پودے اگانا اور پھر زیرزمین امیدوں کو پانی دینا


مہینے میں ‌ ایک دن میں ‌ شفا کلینک میں ‌ والنٹیر کام کرتی ہوں ‌ جہاں ‌ پر ہم وہ مریض‌ دیکھتے ہیں جن کے پاس ہیلتھ انشورنس نہ ہو یا وہ ڈاکٹر کو دیکھنا افورڈ نہ کرسکتے ہوں۔ شفا کلینک اوکلاہوما کی اسلامک سوسائٹی کا حصہ ہے لیکن اس میں ‌ کسی بھی ملک اور کسی بھی مذہب کے لوگ آسکتے ہیں۔ شفا کلینک میں ‌ کام کرنے سے مجھے کئی ایسی انڈین اور پاکستانی خواتین کو دیکھنے کا موقع ملا جو صرف اردو، ہندی یا پنجابی میں ‌ بات کرسکتی ہیں، ہاؤس وائف ہیں۔ کچھ ایسی بوڑھی خواتین کو بھی دیکھا جو اپنے ملکوں ‌ سے اپنے بچوں ‌ کے پاس رہنے یا ان سے ملنے آئی ہوئی تھیں۔

دیسی خواتین کے صحت کے مسائل میں ‌ صرف معاشی ہی نہیں بلکہ سماجی عوامل کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ ان خواتین میں ‌ سے کافی ہیں جو میری امی کی طرح‌ گاڑی چلانا نہیں جانتی ہیں۔ اوکلاہوما یا باقی ساؤتھ یا مڈ ویسٹ نیویارک اور شکاگو کی طرح‌ نہیں ‌ ہے جہاں ‌ ٹرانسپورٹیشن کے لیے بس یا ٹرین لے سکتے ہیں۔ اگر مڈ ویسٹ میں ‌ آپ کے پاس گاڑی نہ ہو یا چلانی نہ آتی ہو تو یہ آپ کو اپاہج کرنے کے لیے کافی ہے کیونکہ جگہیں ایک دوسرے سے بہت دور ہیں۔ بغیر گاڑی کے نہ گروسری خرید سکتے ہیں، نہ ڈاکٹر کے پاس جاسکتے ہیں اور نہ ہی کہیں ‌ اور۔ ان خواتین میں ‌ گھر میں ‌ بیٹھے رہنے سے، باقاعدہ سے ورزش نہ کرنے اور کسی کھیل کود میں ‌ حصہ نہ لینے کی وجہ سے مٹاپے اور ذیابیطس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

کچھ عوامل ان مڈل کلاس خواتین کی اکثریت کی طاقت سے باہر ہیں۔ جیسا کہ عوامی ہراسانی اور تحفظ کا فقدان۔ باغ میں ‌ چہل قدمی کرنا یا جم میں ‌ جاکر ورزش کرنا، سؤئمنگ کرنا یا زومبا کی کلاسیں لینا ان کے لیے ان ممالک میں ‌ سماجی طور پر ممکن نہیں ‌ ہے۔ امریکہ یا کسی اور ترقی یافتہ ملک میں ‌ جاکر بھی ان کا زندگی گذارنے کا طریقہ بہت زیادہ تبدیل نہیں ہوتا۔ وہ مجھے اس لیے پتا ہے کہ کئی سالوں ‌ پہلے ہم لوگ اپنی امی کو ڈرائیونگ سکھا رہے تھے تو وہ دروازہ کھول کر دوسری طرف سے نکل گئیں ‌ اور دوڑ لگا کر واپس گھر چلی گئیں۔

آج کا مضمون گھریلو باغبانی کے بارے میں ‌ ہے۔ باغبانی ایک دلچسپ مشغلہ ہے اور فائدہ مند بھی۔ مائیکل پولینڈ کی کتاب اومنیوورس ڈائلیما کے مطابق جب کیوبا پر 90 کی دہائی میں ‌ معاشی بحران پیدا ہوا تو شہری باغبانی نے کس طرح‌ اس کے شہریوں ‌ کی غذائی ضروریات کو پورا کیا۔ لوگ اپنے صحن اور چھت پر روزمرہ کی سبزیاں اگا کر اور جانور پال کر اپنے کنبوں ‌ کو سہارا دینے میں ‌ کامیاب رہے۔ خواتین گھریلو باغبانی سے نہ صرف خود کو ایک فائدہ مند مشغلے میں مصروف رکھ سکتی ہیں بلکہ اس سے آپ کی صحت اور موڈ پر بھی خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔

ہر علاقے کے موسم اور آب وہوا کے مطابق ہی وہاں پر سب سے مناسب پودوں ‌ کا انتخاب ممکن ہے۔ جب میرے ابو زندہ تھے تو وہ ساہیوال سے ایک سفید مرچ کا پودا سکھر لے آئے تھے جو بیچارہ وہاں ‌ کی سخت گرمی برداشت نہ کرتے ہوئے چل بسا تھا۔ اب انٹرنیٹ کی وجہ سے یہ معلومات حاصل کر لینا بالکل مشکل بھی نہیں ‌ رہا ہے۔ صحرا میں بھی پودے اگتے ہیں۔ علاقائی آب و ہوا کے لحاظ سے یہ چناؤ ضروری ہے۔

میرا اپنا بھی ریٹائرمنٹ کا یہی پلان ہے کہ باغبانی جاری رکھوں ‌ اور اپنے گھر کے پیچھے ایک شیشے کا سن روم بناؤں اور وہاں سے شام میں ‌ بیٹھ کر اس کی ہریالی کو انجوائے کروں۔ باغبانی کے بہت سارے فائدے ہیں خاص طور پر زیادہ عمر کے لوگوں ‌ کے لیے یہ ایک پرلطف ورزش کی قسم ہے۔ باغبانی سے آپ متحرک رہ سکتی ہیں جس سے ہڈیوں اور پٹھوں ‌ میں ‌ مضبوطی پیدا ہوتی ہے۔ متحرک رہنے سے کئی بیماریوں ‌ سے بچت ممکن ہے مثلاً ہڈیوں ‌ کے بھربھرے ہوجانے کی بیماری، مٹاپا، ذیابیطس، ڈپریشن اور بے چینی۔ باغبانی سے اسٹریس میں ‌ بھی کمی واقع ہوتی ہے۔ اپنے دوستوں ‌اور پڑوسیوں ‌ کے ساتھ مل جل کر کام کرنے سے بھی آپ بہتر محسوس کریں گی۔ اس کے علاوہ گھر میں ‌ اگائی ہوئی سبزیاں بازار سے خریدی ہوئی سبزیوں سے زیادہ صحت مند ہوتی ہیں کیونکہ ان پر کمرشل کیمیائی مادے استعمال نہیں ‌ کیے گئے۔

اس سال میں ‌ نے اپنے صحن میں ‌ ٹماٹر، ہری مرچ، بینگن، کھیرے، بھنڈی، دھنیے اور پودینے کے پودے لگائے ہیں۔ اس کے علاوہ میری چھوٹی بہن اور میں ‌ نے مل کر امرود، انجیر اور بلیک بیری کے درخت بھی لگائے۔ امید ہے کہ وہ زندہ رہیں ‌ گے، بڑے ہوں ‌ گے اور پھل بھی دیں ‌ گے۔

زیادہ عمر کے افراد کو باغبانی کا مشغلہ اپنانے سے پہلے کچھ باتوں ‌ کا دھیان رکھنا ضروری ہے۔ بڑھاپے میں ‌ جلد نرم ہوجاتی ہے جس کے زخمی ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے پوری آستینوں کی شرٹ پہننا اور باغبانی کے لیے مخصوص سخت دستانے استعمال کرنا مناسب ہوگا۔ اگر نظر کمزور ہو تو اس سے بھی آپ کے کام میں ‌ رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔ ہر علاقے کے افراد کو موسم کا خیال کرنے کی اشد ضرورت ہوگی۔ جولائی اور اگست میں اوکلاہوما میں ‌ شدید گرمیاں ‌ ہوتی ہیں اور یہاں صبح سویرے یا شام کے علاوہ باہر کچھ بھی کام کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔

گرمیوں ‌ کے موسم میں ‌ ہلکے رنگ کے کپڑے پہننے سے بھی گرمی سے بچت ممکن ہے۔ تمام افراد کو علاقائی موسم کے لحاظ سے ہی اپنا شیڈول طے کرنا ہوگا۔ شدید گرمی میں ‌ کام کرنے سے جسم میں ‌ پانی کی کمی اور ہیٹ اسٹروک ہوسکتا ہے۔ باغبانی میں ‌ اپنے جسم کے توازن کا خیال رکھنا ضروری ہے ورنہ گر بھی سکتے ہیں۔ گرنے سے ہڈیوں کا فریکچر ہوسکتا ہے۔ جو لوگ جھک کر زمین میں ‌ پودے لگانے کا کام نہیں کر سکتے ان کے لیے زمین کے اوپر رکھے ہوئے گملے وغیرہ استعمال کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔

اگر جھاڑیوں ‌ میں ‌ کام کرنے سے جلد میں ‌ خراشیں یا زخم ہو جائیں یا کیڑوں یا مچھروں ‌ نے کاٹا ہو تو ان کا بروقت علاج ضروری ہے۔ اگر آپ کے بوڑھے والدین لان میں ‌ کام کررہے ہوں ‌ جن کو حافظے کی بیماری ہو تو اس بات کا دھیان رہے کہ تمام دروازے بند ہیں۔ جن لوگوں ‌ کی یادداشت ٹھیک نہیں ہوتی وہ دروازہ کھول کر نکل جاتے ہیں۔ کوئی بیس سال پہلے کی بات ہے جب ہم لوگ ٹلسا اوکلاہوما میں ‌ رہتے تھے۔ ایک سردیوں ‌میں ‌ایک نرسنگ ہوم سے ایک بوڑھے صاحب باہر نکل گئے تھے اور کچھ دن بعد ان کی برف میں ‌ اکڑی ہوئی لاش ایک بینچ پر بیٹھی ہوئی ملی تھی۔ اس واقعے کے بعد اس نرسنگ ہوم پر کیس دائر ہوا تھا اور ڈیمنشیا کے مریضوں ‌ کے لیے مزید قوانین ترتیب دیے گیے۔ باغبانی کے دوران باقاعدگی سے پانی پیتے رہنے سے جسم میں ‌ پانی کی کمی سے بچاؤ ممکن ہے۔

اپنا باغ بنانے میں ‌ زمین کھودنے، پودے لگانے، ان کو پانی دینے اور سبزیاں ‌، پھل یا پھول توڑنے سے انسان اچھا محسوس کرتے ہیں۔ زمین سے انسان کا ایک گہرا رشتہ ہے جو ساری زندگی شہروں ‌ میں رہ کر بھی ختم نہیں ‌ ہوتا۔ پودوں ‌ کو چھونے سے اور ان کی اچھی خوشبو سے لوگ خوش باش رہتے ہیں۔ جب آپ اپنی اگائی ہوئی سبزیاں توڑ کرپکائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اتنی تازہ سبزی میں ‌ اور وال مارٹ سے خریدی ہوئی سبزی کے زائقے میں ‌ کتنا فرق ہوتا ہے۔

باقی سب پودے آہستہ آہستہ بڑے ہورہے ہیں۔ بھنڈی کے بیجوں ‌ سے ننھے سے پودے زمین سے پھوٹ پڑے ہیں۔ ٹماٹر کے پودے تیزی سے بڑے ہورہے ہیں۔ وہ دن دور نہیں ‌ جب ہم اپنی محنت کا پھل کھائیں ‌ گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).