتی ہو ئی بھائی کے کمرے میں گئی۔ اور اسے کہا ”ہمارے بس کی بات نہیں رہی۔ فوراً ہسپتا ل جا نا ہو گا“۔ وہ گھبرا گیا اور میرے ساتھ ہی کمرے میں آیا۔ باباکو سینے سے لگا یا اوردھیرے سے پو چھا ”آپ کو ہوسپیٹل لے چلیں“ (وہ ہسپتال اورڈاکٹر ز سے ہمیشہ ڈرتے تھے۔ )

انہو ں نے میری طرف دیکھا اور پوچھنے لگے ”آپ کیا کہتی ہیں مجھے جانا چاہیے ہوسپٹل؟ “

میں نے بھرے ہو ئے لہجے میں کہا ”جی آپ کو جانا چاہیے۔ آپ کو بہت کمزوری ہورہی ہے۔ آپ کا ٹریٹ منٹ ہو گا آپ ٹھیک ہو جائیں گے“ (ایساپہلے بھی ہو چکا تھا )

انہو ں نے بھائی کو کہا ”لے چلیں پھر“

بھائی اٹھا اور باقی بھائیو ں کو فون کر نے لگا کہ وہ جلد پہنچ جائیں۔ اور ساتھ ہی ایمبو لینس کے لئے ہسپتا ل بھی فو ن کر دیا۔ بھائی ایمبو لینس کا انتظار کر رہے تھے۔ یہ لاہو ر تھا اور جمعرات کی شام تھی۔ سڑکو ں کا رش ایمبو لینس کے فاصلے بڑھا دیتا ہے۔

بھائی کے کمرے سے باہر نکلتے ہی میں ان کے قریب آ کر بیٹھ گئی۔ ان کو سائیڈ سے گلے لگا لیا ”آپ کیا محسوس کر رہے ہیں“

انہو ں نے میرا جملہ سنا اور مسکرا کر میری طرف دیکھنے لگے۔ بالکل یو ں مسکرا رہے تھے جیسے ایک نو زائیدہ بچہ مسکراتا ہے۔ اور اپنے گا ل میرے گال سے لگا لئے اورمسکراتے رہے۔ پھر ذرا گردن پیچھے کی اور میری طرف دیکھنے لگے۔ اور مسکراتے رہے۔ میں نے ان کے گرد گرفت اور ٹائیٹ کر لی۔ تو مجھے محسوس ہوا اس کا جسم ان کا ساتھ نہیں دے رہا۔ میں نے پو چھا ”آپ سے بیٹھا نہیں جا رہا تو آ پ کو لٹا دوں؟ “۔ انہو ں نے گردن ہلا کر اشارہ کیا ”جی“

میں نے ان کو کاندھوں سے سہارا دیتے ہو ئے لٹادیا اور پھر پا ؤ ں اٹھا کر اوپر رکھے۔ جب میں ان کے پاؤ ں اْٹھا رہی تھی تب بھی مجھے محسو س ہوا، یہ سب کیا ہے۔ اک بے چینی نے اندر طوفا ن مچایا ہوا تھا۔ ان طوفان باہر بپا تھا۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔

پاؤں اوپر کر کے میں پھر ان کے پا س آ گئی تو انہو ں نے اپنے دونوں ہا تھو ں میں میرے ہاتھ تھام لئے۔ پہلے ہاتھو ں کو سینے سے لگایا۔ پھر گا لو ں سے لگا یا اورپھر چومنے لگے۔ مسلسل چوم رہے تھے اور مسلسل میری طر ف دیکھ رہے تھے کو ئی دس منٹ کے بعد کہنے لگے

”آپ مجھے بھو ل تو نہیں جائیں گی؟ “

یہ جملہ ایک بار پھر مجھے کسی خنجر کی طرح لگا۔ ”کیسی بات کر تے ہیں آپ ابو جی؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ آپ ٹھیک ہو جائیں گے، بس ابھی ہسپتا ل چلتے ہیں“

وہ مسلسل مسکرا رہے تھے۔ اور مسلسل مجھے دیکھ رہے تھے۔ کہنے لگے ”بیٹا میں وہا ں سے وہا ں چلا جاؤ ں گا؟ “

