سات دہائیوں سے اپنا ’کردار‘ مانگتا آزاد کشمیر


24 اکتوبر 1947 کو ریاست جموں کشمیر کے 4144 مربع میل کے رقبہ پر محیط ایک چھوٹے سے حصے پر آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کا قیام عمل میں لایا گیا، تین ڈویژن، 10 اضلاع، 32 تحصیلوں اور 1771 دیہاتوں پر مشتمل انتظامی طور پر نیم خود مختار کہلائی جانے والی ریاست کے قیام کا مقصد ریاست جموں و کشمیر کے باقی حصے کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنا تھا اس لیے اسے آزادی کا بیس کیمپ کہا گیا تھا۔

وقت کا پہیہ بہت تیزی سے چلتا ہے، وقت کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ وقت نہ بادشاہ کے لیے اور نہ فقیر کے لیے رکتا ہے، وقت کی ہر شے غلام ہوا کرتی ہے، وقت کا ہر شے پر راج ہوتا ہے اس لیے انسان کو وقت سے ہمیشہ ڈر کر رہنا چاہیے۔ 24 اکتوبر 1947 سے اب تک 72 سال ہونے کو ہیں، کشمیریوں کی جدوجہد جموں سے سرینگر پہنچ گئی، ظلم و ستم کی نئی داستانیں رقم ہوئی، شہادتوں کے نئی تاریخیں رقم ہوئی، تحریک آزادی کشمیر میں اتار چڑھاؤ آتے رہے، بھارتی سامراج ظلم کرتے تھکا تو تھکا لیکن کشمیری قربانی دیتے نہ تھکے لیکن اس طرف آزادی کے بیس کیمپ میں بیٹھی قیادت ابھی تک صرف گفتار کی غازی بنی رہی۔

آج آزادی کے بیس کیمپ کی برسر اقتدار قیادت مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہ رہی ہے، اپنے کردار کے لیے فریاد کر رہی ہے اور میرے خیال میں بیس کیمپ کو کردار ملنا چاہیے۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی یہی لکھا تھا کہ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ بیس کیمپ کو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک واضح کردار دے اور ان کی پشت پناہی کرے، تا کہ کشمیر کی کہانی کشمیریوں کی زبانی دنیا تک پہنچ سکے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیسا کردار دیا جائے اور کسے دیے جائے؟ سات دہائیوں تک لیلائے اقتدار کے گیسو سنوارنے والی، اقتدار کی زلف گرہ گیر کی اسیر بیس کیمپ کی قیادت نے اب تک ریاستی عوام کے لیے کیا کیا ہے؟

بیس کیمپ کی قیادت سات دہائیوں میں، بیس کیمپ میں بسنے والے عوام کی تقدیر تو سنوار نہ سکی، کشمیر کا مقدمہ لڑنے کے لیے نئی نسل تو تیار نہ کر سکی، البتہ تحریک آزادی کشمیر کے نام بیس کیمپ میں چند سیاسی خاندان قابض ضرور ہوئے۔ پھر وراثتی سیاست کو عروج ملا، برادری ازم اور ذاتی مفادات کو فروغ دیا گیا، تحریک آزادی کشمیر کے نام پر بھاری وفود کے ہمراہ بیرون ملک کے دورے ہوئے، کشمیر فنڈز کے نام پر اکاؤنٹس بھرے گے، ترقیاتی فنڈز کے ذریعے آزاد کشمیر میں وہ ترقی تو نہ ہو سکی جو ہونی چاہیے تھی۔ ہاں مگر کچے مکانوں اور کیمپوں میں رہنے والے لیڈروں، سیاستدانوں نے پاکستان کے مہنگے ترین علاقوں میں کوٹھیاں ضرور بنالی ہیں۔ دیکھنے کے قابل وزیر اعظم ہاؤس اور کشمیر ہاؤس تعمیر ہو گئے ہیں، نیلم اور چکار کے خوبصورت گیسٹ ہاؤس بنے، وائٹ ہاؤس نے عوام میں مقبولیت حاصل کی، سیاسی خاندانوں نے بیرون ملک جائیدادیں بنالیں، اور اپنے اپنے کاروبار کو وسعت دے دی۔

باپ کے بعد بیٹا وزارت کا حقدار ٹھہرا، اور بیٹے کے بعد اس کی اولاد، خاندان میں کوئی بے روزگار نہیں، اور زندگی گلزار نظر آنے لگی۔ مگر دوسری طرف کبھی کوئی سحرش انصاف کے لیے روتی رہی اور کبھی کسی سابق وزیر اعظم کے حلقے میں ہسپتال میں نا کافی عملہ اور سہولیات کی عدم موجودگی کی وجہ سے کسی معصوم کی ماں دم توڑ جاتی۔ کبھی شاہراؤں کی خستہ حالت کی وجہ سے روڈ ایکسیڈنٹ سے پورا پورا خاندان داعی اجل کو لبیک کہہ جاتا، تو کبھی اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے ملازمین کو ریاستی جبر کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ کبھی گڈ گورننس کے نام ہر بے بس عوام کے جذبات سے کھیلا جاتا رہا، کبھی بھٹو کو بیس کیمپ میں زندہ کیا جاتا رہا تو کبھی نواز شریف کو آقا بیس کیمپ کا مسیحا بنانے کی کوشش رہی۔

لگژری گاڑیوں میں گھومنے والے، نرم بستر پر سونے والے، اے سی رومز میں بیٹھ کر کشمیر کی بات کرنے والے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے آج اپنا کردار مانگ رہے ہیں، مگر ان سے سات دہائیوں کا حساب کون لے گا؟ سرینگر کے عقوبت خانوں میں کشمیریوں کی نسلیں سڑ گئیں اور آپ جائیدادیں بنانے اور اقتدار کی ریس میں بے لگام گھوڑے کی طرح دوڑتے رہے۔ آپ بیس کیمپ کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو کشمیر پر ہونے والی پیش رفت، اقوام متحدہ کی قراردادوں، اور مسئلہ کشمیر کی حقیقت بارے نہیں بتا سکے تو بیرون ملک کے دورے، سرکاری اخراجات، بادشاہوں والی زندگی یہاں تک آنے والی نسلیں تک سنوار لی آپ نے، اب مسئلہ کشمیر پر رول یاد آیا!

میں جرنلزم کا طالبعلم اور کنفلکٹ زون کا باشندہ ہونے کی حیثیت سے یہ سمجھتا ہوں کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بیس کیمپ کا ایک واضح رول ہونا چاہیے، حکومت پاکستان کو کشمیریوں کی پشت پناہی کرنی چاہیے۔ انہیں اپنا مقدمہ لڑنے کا قابل بنانے چاہیے، لیکن وہ رول، کرسی کے پجاری حکمران نہیں ادا کر سکتے، اس کردار کے لیے بیس کیمپ کے اہل، تجربہ کار لوگوں اور پڑھے لکھے نوجوانوں کی ایک ٹیم تیار کرنی چاہیے، جنہیں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ٹرینگ دی جائے۔ انہیں تیار کیا جائے، مسئلہ کشمیر کے تمام پہلوؤں انہیں سمجھائے جائیں انہیں مکمل تیار کر کے انٹرنیشنل لیول پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کام کروایا جائے، تبھی جا کر بیس کیمپ کا کردار کسی حد تک مسئلہ کشمیر میں ادا ہو سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).