ہماری ریاست ہمیشہ دیر کر دیتی ہے


جب مشرقی پاکستان ہاتھ سے نکلنے کے قریب تھا تو افواج پاکستان کی جانب سے ایک آخری کوشش کی گئی کہ حالات کی کشیدگی کو کسی طرح کم کیا جائے۔ چنانچہ جنرل نیازی جو اس وقت مشرقی پاکستان میں تعینات تھے تو انھوں نے دو کاموں کا آغاز کیا۔ ایک جانب تو وہ بیشمار قیدی جن کو امن امان میں خلل ڈالنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، ان کو رہا کرنا شروع کیا اور دوسرا کام یہ کیا کہ مشرقی پاکستان میں جگہ جگہ عوامی اجتماعات کا انعقاد کرکے بنگالیوں کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ ماضی میں جو کچھ ہوا وہ ملک میں (مشرقی پاکستان میں ) امن امان کی صورت حال کی بحالی کے سلسلے میں کیا گیا تھا۔ اس لئے اس کو نہ صرف ایک ضروری اقدام سمجھا جائے بلکہ جو گرفتاریاں ہوئیں یا کچھ افراد جان سے گئے، ان کو بھی اسی کوشش کا حصہ سمجھا جائے۔

ان کا اپنا یہ کہنا، بنگالیوں کو سمجھانا، پاکستان کا موقف سامنے رکھنا، بے شک مخلصانہ ہی رہا ہوگا، لیکن یہ بات بتانے اور سمجھانے میں اتنی تاخیر ہو چکی تھی کہ وہ اس نفرت کے زہر کو، جو ایک ایک بنگالی کی روح و بدن میں سرائیت کر چکا تھا، نکالنے میں ناکام ہوئے اور اس ناکامی کی ایک ہی وجہ یہی تھی کہ ”ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں“۔

شمالی علاقوں میں ان شر پسندوں کے خلاف جو پاکستان کی سالمیت کے لئے نہ صرف خطرہ بن چکے تھے بلکہ وہ پاکستان کے قبائلیوں کو شیشے میں بھی اتار کر اپنا ہمنوا بنا چکے تھے، جب افواج پاکستان نے کارروائی کا فیصلہ کیا اور آپریشن ”ضرب عضب“ شروع کیا تو وہ شرپسند جو ریاست کے خلاف ہتھیار بند ہوکر مقابلے پر اتر آئے تھے، وہ تو زد پر آئے ہی آئے، ساتھ ہی ساتھ وہ قبائلی جو پہلے بھی پاکستان ہی تھے اور آج تک پاکستان ہی ہیں، وہ سب بھی گرفتار بلا ہوئے۔

یہاں دہری تاخیر ہوئی۔ اولاً یہ کہ وہ سب شر پسند جو ہمارے قبائلی علاقوں میں عرصہ دراز سے جمع ہو رہے تھے، شادیاں رچا رہے تھے، اولادیں در اولادیں پیدا کر رہے تھے، ایک دوسرے سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو رہے تھے، آزادانہ تجارت کر رہے تھے، پورے پاکستان میں اپنے لئے جائیدادیں خرید رہے تھے۔ اسلحہ و گولہ بارود جمع کر رہے تھے اور پاکستانی علاقوں کو اپنے زیر اثر لاتے جارہے تھے، ان سب کو ایک طویل عرصے تک ایسا سب کچھ کرنے کا موقع کیونکر ملا؟

دوسری تاخیر یہ ہوئی جب ان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ ہوا، وہاں سے ان قبائلیوں کو جو پاکستان تھے اور اب بھی ہیں، ان کو وہاں سے نکال کر محفوظ مقامات ہر منتقل کرنا پڑا، ان کے گھر بار اور کاروبار کو بتاہ و برباد کرنا پڑا تو حالات ٹھیک ہونے پر ان کو دوبارہ ان کی اسی حالت میں جس حالت میں وہ منتقل ہونے سے پہلے تھے، بحال کیوں نہ کیا گیا۔ بات ایک ہی سامنے آئے گی کہ ”ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں“۔

شمالی علاقوں میں جس قسم کے بھی آپریشن ہوئے ان آپریشنز کی وجہ سے پاکستان کا جو شہر سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ کراچی تھا۔ اکثر قارئین کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ کہاں شمالی علاقہ جات اور کہاں کراچی۔ شمالی علاقوں کے آپریشن سے کراچی کے متاثر ہونے کا کیا تعلق بنتا ہے؟ ان کی حیرت بجا لیکن دنیا جانتی ہے کہ شمالی علاقوں کے متاثرین کی ایک بھاری تعدا سرکاری سطح پر اورسرکار کی مرضی کے بغیر، کراچی ہی کی جانب آئی۔

جو سرکاری سطح پر کراچی آئے ان کے لئے فیلٹوں پر مشتمل کئی آبادیاں جو 90 فیصد سے زیادہ ابھی آباد نہیں ہوئی تھیں، جو یہاں کے لوگوں کی ملکیت تھیں، یہ کہہ کر ان سے آباد کی گئی کہ وہ دوسال کے بعد اصل مالکان کے حوالے کر دی جائیں گی لیکن دسیوں سال گزر جانے کے باوجود بھی نہ تو وہ آبادیاں ان کے اصل مالکان کو ادا کی گئیں، نہ ہی ان کی رقوم کی واپسی کا انتظام کیا گیا اور نا ہی عارضی طور پر آباد ہونے والوں کو ان کے اپنے علاقے میں واپس بھیجنے کا بند و بست کیا گیا۔

