سابق وزیرِ اطلاعات کا نیا شوشہ


فواد چوہدری جس سے اس کے متنازعہ بیانات کی وجہ سے وزارتِ اطلاعات کا قلمدان لے کر وزیرِ سائنس بنا دیا گیا ہے، نے پچھلے دنوں سوشل میڈیا بیان میں کہا تھا کہ ”جب تک یہ فیصلہ نہیں ہو جاتا کہ ملک کو ملاں نے چلانا ہے یا شعور نے تو ملک ترقی نہیں کر سکتا“۔ اس بیان میں علماء پر کاری چوٹ لگائی گئی ہے جیسے وہ شعور سے عاری کوئی مخلوق ہے جو باشعور سیاسی و فوجی دانشوروں کے مقابلے میں حقِ حکمرانی کی طلبگار ہے۔

فی الحقیقت یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ مولوی نے کوئی خاص ترقی نہیں کی مگر ملک کے ترقی نہ کرنے میں ملائیت کو الزام دینا ہرگز قرینِ قیاس نہیں۔ ملک کو بیدردی سے نقصان پہنچانے والے حکمرانوں میں چاہے ضیاء ہو، یحییٰ، مشرف ہو یا بھٹو، کوئی بھی تو مولوی نہیں تھا۔ بلکہ ان میں بیشتر باشعور ملٹری ڈکٹیٹر تھے یا انہی کی کیاریوں میں لگے فارمی سیاستدان اور جیسا کہ اب نئے لائے گئے عقلِ کل خان جو بربادی کے نئے ریکارڈ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔

علامہ احسان الہی ظہیر کے فرزند علامہ ہشام نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں فواد چوہدری کے اس بیان پر زبردست ردعمل دیا ہے۔ انہوں نے چوہدری فواد کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ ہر حکومت کے کاسہ لیس رہے، یہاں تک کہ آپ کا نام اس سبزی کے نام پر رکھ دیا گیا جو دیگر ہر سبزی کے ساتھ چل جاتی ہے۔

عوام کے کروڑوں ووٹوں سے اقتدار میں آنے والی نواز حکومت کو جس مولوی نے ہلا کر رکھ دیا تھا، اس کی سرکوبی کی بجائے اسے بڑھاوا کس نے دیا تھا؟ اور دھرنے کے شرکاء میں لفافے کس نے تقسیم کیے تھے؟ اور پھر اس کا سارا الزام تمام مولویوں پر چہ معنی؟

وزیرِ سائنس صاحب! آپ بولے ہیں تو اب یہ بھی بتا دیجئے کہ : کس بے شعور مولوی نے تین دریا بھارت کو بیچے اور بنگلہ دیش کس مہتمم المدارس کے دور حکمرانی میں بنا؟ لسانی و مسلکی فسادات بھڑکانے کے پیچھے بھی کیا کسی مدرسے کا نادیدہ ہاتھ ہوتا ہے؟ قال قال کہنے والے ہی کیا کالے چہرے ہیں جن کی کرپشن نے ملک کو کھوکھلا کر دیا ہے؟ زرد صحافت اور سیاسی پنیری کا اجراء کیا دارالحدیث کرتا ہے؟ کلاشنکوف اور منشیات کا دھندہ کیا حاملین جبہ و دستار کے دم سے آباد ہے؟

سانحہ ساہیوال جیسے پے درپے واقعات کیا مدارس کے مہتمم حضرات اپنے طلباء کے ذریعے کرواتے ہیں؟ ملک کو قرضوں کے جنجال میں الجھانے میں بھی کیا مفسرینِ قرآن کا ہاتھ ہے؟ ریلوے، پی آئی اے، واپڈا اور دیگر اداروں کی زبوں حالی بھی کیا کسی استاذ الاساتزہ کی بے شعوری کے سبب ہے؟ گینگ وار، ٹارگٹ کلنگ، ڈکیتیوں اور گاڑی چوری کی وارداتوں کے پیچھے کیا مدارس کے فارغ التحصیل طلباء ہوتے ہیں؟ گھوسٹ سکول اور گھوسٹ اساتزہ کے ذریعے ملکی خزانے کو لوٹنے والے بھی کیا حافظ، قاری اور مولوی حضرات ہوتے ہیں؟

اور گھوسٹ اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈنگ اور پیسہ ملک سے باہر کیا مدارس کے خفیہ نیٹورک کے ذریعے بھیجا جاتا ہے؟ نظریہ ضرورت والے جج کس مدرسے کے فارغ التحصیل تھے؟ تمام سرکاری اداروں کے کمیشنوں اور کک بیکس میں کیا وارثانِ منبر و محراب بھی حصہ دار ہوتے ہیں؟ پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والا ڈکٹیٹر کس اسلامی اکیڈمی سے تربیت یافتہ تھا؟ اور سب سے بڑھ کر یہ بتایا جائے کہ نواز حکومت کو کس قاری کی انگلی نے تلپٹ کیا تھا اور اس بیکار نئی حکومت کے پیچھے کس عالمِ دین کا خفیہ ہاتھ ہے؟ موجودہ حکومت کی بے ہنگم مہنگائی کس شیخ الحدیث نے برپا کی ہے؟

بات بات پر ہر ناکامی کا ملبہ مولوی و مدارس پہ ڈالنے کا یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔ کچھ بنیادی و ضروری تبدیلیاں ناگزیر ہیں تو ضرور کیجائیں مگر کسی ڈھنگ اور باہمی اعتماد کے تحت، نہ کہ امریکہ کی بیجا خواہشات پر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).