آئی ایم ایف کا پاکستان


جب سے موجودہ حکومت اقتدار میں آئی ہے، ملکی معیشت تباہی کی طرف ہی جا رہی ہے۔ روپے کی قدر گر رہی ہے۔ بے روزگاری تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ افراط زر بڑھ رہا ہے۔ تمام ترقیاتی منصوبے بھی رکے ہوے ہیں، لیکن مالی خسارہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ روپے کی قدر گرنے کے باوجود غلط حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے برآمدات بڑھنے کی بجائے کم ہو رہی ہیں۔ حکومت وقت کی بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو ادائیگیاں، تعطل کا شکار ہیں، جس سے گردشی قرضے بڑھتے جا رہے ہیں۔

پاکستان میں کاروبار کتنی تیزی سے نیچے آرہے ہیں، اس کا اندازہ پٹرولیم مصنوعات مہیا کرنے والی کمپنی ہیسکول کی مثال سے کیا جا سکتا ہے۔ دس سال پہلے کام کا آغاز کرنے والی یہ کمپنی ملک میں تیزی سے ترقی کرنے والی کمپنیوں میں سے ایک ہے اور اس وقت ملک کی دوسری بڑی کمپنی ہے۔ تیل سے ہی زیادہ تر کاروبار چلتے ہیں۔ زراعت کا زیادہ تر انحصار بھی اسی پر ہوتا ہے۔ پچھلے ایک سال میں اس کی سیل میں تئیس فی صد کمی ہوئی اور اس کے شیئر کی قیمت میں دو تہائی گراوٹ آئی۔

معیشت میں بگاڑ اس حد تک جا چکا ہے کہ ملکی مجموعی پیداوار کی شرح (جی ڈی پی ریٹ) آدھی ہو چکی ہے۔ معاشی حالات بڑی تیزی سے خراب ہو رہے ہیں۔ معیشت اب فری فال کی حالت میں ہے، یعنی عمودی گراو کا شکار ہے۔ اس کا سب سے اہم سبب موجودہ حکومت اور اس کی معاشی ٹیم کی بد عملی اور نا اہلی ہے۔ پچھلے نو ماہ میں اس حکومت کو جو کرنا چاہیے تھا، وہ نہیں کیا۔ حکمرانوں کا حکومت سنبھالنے سے پہلے ہوم ورک ہی نہیں تھا۔ ان کو پتا ہی نہیں تھا کی ملک کی معیشت کس حال میں ہے۔

اور اوپر سے ان کے بلند بانگ دعوے ان کے رستہ کی دیوار بنے۔ پھر جب احساس ہوا کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تو دیر ہو چکی تھی۔ اس سال کے آغاز میں ہی پلوامہ کا واقعہ ہو گیا اور پاکستانی فوج کو مشرقی بارڈر پر توجہ دینی پڑ گئی۔ پچھلے سال دفاعی اخراجات میں گیارہ فی صد اضافہ ہوا تھا۔ اب دفاع پر اور زیادہ خرچ کرنا پڑا۔ ملکی معیشت پہلے ہی خراب تھی ایک اور بوجھ پڑ گیا۔ جو بھی پارٹی اس وقت حکومت میں ہوتی اس کو آئی ایم ایف کے پاس جانا ہی تھا۔

پاکستان اور آئی ایم ایف کا تعلق بہت پرانا ہے۔ 1958 سے لے کر اب تک ان کے ساتھ اکیس معاہدے ہو چکے ہیں۔ اس دوران عام طور پر ایک سے تین سال کے بعد پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس دوبارہ جانا پڑا۔ صرف 1958، 1981 اور 2001 کے بعد سات سال کا وقفہ آیا۔ ان تین وقفوں کے دوران ہم دیکھیں تو پاکستان کے اطراف میں اہم بین الاقوامی واقعات وقوع پذیر ہوئے۔ پہلے وقفے میں پاکستان CETO اورSENTO کا ممبر تھا۔ سرد جنگ کا آغاز ہو چکا تھا۔ اور امریکہ کو پاکستان کی اشد ضرورت تھی۔ اسی دوران پوری دنیا میں گرین ریوولیشن بھی آیا تھا، جس سے ملکی زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا تھا۔

دوسرے وقفہ میں افغانستان میں روسی مداخلت پر سی آئی اے کے ڈالرز، وسطی مشرقی دینارو ں اور ریالوں کی پاکستان پر برسات ہوئی۔ 1998 کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان پر عالمی طاقتیں برہم تھیں اور پاکستان کو سخت شرائط پر قرضے لینے پڑے لیکن نائن الیون کے بعد پھر حالات پاکستان کے حق میں ہوئے، اور 2008 تک پاکستان کو مزید قرضوں سے نجات ملی رہی۔ 2013 میں نواز شریف کو حکومت میں آتے ہی پھر اسی در دولت پر حاضری دینا پڑی۔ اس کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی، سی پیک اور اس حکومت کی تجارت دوست پالیسیوں کی بدولت آئی ایم ایف سے وقتی طور پر نجات ملی رہی۔ لیکن اب اس کے پاس جانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہا تھا۔

