ہمدرد مشاعرہ بیاد احمد ندیم قاسمی – چند معروضات



\"ghaffer احمد ندیم قاسمی کے صد سالہ یوم پیدائش کے سلسلے میں ہمدرد فاؤنڈیشن کے تعاون اور امجد اسلام امجد کی کوششوں سے ایک مشاعرہ الحمرا ہال 2 میں منعقد کیا گیا۔ امجد اسلام امجد ایک عرصہ بعد سالانہ مشاعرے کے انعقاد میں سر گرم نظر آئے۔ خوبصورت اور بھرپور سالانہ بہاریہ مشاعرے تسلسل اور کامیابی سے منعقد کروانے کا ان کو اعزاز حاصل ہے۔ شاعروں کے انتخاب سے لے کر مشاعرے کے اختتام تک، انہوں نے تن تنہا یہ ذمہ داری سر انجام دی ہے۔ اس میں ایک حد تک ان کو الحمرا آرٹس کونسل کے چیئرمین کامران لاشاری اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیپٹن عطا محمد خان کی انتظامی معاونت حاصل تھی۔ ہمدرد فاؤنڈیشن کی سعدیہ صاحبہ نے مالی معاونت کی۔ مشاعرے کے انعقاد میں امجد اسلام امجد نے اپنی جملہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک پراجیکٹ کے طور پر لیا اور اپنی سطح پر کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔
مشاعرے میں شامل شعرا کو پاکستان بھر سے بلایا گیا تھا۔ ان میں کراچی سے پیرزادہ قاسم، انور شعور، صابر ظفر، فاطمہ حسن، کوئٹہ سے نوید حیدر ہاشمی، پشاور سے ناصر علی سید، اسلام آباد سے کشور ناہید، انور مسعود، انعام الحق جاوید، لاہور سے ظفر اقبال، مرتضیٰ برلاس، امجد اسلام امجد، عطاالحق قاسمی، سعود عثمانی، نجیب احمد آزاد کشمیر سے احمد عطااللہ، نئی نسل کے نمائندے کے طور پر قمر رضا شہزاد اور رحمان فارس شامل تھے۔ میزبان شاعر کیپٹن عطا تھے جب کہ نظامت ایوب خاور نے کی۔

نوجوان نسل کے نمائندے رحمان فارس کو عباس تابش کی عدم دستیابی کی بنا پر ان کی جگہ شامل کیا گیا جب کہ شوکت فہمی کے امریکہ چلے جانے کے بعد اس کی جگہ پر سعود عثمانی کو مدعو کیا گیا۔ امجد اسلام امجد پوری طرح قائل ہیں کہ مشاعرے میں بیس شعرا سے زیادہ نہیں ہونے چاہئے۔ مشاعرہ طول کھینچ جائے تو سامعین بوریت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تمام شعرا کو سامعین کے سامنے اسٹیج پر بٹھایا گیا۔ مشاعرے کو تقریباً ایک درجن ٹیلی ویژن چینل نے براہ راست دکھانے کا اہتمام بھی کر رکھا تھا۔ الحمرا آرٹ کونسل کی جانب سے جاری ہونے والے دعوت نامے پر نمبر بھی درج تھا اور یہ ہدایت بھی کہ ایک کارڈ پر صرف ایک شخص ہی آ سکتا ہے۔ مشاعرہ کا آغاز بھی اپنے شیڈول سے پونے گھنٹے کے بعد ہو گیا تھا۔ گویا امجد اسلام امجد صاحب کی جانب سے ہونے والی تمام کوششیں کامیاب ہوئیں، کہیں کوئی جھول نہیں تھا۔ الحمرا ہال 2 سامعین سے تقریباً بھرا ہوا تھا۔ اسٹیج اور بیک اسٹیج کی تزئین و آرائش میں کوئی کمی نہ تھی۔ احمد ندیم قاسمی کے تین پورٹریٹ اور خوبصورت پھول موجود تھے۔

اس کے باوجود مگر مشاعرے کو کامیاب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے کہ اس کا فیصلہ سامعین نے کرنا ہوتا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ مشاعرے کا درمیان آنے سے پہلے ہی سامعین مشاعرہ گاہ چھوڑ کر جانے لگ گئے تھے۔ آخر کیوں؟ اس کیوں کا جواب مشاعرے کروانے والے ان تمام صاحبان کو تلاش کرنا چاہئے کہ جو اس مشاعرے میں بھی شریک تھے۔ پیر زادہ قاسم، فاطمہ حسن، ناصر علی سید، نوید حیدر ہاشمی، کشور ناہید، انعام الحق جاوید مشاعرے برپا کروانے، ان کی نظامت کرنے کا نصف صدی کا تجربہ رکھتے ہیں۔

