میڈیا کا بے لگام جِن بوتل میں کب اور کیسے بند ہو گا؟


سوشل میڈیا کی اہمیت سے انکار کسی صورت ممکن نہیں۔ نسلِ نو کا دن کھائے پیے بغیر تو گزر سکتا ہے لیکن فیس بک، وٹس ایپ اور یو ٹیوب سے دوری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آج کل چونکہ انفوٹینمنٹ کا دور دورہ ہے، ہمیں انفارمیشن اور انٹرٹینمنٹ دونوں ایک ساتھ چاہیے، تو سوشل میڈیا ویب سائٹس اس مقصد کو پورا کرنے میں اور بھی اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو مین سٹریم میڈیا (ٹیلی ویژن اور اخبارات) کے ذریعے شہرت پانے کے لئے جہاں سالہا سال انتظار کرنا پڑتا تھا، سوشل میڈیا دنوں میں ہی آپ کو شہرت کی بلندیوں تک لے جانے کی اہلیت رکھتا ہے۔

سوشل میڈیا کے ذریعے اگر آپ ایک مرتبہ کلک کرنے میں کامیابی مل جائے تو مین سٹریم میڈیا پر انٹری مشکل نہیں۔ قندیل بلوچ اور اس طرح کے کئی کردار سوشل میڈیا ہی کی پیداوار ہیں۔ دوسری طرف ٹیلی ویژن سکرینز پر نظر آنے والے زیادہ تر اینکرز اور پروگراموں کے میزبان ’دِکھتا ہے تو بکتا ہے‘ کی پالیسی کے پیرو کار نظر آتے ہیں، موضوعات کا چناو، ٹی آر پی کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔ انہیں ایشوز کو زیر بحث لایا جاتا ہے جو ایڈورٹائزرز کو بھا سکیں۔

اگر دیکھا جائے تو قندیل بلوچ کو ایک اچھا انسان اور شہری بنانے اور میرا کی انگلش بہتر کرنے میں میڈیا کا بظاہر کوئی فائدہ نظر نہیں آ رہا تھا، لیکن سب کچھ بہت دیر تک چلتا رہا، کیونکہ بدلے میں ویور شپ مل رہی تھی۔ میڈیا کے معاملے کو بڑھاوا دینے اور کردار کشی کرنے کے نتیجے میں ہی شاید قندیل اس دنیا سے اپنے وقت سے پہلے چلی گئی۔

کچھ روز پہلے سما ٹی وی کے ایک پروگرام میں ناصر خان جان کو مدعو کیا گیا۔ ناصر خان جان پیشکش کے مزاحیہ انداز اور مواد کی وجہ سے سوشل میڈیا پر آج کل خاصے مقبول ہو رہے ہیں۔ محمد شعیب نامی پروگرام کے میزبان نے بے تکے سوالات سے ناصر خان جان کو مسلسل پریشان کیے رکھا۔ صاف نظر آ رہا تھا، کہ مقصد مہمان شخصیت کی کردار کشی اور تضحیک ہے۔ دوسری طرف ناصر خان جان نے نہایت خوبصورتی اور تمیز کے دائرے میں رہتے ہوئے جوابات دیے۔

پروگرام نشر ہونے کے بعد شدید عوامی رد عمل آیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارا ضمیر زندہ ہے اور ابھی بھی انسانیت باقی ہے۔ حتیٰ کہ میڈیا حلقوں میں بھی میزبان کی کافی درگت بنی۔ حامد میر، اجمل جامی سمیت دیگر بڑے ناموں نے اس واقعے کی شدید مذمت کی اور صحافیوں کی پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت پر زور دیا۔ اجمل جامی کا کہنا تھا کہ جب اینکر بے قابو ہو رہا تھا، تو ساتھی اینکر پر لازم تھا، کہ وہ مداخلت کرتیں یا پروڈیوسر صاحب کان میں کچھ فرماتے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، بظاہر معاملہ ”سستی شہرت“ کا ہے۔ بہتر ٹریننگ اور بنیادی صحافتی اخلاقیات کا پاس ہوتا تو اسی موضوع کو بہت بہتر طریقے سے پیش کیا جا سکتا تھا۔

جامعات میں شعبہ ابلاغ عامہ کے طلبہ کو صحافتی اخلاقیات کا ایک کورس کروانے کا مقصد انہیں میدان عمل کے لئے تیار کرنا ہوتا ہے کہ بطور پروفیشنل صحافی ان کی بنیادی ذمہ داریاں کیا ہونی چاہیے۔ صحافت کے کیا حدود و قیود ہیں اور ایک صحافی کا دائرہ اختیار کیا ہے، وہ کس حد تک جا سکتا ہے۔ صحافتی اخلاقیات ایک صحافی کو دوسری بہت سی چیزوں کا پابند کرنے کے ساتھ قانونِ رازداری پر زور دیتے ہوئے اس بات کی تلقین کرتے ہیں کہ کسی بھی شہری کو ڈرا دھمکا کر یا دباو میں لا کر ذاتی معلومات حاصل نہیں کی جا سکتیں، ایسا کرنا صحافتی اصولوں کے منافی ہو گا۔

غیر اخلاقی مواد نشر نہیں کیا جائے گا۔ گالم گلوچ، ذو معنی الفاظ کا استعمال یا کسی کی کردار کشی کی اجازت ہرگز نہیں ہو گی لیکن جیسے ہی طلبہ تعلیمی میدان سے نکل کر عملی زندگی کا حصہ بنتے ہیں وہ پروگرام کو سپر ہٹ بنانے کے لئے باسز کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے، ان سب ضوابط کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ ایسا کرنے سے شاید وقتی شہرت اور پروگرام ریٹنگ تو ملتی ہے لیکن مجموعی طور پرابلاغ عامہ کے کردار پر ایک سوالیہ نشان بھی ثبت ہو جاتا ہے۔

اس قسم کی صورتحال میں میڈیا ریگولیٹری اتھارٹیز کا کردار میڈیا مالکان کو بھاری جرمانے یا پھر لائسنس منسوخی کی صورت میں سامنے آنا چاہیے لیکن صد افسوس دیگر سرکاری اداروں کی طرح میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی بھی برائے نام ہی رہ گئی ہے اور میڈیا کا بے لگام گھوڑے کو قابو کرنے میں ناکام ہیں۔ 2002 میں پرائیویٹائزیشن کے بعد ہمارے میڈیا کو جو آزادی ملی اس کے جہاں بہت سے مثبت نتائج دیکھنے کو ملے وہیں غلط استعمال بھی کیا گیا، جو اب تک جاری ہے۔ اگر اس صورتحال پر بروقت قابو پانے کے لئے ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو صورتحال مزید دگرگوں ہونے کا اندیشہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).