چھے سے دس بلین کا نیا پروگرام تقریباً منظوری کے قریب ہے۔ یہ پاکستان کا سب سے بڑا پروگرام ہو گا۔ اس سے پہلے بڑا پروگرام (7.2 B Dollar) پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2008 میں لیا تھا۔ آئی ایم ایف نے کڑی شرائط عائد کرنے کا کہا ہے۔ بہت سی پر پہلے ہی کام ہو چکا ہے اور اب پاکستان کی حکومت تمام شرائط ماننے پر تیار ہے اور ان پر عمل درآمد کی ضمانت کے طور پر اب حکومت نے معیشت کے اہم شعبہ جات آئی ایم ایف کے افراد کے ہی حوالے کر دیے ہیں۔ اسی طرح کی شرائط آئی ایم ایف دوسرے ممالک پر بھی عائد کرتا رہا ہے اور ان کا انجام اچھا نہیں ہوا۔

ایکواڈور میں (جو کہ اوپیک کا رکن ہے) حکومت کو اسی فی صد گھریلو صارفین کے لئے گیس کی قیمتیں بڑھانے کا کہا گیا۔ دوسری شرائط میں چھبیس ہزار افراد کو نوکریوں سے برخاست کرنے اور بچنے والے مزدوروں کی اجرت آدھی کرنے کی شرط لگائی۔ اس کے علاوہ پانی کے نظام کو غیر ملکی افراد کے حوالے کرنے کاحکم ملا۔ ملک میں تیل کی پائپ لائن بچھانے اور پھراس کی ملکیت ان کی پسندیدہ کمپنی کو دینے کی شرط بھی لگائی گئی۔

ظلم کی انتہا دیکھیں کہ ایکواڈور کو آئی ایم ایف نے مجبور کیا کہ اس کے معزز شہریوں نے ذاتی حیثیت میں غیر ملکی بینکوں سے جو قرضے لیے ہوئے تھے حکومت ان کی ذمہ داری لے اور ادا کرے۔ دیگر 167 قرضے کی شرائط دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ مدد کرنے نہیں بلکہ وہ معیشت اور پھر ملک پر مکمل قبضہ کرنے آئے تھے۔

تنزانیہ کی آٹھ فی صد آبادی ایڈز کے وائرس سے متاثر ہے جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ موت کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ اس ملک کی معیشت کی مدد کرنے والے اس ادارے اور ورلڈ بنک نے ان کے ہسپتالوں میں مریضوں کے مفت علاج پر پابندی لگا دی۔ جس سے اس کے دارالخلافہ دارالسلام میں واقعہ تین سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد آدھی سے کم ہو گئی۔ کیا اچھا طریقہ ہے، بیماری کے علاج کا۔ اور مرض کو کم کرنے کا! انہوں نے سکولوں میں فیس بھی بڑھانے کی شرط لگائی اور پھر جب داخلوں کی تعداد کم ہو گئی تو ورلڈ بنک نے حیرانی کا اظہار کیا۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف نے تنزانیہ کی مدد کے لئے تقریباً ایک سو ستاون شرائط لگائیں۔ اور مرتا کیا نہ کرتا، تنزانیہ ان تمام پر دستخط کرنے پر راضی ہو گیا۔

نتائج بہت اچھے آئے۔ جی ڈی پی تین سو سے کم ہو کر دو سو ڈالر فی کس کے قریب آگیا۔ خواندگی کی شرح گر گئی۔ اکاون فی صد افراد خط غربت سے نیچے چلے گئے۔ اور پھر بھی ورلڈ بنک ناراض تھا کہ تنزانیہ میں چونکہ ماضی میں سوشلسٹ حکومتیں رہی ہیں اور عوام کا خیال ہے کہ سب ضروریات مہیا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، اس لئے ہم ان کے دل اور دماغ نہیں جیت سکے۔

ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کا جنم 1944 میں ہوا تھا۔ ان کا مقصد جنگ میں ہونے والی تباہی کے بعد ممالک کی دوبارہ تعمیر کے منصوبوں میں مدد دینا اور جن کے پاس دولت نہیں ان کی معاشی مدد کرنا تھا، تا کہ ان کو سرمایہ کی کمی کی وجہ سے ڈوبنے سے بچا یا جا سکے۔ دیوار برلن کے انہدام اور سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ان کے رکن ممالک کی تعداد بڑھ گئی اور انہوں نے اپنی شرائط سخت کر دیں۔