ایک دلیل یہ دی جا سکتی ہے کہ مشاعرے کی روایت ختم ہو گئی، اب وہ تربیت یافتہ سامعین میسر نہیں جو مشاعروں کے انعقاد کے سبب تسلسل سے شرکت کرتے تھے۔ مگر ایسا نہیں ہے، لوگ اتنی بڑی تعداد میں گھروں سے شاعری سننے ہی آئے تھے۔ دعوت نامہ پر اتنے بڑے ناموں کو دیکھ کو انہوں نے آنے کا فیصلہ کیا ہو گا اس لیے ان کی کچھ توقعات بھی ہوں گی۔ اور چوں کہ وہ توقعات پوری نہ ہو سکیں، اس لیے مشاعرے میں شعرا کو داد نہیں ملی، بلکہ زیادہ وقت تو قبرستان جیسا سناٹا چھا یا ہو اتھا۔ کیوں؟ آج کل کامیاب مشاعرے کی ضمانت کے طور پر مزاحیہ شعرا کو بھی بلایا جاتا ہے، یہاں بھی موجود تھے، مزاحیہ کلام بھی سنایا، تھوڑی بہت داد بھی ملی مگر انور مسعود کو سننے سے پہلے ہی لوگ مشاعرہ گاہ چھوڑ کر جانے لگے۔ ایک آواز ہمارے کانوں میں پڑی، ’’انہوں نے تو وہی سنانا ہے جو ہم بچپن سے سنتے چلے آ رہے ہیں، کیا وقت ضایع کرنا‘‘۔ بہت خوفناک تبصرہ ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ بچے کچھے سامعین نے جن پانچ شعرا کو داد دی ان میں انور مسعود بھی شامل تھے۔ ان کے علاوہ انور شعور، احمد عطااللہ، صابر ظفر اور ظفر اقبال کو، کہہ سکتے ہیں کچھ داد ملی۔ یہ وہ شاعر ہیں، جن کے کلام سنانے پر ہال گونج اٹھتا تھا، سامعین کرسیوں پر کھڑے ہو جاتے تھے۔ مگر اس مشاعرے میں ایسا کچھ نہ ہو سکا۔ مشاعرے کی نظامت ہی مشاعرے کو عروج کی جانب لے کر چلتی ہے۔ یہاں ایوب خاور نہ صرف احمد ندیم قاسمی کی نظمیں ایک نو آموز کی طرح پڑھ رہے تھے بلکہ چہرے پر بھی کوئی ایسی سرشاری کے تاثرات نہ تھے کہ لفظوں میں ڈھل کر سامعین کو اپنے ساتھ لے کر چلتے۔ انور شعور نے شعر سناتے ہوئے ایک اور راز سے پردہ اٹھایا کہ امجد اسلام امجد نے جو کلام سنایا وہ مشاعرے کے آغاز سے پہلے وہ سن چکے تھے اور ان کو بھی پابند کیا گیا تھا کہ انہوں نے کون سی غزلیں سنانا ہیں۔ اور مزید کہا کہ ان غزلوں پر داد ملے یا نہ ملے، اس کا کریڈٹ امجد اسلام امجدکو ہی جائے گا۔ گویا شعرا نے کیا پڑھنا ہے؟ یہ بھی طے کر لیا گیا تھا۔

ہمارے شعرا اکرا م کو یہ بات جان لینا چاہئے کہ پچھلی دو دہائیوں میں ہماری زندگیوں کے مسائل اور نئے زمانے کی حسیات یکسر بدل چکی ہے۔ یہاں تک کہ محبت کرنے، محبت کا اظہار کرنے، عوامی سوچ اور فکر کے زاویے بدل چکے ہیں۔ اس مشاعرے میں بھی صرف ان شعروں پر داد دی گئی جو عصر حاضر کے مسائل سے جڑے اور ان کا تخلیقی اظہار تھا۔ نوید حیدر ہاشمی نے کوئٹہ کے سانحے پر غیر تخلیقی نظم پڑھی، کسی نے توجہ نہیں دی۔ فاطمہ حسن پہلے فارسی میں شعر پڑھتیں، پھر اردو میں اس کا ترجمہ پیش کرتیں، سامعین نے شدید بوریت کا اظہار کیا۔ رحمان فارس کے عامیانہ سے اشعار کسی یونیورسٹی کالج کے طلبا کے شور شرابے میں چل سکتے ہیں، یہاں بری طرح ناکامی ہوئی۔ سعود عثمانی کو اسٹیج پر بیٹھے بزرگ شعرا کی داد بھی نہ سنبھال سکی۔ دوسرے شہروں میں مشاعرے کروانے والے منتظم شعرا کو اسٹیج پر موجود چند شعرا کی واہ واہ کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آیا۔ ویسے تو ایک فلم اور مشاعرے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ منعقد ہونے کے بعد ہی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ ہوتا ہے مگر یہ فیصلہ فلم کی کاسٹ اور ناظرین و سامعین نے کرنا ہوتا ہے۔ سامعین تو یہی رہیں گے، ہاں مشاعرے کی کاسٹ کو بدلنا ہو گا۔ نئی نسل کے شعرا نے شاعری اور مشاعرے کا مزاج بدل دیا ہے۔ اردو غزل کی ایک بالکل نئی روایت جنم لے چکی ہے جس سے بزرگ شعرا خائف ہیں۔ امجد اسلام امجد اگر کاسٹ میں پانچ بھی ایسے نئے شعرا شامل کر لیتے تو مشاعرہ کامیاب ہو سکتا تھا۔ کیا کشور ناہید اور فاطمہ حسن کے بعد شاعرات میں کوئی نیا نام سامنے نہیں آیا؟ کیا رحمان فارس اور سعود عثمانی نئی شاعری کے ترجمان قرار دیے جا سکتے ہیں؟ مزاحیہ شعرا کا بھی زمانہ بیت چکا۔ اب مشاعروں میں جدید حسیاتی اور عصری معاملات کے تخلیقی اظہار کی شاعری ہی کامیابی کی ضامن ہو سکتی ہے۔ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر پرائم ٹائم میں سیاسی، مذہبی اور سماجی مباحث نے لوگوں کا مزاج اور ذوق بدل دیا ہے۔ انور مسعود کو جس شعر پر سب سے زیادہ داد ملی وہ غلام محمد قاصر کا تھا جس میں انہوں نے’’ محبت‘‘ کی جگہ ’’کرپشن‘‘ کا لفظ ڈال کر شعر کا مزاج بدل دیا۔ امجد اسلام امجد صاحب کو ’’ہمدرد مشاعرہ 2017‘‘ کے انعقاد کے وقت ہماری ہمدردانہ و مخلصانہ معروضات پر غور کرلینا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments