نوجوانوں پر سوشل میڈیا کے اثرات ’نہایت کم‘ ہوتے ہیں


سوشل میڈیا

برطانیہ میں کیے جانے والے ایک جائزے کے مطابق نوجوانوں کی زندگی پر سوشل میڈیا کے اثرات شاید ’نہایت کم‘ ہوتے ہیں۔

بیس سال کے 12 ہزار نوجوانوں پر کیے جانے والے اس مطالعے کے نتائج کے مطابق اس عمر میں آپ کتنے مطمئن ہیں، اس کا انحصار آپ کے خاندان، دوستوں اور سکول کی زندگی پر زیادہ ہوتا ہے۔

یونیورسٹی آف آکسفورڈ کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے ماضی میں اس حوالے سے جو تحقیق کی تھی، اس کے مقابلے میں حالیہ تحقیق میں تمام عناصر کا مطالعہ زیادہ تفصیل کے ساتھ کیا گیا اور یہ نتائج زیادہ قابل بھروسہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

’والدین بچوں کے سکرین ٹائم کی وجہ سے زیادہ پریشان نہ ہوں‘

ننھے بچوں کا سکرین ٹائم محدود کرنے کی ہدایات

یونیورسٹی نے سوشل میڈیا کمپنیوں پر بھی زور دیا ہے کہ وہ صارفین کے سوشل میڈیا کے استعمال کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کریں تاکہ نوجوانوں کی زندگیوں پر جدید ٹیکنالوجی کے اثرات کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

اس تحقیق میں اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ آیا وہ نوجوان جو زیادہ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں وہ زیادہ غیر مطمئن ہوتے ہیں یا نہیں اور کیا وہ نوجوان جو قدرے بیزار رہتے ہیں وہ سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارتے ہیں۔

بچوں کی ذہنی صحت اور سکرین سمیت دیگر جدید ٹیکنالوجی کے درمیان تعلق کے حوالے سے ماضی میں جو تحقیق ہوتی رہی ہے اس میں متضاد نتائج دیکھنے میں آئے تھے۔

معمولی اثرات

آکسفورڈ انٹرنیٹ انسٹیٹیوٹ سے منسلک پروفیسر اینڈریو پرزبلسکی اور ایمی اوربن کا کہنا تھا کہ اکثر اس قسم کی تحقیق کا دائرہ محدود ہوتا ہے جس کی وجہ سے مکمل تصویر آپ کے سامنے نہیں آتی۔

تاہم ان ماہرین کی تحقیق کا نتیجہ یہ ہے کہ زندگی میں اطمینان اور سوشل میڈیا کے استعمال کے درمیان جوڑے جانے والے اکثر تعلق خاصے کمزور ہوتے ہیں اور یہ تعلق ایک فیصد سے زیادہ نوجوانوں کی زندگی کی عکاسی نہیں کرتے۔ ماہرین کا مزید کہنا تھا کہ مطمئن زندگی اور سوشل میڈیا کے درمیان تعلق یکطرفہ یا ’ون وے سٹریٹ‘ جیسا نہیں ہوتا۔

پروفیسر اینڈریو پرزبلسکی کہتے ہیں کہ ’کسی شخص کے اطمینان کے 99.75 فیصد کا تعلق سوشل میڈیا سے بالکل نہیں ہوتا۔

سنہ 2009 اور سنہ 2017 کے درمیانی عرصے میں کی جانے والی اس تحقیق میں پندرہ سال کے ہزاروں لڑکوں اور لڑکیوں سے پوچھا گیا کہ وہ عام سکول کے دنوں میں سوشل میڈیا پر کتنا وقت صرف کرتے ہیں اور یہ کہ وہ اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو کیا اہمیت دیتے ہیں۔

ماہرین کو معلوم ہوا کہ لڑکیوں پر سوشل میڈیا پر گزارے جانے والے وقت کے اثرات زیادہ ہوتے ہیں لیکن یہ اثرات بھی ’نہایت کم‘ ہوتے ہیں اور لڑکوں پر سوشل میڈیا کے اثرات سے بہت زیادہ بھی نہیں ہوتے۔

ماہرین کے مطابق یہ اثرات اتنے کم ہیں کہ انھیں اعداد و شمار کی شکل میں دکھانا زیادہ اہم نہیں ہے۔

سوشل میڈیا

پروفیسر پرزبلسکی کے بقول ’والدین کو بچوں کے سوشل میڈیا پر گزارے جانے والے وقت کے بارے میں پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ والدین کا یوں سوچنا غلط ہوگا۔‘

’ہم سوشل میڈیا پر گزارے جانے والے وقت کو پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں، لیکن ہمیں اب سکرین پر گزارے جانے والے وقت کے بارے میں اپنے خیالات کو خیرباد کہہ دینا چاہیے، کیونکہ یہ نتائج بتاتے ہیں یہ کوئی بڑی پریشانی کی بات نہیں۔‘

ان ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ان بچوں کو دیکھیں جن پر واقعی سوشل میڈیا کے کچھ مخصوص اثرات زیادہ ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ ان دوسرے عناصر کو بھی تلاش کریں جو بچوں کی صحت پر سوشل میڈیا سے زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔

اس تحقیق میں حصہ لینے والے ماہرین جلد ہی میڈیا کمپنیوں سے ملاقات کا ارادہ رکھتے ہیں تا کہ وہ ان کے ساتھ مل کر یہ دیکھ سکیں کہ بچے سوشل میڈیا کو اصل میں استعمال کیسے کرتے ہیں، یہ نہیں کہ وہ کتنا وقت سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں۔

سوشل میڈیا

’پہلا چھوٹا قدم‘

یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے شعبۂ نفسیات سے منسلک مِس ایمی اوربن کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا انڈسٹری پر لازم ہے کہ وہ اپنے اعداد و شمار شائع کریں تاکہ اِس قسم کی آزادانہ تحقیق میں مدد مل سکے۔

’ان اعداد وشمار تک رسائی نوجوانوں کی زندگی پر سوشل میڈیا کے مختلف اثرات کو سمجھنے میں مرکزی کردار کر سکتی ہے۔‘

بچوں کی صحت کے ماہر ڈاکٹر میکس ڈیوی نے بھی اس تحقیق کو اس سمت میں پہلا چھوٹا قدم قرار دیتے ہوئے ماہرین کے اس مطالبے کی حمایت کی ہے کہ کمپنیوں کو بچوں کے سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے اپنے اعداد وشمار سائنسدانوں کو دکھانے چاہئیں تا کہ وہ بہتر انداز میں تحقیق کر سکیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہمیں دوسرے پہلوؤں کا بھی جائزہ لینا چاہیے، مثلاً بچے جو وقت سکرین پر گزار رہے ہیں اس سے ان کی نیند، ورزش اور اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ گزارے جانے والے وقت پر کیا اثرات پڑ رہے ہیں۔

’ہماری تجویز یہی ہو گی کہ والدین ان سفارشات پر عمل کریں جو ہم نے اس سال کے شروع میں جاری کی تھیں۔ انہیں چاہیے کہ سونے سے ایک گھنٹہ پہلے بچوں کو سکرین سے ہٹا دیں کیونکہ ذہنی صحت کے علاوہ بھی بچوں کے لیے رات میں اچھی نیند سونا ضروری ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp