طبقاتی تعلیمی نظام مسائل کی اصل جڑ


پاکستان میں علم حاصل کرنے کے مواقع مختلف ہیں ہمارا نظام تعلیم طبقاتی نظام ہے سب سے پہلی تقسیم دینی مدارس میں پڑھایا جانے والا خالص دینی علوم اور سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں پڑھایا جانے والا خالص عصری علوم ہے۔ گو کہ دینی مدارس میں بھی عصری علوم کی جھلک نظر آتی ہے اسی طرح یونیورسٹیز میں بھی دینی تعلیم کی جھلک نظر آتی ہے مگر بنیادی طور پر دونوں نظام تعلیم کا مقصد جدا جدا ہوتا ہے۔ مدارس میں عصری علوم بقدرِ ضرورت پڑھایا جاتا ہے اسی طرح یونیورسٹیز میں بھی دینی علوم بطورِ لازمی مضامین کے پڑھایا جاتا ہے جو نصاب کا حصہ ہونے کی وجہ سے پڑھنا پڑتا ہے۔

دینی مدارس کے نظام تعلیم پر بحث یہاں مطلوب نہیں اس لٰئے یہاں صرف وزارتِ تعلیم کی زیرِ سرپرستی تعلیمی نظام اور تعلیمی اداروں پر بحث ہوگی۔ عصری علوم کی پہلی تقسیم انگلش میڈیم اور اردو میڈیم میں ہوتی ہے۔ ملک کے مختلف صوبوں کے مختلف شہروں میں سرکاری اسکولز میں کہیں انگلش میڈیم رائج ہے تو کہیں اردو میڈیم پڑھایا جاتا ہے۔ دوسری تقسیم سرکاری اسکولز اور پرائیویٹ اسکولز میں ہوتی ہے۔ سرکاری اسکولز کے مضامین مختلف ہوتے ہیں اگرچہ انگلش میڈیم ہی کیوں نہ ہو جبکہ پرائیویٹ اسکولز کے مضامین مختلف ہوتے ہیں۔ اس قدر طبقاتی نظام تعلیم میں یکساں سوچ برابری کی بنیاد پر مواقع کیسے میسر آسکتے ہیں یہ سوالیہ نشان ہے۔ اگر برابری کی بنیاد پر مواقع میسر نہ آ رہے ہوں تو پھر محرومیاں جنم لیتی ہیں اور محرومیاں تشدد اور انتہاء پسندی کی طرف لے جاتی ہیں۔

سوال یہ ہے حکمرانوں کو یہ سب سمجھ کیوں نہیں آرہا یا جان بوجھ کر اس نظام کو بہتر نہیں بنایا جارہا؟ اس سوال کی کھوج میں لگ جائیں تو کئی سوالات جنم لیتے ہیں مثلا حکمرانوں کی نا اہلی اور عدمِ دلچسپی بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ دوسری طرف پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھاری فیسیں وصول کر رہے ہیں ’جو درسگاہیں کم اور کاروباری مراکز زیادہ ہیں۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے سربراہان بھاری فیسیں لیتے ہیں ان کا بہترین بزنس چل رہا ہے اس لئے انہیں تو کوئی فرق نہیں پڑنا مگر حکمران کیوں چپ ہیں حکمران سرکاری اداروں کو بہتر سے بہترین کیوں نہیں بنا رہے؟

اس سوال کے پیچھے بھی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ پہلی وجہ حکومت کے پاس اتنا بجٹ نہیں اور موجودہ ملکی معاشی حالت کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے اور دوسری وجہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے یا تو وزراء، ایم این ایز یا پھر ایم پی ایز کی ملکیت ہیں جو کسی دوسرے شخص کے نام پر چل رہے ہیں یا پھر حکمرانوں کے ان تعلیمی اداروں میں شیئرز ہوسکتے ہیں اسی وجہ سے وہ سرکاری اداروں کو بہتر نہیں بنا رہے تاکہ ان کے پرائیویٹ ادارے جو دراصل کاروباری ادارے ہیں کہیں خسارے میں نہ چلے جائیں۔

اگر یہ وجہ بھی نہیں تو پھر حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ ریاست بنیادی تعلیم فراہم کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ اگر ایسے ہی طبقاتی نظام تعلیم چلتا رہا تو شاید ہمیشہ سرمایہ دار لوگ ہی اقتدار کے مزے لوٹتے رہیں گے۔ غریب کے بچے جو سرکاری اسکولز میں اردو میڈیم سے پڑھ کر نکلتے ہیں وہ بیکن ہاؤس وغیرہ جیسے اداروں میں پڑھنے والوں کے ساتھ کبھی بھی مقابلہ نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے ہمارا معاشرہ سوچ کے اعتبار سے بھی طبقات میں بٹا ہوا ہے۔

مواقع بھی برابری کی بنیاد پر میسر نہیں آتے جس کی وجہ سے محرومیاں جنم لے رہی ہیں اور محرومیاں تشدد اور انتہاء پسندی کی طرف لے جارہی ہیں۔ طبقاتی نظام تعلیم ہی تمام مسائل کی اصل جڑ ہے ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ تعلیمی نظام کو اقرباء پروری سے بالاتر ہوکر ملک کی بہتری کے لئے طبقاتی نظام سے پاک کریں ورنہ بیس تیس سالوں کے بعد بھی اسی نظام میں صورتحال یہی رہے گی حقیقی تبدیلی کبھی نہیں آسکتی۔ حکمرانوں کو اس بابت سنجیدگی سے سوچنا چاہیے اور حکومتی تعلیمی اداروں کو بہتر بنانا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).