جو کروا رہا ہے امریکہ کروا رہا ہے


ملک کے ایک اہم ترین شخص پہ دوسرے ملک کی جاسوسی کا الزام لگا۔ بات عدالتوں تک پہنچ گئی مگر الزام ثابت نہ سکا۔ با عزت بری ہونے کے بعد اس محترم نے با عزت نوکری مکمل کی۔ ریٹائرڈ زندگی گزارنے امریکہ چلا گیا۔ کسی دن موصوف چہل قدمی کرتے کرتے کسی صحافی کے سامنے آ گئے۔ صحافی نے سوال کیا، حضرت واقعی میں آپ امریکہ کے لیے روس میں جاسوسی کرتے تھے اس نے اثبات میں سر ہلایا، اور کہا میرا کام اہم کرسیوں پہ نالائق آدمی تعینات کرنا تھا۔ اس لیے میرا کام انتہائی خطرناک مگر عوامی لحاظ سے ایک غیر اہم تھا اس لیے میں باعزت بری ہو گیا۔ ویسے ہمارے ملک کے اہم عہدیدار جن کی سیکورٹی پہ کھربوں خرچ کیے جاتے، سب امریکہ بہادر کے تھنک ٹینک بن کے باقی زندگی کا امریکہ میں مزہ لیتے ہیں۔

کہانی کا دوسرا رخ، امریکہ کا اہم شخص سال دو ہزار سترہ کے شروع مہینوں میں پاکستان کا دورہ کر رہا تھا۔ ہر جگہ پہنچ کے اس نے مزید تعاون کے لیے بہت جتن کیے، مگر ناکام ہوئے۔ کیونکہ پاکستانی ہوش میں آ چکے تھے۔ انہوں نے پچھلے پچاس سال کی جنگ سے جو سبق سیکھا تھا، اسے مزید بڑھاوا نہیں دینا چاہتے تھے۔ ان تمام معاملات میں سپر پاور کے لیے ملک کی سیاسی حکومت سب سے بڑا روڑا تھی۔ امریکی حکومت کے اہم عہدیدار مایوس ہو کے کابل چلے گئے۔ جہاں انہوں نے کہا، پاکستان نے اگر اپنا رویہ نہ بدلا تو مجبورا امریکہ کو اپنا رویہ بدلنا پڑے گا۔

پھر یکایک ایک پاناما کے دھماکوں کی گونج نے ملک کے سیاسی، معاشی ستونوں کو ہلا دیا۔ سپر پاور کو چیلنج کرنے والا پاکستان منہ کے بل نیچے گر چکا تھا۔

پچھلے چند مہینوں کی معاشی صورتحال آپ کے سامنے ایک مثال ہے۔ سی پیک پہ کام بند ہو چکا ہے۔ امریکہ سپر پاور ہے یہ تو ہمیں ماننا پڑے گا۔ چین اور ایران کے لیے تازہ ترین امریکہ عمان فوجی معاہدہ ایک کھلی دھمکی ہے۔ اس معاہدہ کے تحت امریکہ اپنے فوجی اڈے ہر جگہ بنا سکتا ہے۔ اگر نقشے میں آپ عمان کو دیکھیں تو بالکل یہ گوادر سے لے کر ایران تک گول گھوم رہا ہے۔ گوادر سے قرب کی بنیاد پہ، امریکہ کے لیے بہت آسانی ہو گئی ہے کہ وہ سی پیک میں رخنہ ڈال سکے۔ رہی سہی کسر ہم نے امریکہ کے دلالوں کو معیشیت کی مکمل باگ ڈور دے کر پوری کر دی۔ ایک بیگ کے ساتھ لینڈ کرنے والوں سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے۔ اگر ایسے دماغوں کو اتھارٹی دینی ہوتی ہے، تو پھر یہ الیکشنز پہ پیسہ، وقت لگا کے ملک اور عوام کا نقصان کیوں کیا جاتا ہے۔

ہم پاکستانی تمام محب وطن ہیں مگر ہماری جغرافیائی حیثیت ہمیں مار دے جاتی ہے۔ بے شمار صلاحیتیں ہونے وجود بھی ہم اڑ نہیں سکتے۔ جونہی کوئی اڑے تو اسے منہ کے بل گرا دیا جاتا ہے۔ ہمارے حالیہ وزیر اعظم ایران، چین کے دورے سے واپس آئے ہیں، زلمے خلیل زاد پہلے سے پاکستان میں بیٹھا کہہ رہا ہے، ہمیں پاکستان کی ضرورت ہے۔ شاہ محمود صاحب بھی حامی بھر دیتے ہیں۔ ہم بالکل اس معاملہ میں پورا تعاون کریں گے۔ ٹرمپ دورہ ایران کے دوران دھمکی دیتا ہے۔ جو ایران سے کوئی خرید و فروخت کرے گا، اسے بھی ایران جیسی اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ان تمام حالات و واقعات سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔ کہ ہمیں پاؤں پہ کھڑا بھی نہیں ہونے دیا جائے گا، تا کہ ہم خود دار نہ ہو جائیں، مرنے بھی نہیں دیا جائے گا کیونکہ ایسا کام اور کوئی نہیں کر سکتا۔ بس سسکتے رکھا جائے گا۔ جہاں میرٹ کی لاش پہ نالائقوں کا ننگا ناچ جاری رہے گا۔ یاد رکھیں یہ سب امریکہ کروا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).