شمالی علاقوں میں متاثر ہونے والے وہ افراد جو سرکار کی مرضی و منشا کے بغیر کراچی میں آئے، انھوں نے جہاں جہاں خالی میدان، ندی، نالے اور اونچی نیچی پہاڑیاں دیکھیں وہاں ڈیرے جمالئے۔ خیال یہ تھا کہ حالات کی سازگاری کے بعد ان کی واپسی ہو جائے گی لیکن تاحال وہ کراچی کے مسائل میں ایک ”اضافی“ اضافہ ہیں۔ ان کو آباد رکھنے کے لئے بجلی پانی اور گیس کی فرہمی بھی ایک درد سر سے کم نہیں۔ یہ سب کیسے ہوا اور اب تک متاثرین اپنے گھروں کو کیوں نہیں لوٹ سکے اس کا ایک ہی جواب ہے ”ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں“۔

متاثرین شمالی علاقہ جات کوئی آج کا مسئلہ نہیں اور ان کو اب تک اسی شکل صورت میں آباد کرنا، جس میں وہ آپریشنز سے پہلے کی شکل میں تھے، کوئی ایسی بات نہیں تھی جو منصوبہ بندی میں شامل نہ ہو یا اب بھی آباد کاری کے منصوبے سے باہر کی بات ہو، لیکن بات محض اتنی ہے کہ ”ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں“ والا سلسلہ ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔

چند دن قبل ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک پریس بریفنگ میں لوگوں کو اس وقت چونکا دیا، جب ان سے مسنگ پرسنز کے بارے میں سوال کیا گیا۔ جواب میں انھوں نے کہا کہ ”جنگ“ میں سب جائز ہوتا ہے۔ جن لوگوں کو لاپتا کیا گیا ہے وہ اسی فلاسفی کے تحت ہے۔ پاکستان کے عوام و خواص اب تک ایسی ساری کارروائیوں کو ”جنگی“ کی بجائے ”تادیبی“ خیال کر رہے تھے۔ ان کے اپنے خیال میں جنگیں تو ملکوں اور ملکوں کے درمیان ہوا کرتی ہیں، غداروں اور شر پسندوں کے خلاف تو جتنی بھی شدید کارروائیاں کیوں نہ ہوں، وہ تادیبی کہلاتی ہیں۔ بہر حال اگر اس کو ”جنگی“ مان بھی لیا جائے تو یہ بات محض عوام تک اس لئے معلوم نہ ہو سکی تھی کہ ”ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں“۔

تازہ ترین خبروں کے مطابق کمانڈنٹ فرنٹیئر کور بلوچستان نے کہا ہے کہ سرحد پر باڑ لگانے کے دوران ایران سے مزاحمت کی جا رہی ہے۔ ان کے بقول 15 شرپسند حملہ آوروں کوجوابی کارروائی میں ہلاک کر دیا۔ کمانڈنٹ ایف سی بلوچستان نے بتایا کہ پاک ایران سرحد پر باڑ لگانے کا کام شروع کر دیا ہے جو 3 سے 4 سال کے دوران مکمل کر لیا جائے گا۔ سرحد پار سے آنے والے دہشت گردوں کو ہلاک کرنا بڑی کامیابی ہے، تاہم تمام 15 لوگ ایران سے نہیں آئے تھے، مقامی لوگوں میں کچھ غداروں نے ان کا ساتھ دیا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کل تو وجود میں نہیں آیا۔ 70 سال سے زیادہ عرصہ دونوں جانب سے افراد کی جو آزادانہ آنے جانے کی عادات بگڑ چکی ہیں، وہ جادو کی چھڑی گھمانے سے ٹھیک تو نہ ہو جائیں گی۔ جب اس خدشے کے تحت کہ ہندوستان سے پاکستان میں جاسوس آ سکتے ہیں، سندھ اور پنجاب کی سرحدیں ”مستقل“ بنادی گئیں تھیں تو یہ کیسے سمجھ لیا گیا تھا کہ افغانی اور ایرانی فرشتے ہیں۔ اس کا جواب ایک ہی ملے گا ”ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں“۔

ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔ نوبت خود کشی کرنے تک جا پہچی تھی۔ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کو انا کا مسئلہ بنانے والے اسی در کی چوکھٹ پر سجدے پر سجدے کیے جا رہے ہیں اور وہ چوکھٹ ناک پر ناک رگڑوا رہی ہے۔ 60 ماہ میں سے 10 ماہ گزار کر اسی چوکھٹ پر سجدہ ریزی کا بیک گراؤنڈ میوزک یہی شور مچا رہا ہے کہ ”ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں“۔

ان حالات کو سامنے رکھ کر ایک ہی بات ہے جو کرنے کے لئے رہ گئی ہے اور وہ یہی ہے کہ جو قوم کئی نسلیں گزر جانے کے باوجود بھی نہ سدھر سکی، اس سے سدھر جانے کی توقع رکھنا بے شک غیر دانشمندی ہی سہی لیکن پاکستانیوں گھبرانا نہیں ہے۔ اس لئے کہ قصور بہت بڑا نہیں بس اتنا سا ہے کہ ”ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).