اب ہر مدد چاہنے والے پر تقریباً سو سے ڈیڑھ سو تک شرائط لگائی جاتی ہیں، جن میں سب سے اہم غیر ملکی مصنو عات پر تجارتی پابندیاں ختم کرنا، قومی ادارے فروخت کرنا، سوشل اخراجات کنٹرول کرنا اور اپنے ملک میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے کام کے ماحول کو بہتر کرنا (مثلاٍ ً مزدور یونینز پر پابندی لگانا، مزدوروں کی اجرت اور ان کی سہولیات کو کم کرنا) لازمی شامل ہوتا ہے۔

اسی کی دہائی تک دنیا کے زیادہ تر ممالک ویلفیئر سٹیٹ تھے۔ 1960 سے 80 کے دوران لاطینی امریکہ میں فی کس آمدنی میں 73 فی صد اور افریقہ میں 34 فی صداضافہ ہوا تھا۔

آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے مدد لینے کے بعد کمال کے نتائج سامنے آے۔ لاطینی امریکہ کے ممالک میں اگلے بیس سالوں میں آمدنی میں صرف چھے فی صد اضافہ دیکھا گیا اور افریقہ میں تو تئیس فی صد کمی ہوئی جس سے غربت اورجہالت میں اضافہ ہوا، لوگوں کی عمریں (life expectancy) کم ہونا شروع ہو گئیں۔ ان میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جن کے پاس تیل کے وسیع ذخائر ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ تیل کے ذخائر کا مالک وینزویلا اور افریقی ملک سوڈان، ان دہائیوں میں تباہی کی مثالیں ہیں۔ افریقی ممالک میں بے روزگاری اتنی بڑھی کہ نوبل انعام یافتہ لائبیریا کی سابق صدر ایلن جانسن سرلیف نے اس مسئلہ کا ذکر کرتے ہوے کہا کہ اس کو حل کرنے کی لئے آئی ایم ایف کو خصوصی توجہ دینی چاہیے۔

بی بی سی اور دی اکانومسٹ کے ساتھ کام کرنے والے صحافی گریگ بلاسٹ کے بقول قومیں جو آئی ایم ایف کی مدد سے معیشت کی بحالی چاہتی ہیں، ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ اس کی کیا قیمت اداکرتی ہیں۔

”وہ اپنی ضروریات زندگی قربان کرتی ہیں، غربت میں اضافہ کرتی ہیں اور اپنے عوام کی زندگی یعنی اوسچ عمر کم کرتی ہیں“۔

معیشت کے موجودہ حالات میں آئی ایم ایف کے پاس جانا پاکستان کی مجبوری ہے۔ اگر پاکستان آئی ایم ایف کے پاس جاتا ہے تو مصیبت میں پھنس جاے گا اور اگر نہیں جا تا تو اس سے بھی بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دونوں طرح انجام برا ہی نظر آ رہا ہے۔ اب ہماری حالت وہی ہے کہ کنویں سے نکلے، باولی میں گرے۔ ہم اس کے پاس جائیں گے تو مستقبل قریب میں ہمارے ارد گرد کے حالات میں کوئی بڑی تبدیلی بھی نظر نہیں آ رہی جو ہماری مدد کرے گی۔

اب اس مصیبت سے انتہائی ذہانت سے نکلنا پڑے گا۔ جو کہ اس وقت کے حکمرانوں میں نہیں ہے۔ اور بھان متی کا یہ کنبہ جو کہ کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا جوڑ کر ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے، کسی کو جواب دہ بھی نہیں۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ معاشی اداروں اور کابینہ میں وہ لوگ لا کر بٹھا دیے گئے ہیں جو عوام کے نمایندے ہی نہیں اور انہوں نے اپنا کام ڈال کر واپس اپنے آقاؤں کے پاس شاباش لینے چلے جانا ہے۔

معاہدہ انتہائی سمجھ داری سے ہونا چاہیے تھا۔ حکمرانوں نے سب کچھ ان کے حوالے کردیا کہ جو چاہتے ہو ہماری طرف سے خود ہی لکھ لو۔

اسی کی دہائی میں ایک نعرہ سنا کرتے تھے کہ، ”تیرا پاکستان ہے، نہ میرا پاکستان ہے، یہ اس کا پاکستان ہے جو صدر پاکستان ہے“ اب لگتا ہے کہ ”یہ آئی ایم ایف کا پاکستان ہے“۔ اس کا مطلب ہے تباہی۔ ہمیں سوچنا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).