میرادل خود کو تسلی دینے لگا۔ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ مگر اک بے بسی، اک بے چینی تھی جو مسلسل جسم و جان کو بے روح کیے ہو ئے تھی۔ ان کو ہلکی سی کپکی طاری ہو گئی۔ مگر وہ مسلسل مجھے دیکھے جا رہے تھے اور میرے ہاتھ چومے جا رہے تھے۔ پچیس منٹ گزر گئے۔ ایمبو لینس پہنچ گئی۔ سب بھائی بھی آ گئے۔ اور پریشان تھے کہ صبح تو صحیح چھوڑ کے گئے تھے۔ یہ اچا نک کیا ہو گیا۔

”میں نے باباسے کہا اچھا میں چلتی ہو ں۔ آپ ہوسپٹل جائیں۔ آپ ٹھیک ہو جائیں گے۔ پھر ہم تیس مارچ کوپریڈ دیکھیں گے۔ “ (ان کو پریڈ کا انتظار تھا۔ ہم اکٹھے دیکھا کر تے تھے۔ )

انہو ں نے آخری بار مجھے دیکھا۔ میں نے ہا تھو ں سے ہاتھ الگ کیے۔ اور وہ خود اٹھے۔

ہسپتا ل پہنچنے سے پہلے ہی ان پہ غنودگی طاری ہو نے لگی ان کو آکسیجن لگا دی گئی۔ ہسپتا ل میں ایڈمٹ کر لیا گیا۔ کمرے میں بھی شفٹ کر دیا گیا۔ سب ٹیسٹ نارمل تھے۔ بلڈپریشر، ہارٹ بیٹ سب ٹھیک چل رہی تھی۔

اک قیامت ہپستا ل میں بھائیو ں پہ گزر رہی تھی۔ اک سونامی گھر میں تھا، جو میں اور امی سہہ رہے تھے۔ رات تھی کہ طویل اور درد ترین ہو تی چلی جا رہی تھی۔ آخر فجر کی اذانیں ہو ئیں۔ میں نے نما ز پڑھی سلام پھرا ہی تھا کہ میرے جسم سے جیسے روح پرواز کر گئی ہو۔ پسینے سے شرابور، جسم پہ کپکی طاری ہو گئی۔ میں ڈر کے بابا کے کمرے میں گئی ان کے ہی بستر پہ کمبل لے کر لیٹ گئی۔ یو ں تھا جیسا آج نہیں۔

امی نے دیکھا تو گھبرا گئیں۔ مجھے گلے لگایا تو میں رو پڑی۔ ہم دونوں بہت روئے۔ مگر بولے کچھ نہیں۔ ہسپتا ل سے ابھی بھی خیر کی خبر آ رہی تھی۔ ابھی آکسیجن لگی ہوئی تھی۔ ڈاکٹرز نے یخنی بتائی تھی۔ جلدی سے بنائی۔ دوپہر ہو چکی تھی۔

جمعہ کی اذان کی آواز آئی تو جیسے میرا دل اندر ہی پھٹ گیا۔ خون اندر بہہ رہا تھا۔ باہر آنسو کنٹرول سے باہر تھے۔ بھائی کا فون آیا۔ ”آپی یخنی بن گئی“۔ مگر اس کا لہجہ بدلا ہو ا تھا۔ میں نے کہا ”جی، میں آجاؤ ں؟ “

” نہیں ابھی نہیں۔ جب آنا ہو گا، بتا دوں گا۔ وہ مجھے نہیں بتا رہے تھے کہ بابا اب ہم میں نہیں ہیں۔ مگر میں بھی تو ان کی ذات کا حصہ تھی۔ میری روح کا بھی تو اک حصہ پرواز ہوا تھا۔ جس نے مجھے خبر دے دی تھی۔ میں امی سے آنکھیں نہیں ملا پا رہی تھی۔

کچھ دیر بعد چچا جان کا فون آیا۔ اوربس۔ پھر ٹھیک آٹھ گھنٹے بعد میں نے ان کو سفید لباس میں اللہ حافظ کہا اور وہ اپنے گھر چلے گئے۔

وہ پیار کا آخری لمس اور لمحہ تھا جو وہ مجھ میں چھوڑ گئے ہیں۔

وہ مجھ پہ اتنے بھید کھول گئے ہیں کہ سینکڑوں کتابیں بھی پڑھ لیتی توسمجھ نہ آتی۔ سب سے بڑا بھید تو یہی ہے کہ
”زندگی بہت بڑا بھید ہے مگر موت سے بڑا نہیں“
صبرشاید آ جاتا ہو مگر جدائی کا کرب ہمیشہ ڈستا رہتا ہے۔ یہ خلا کبھی نہیں بھرتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).