بچوں کی دنیا بدل گئی اور ۔۔۔ مائیں؟


جس سمت ہمارے سماج کا سفینہ حیات گامزن ہے وہ ہم سب کے لئے اور خصوصاً ماؤں کے لئے لمحہ فکریہ ہے ایسا کیوں ہے کہ ہمارے بچوں کے لئے جا بجا تربیت تو عام مگر جوہر قابل نہیں تو کیا؟ تعمیر ہو جس سے آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں یا پھر ان کے پروان چڑھانے میں ہم سے کو ئی بھول ہو رہی ہے کیوں ہماری نئی نسل میں شارٹ کٹ کی دوڑ لگی ہو ئی ہے 18۔ 17 صدی کے نا بغہ روزگا ر سپوت جنھوں نے پو ری دنیا کی ذہنیت و سمت کو بدل کر رکھ دیا وہ کیسی عظیم ما ووئں کی کو کھ میں تر بیت پا تے تھے جو اپنے بچوں کی بہترین پرورش، تعلیم وتربیت پر اپنا تن من دھن وار کر انھیں اس قابل بناتی تھی کہ وہ اپنے ملک وقوم کے لیے با عث فخر ہو ئے جو انتہا ئی کم و سائل کے با وجود دنیا کو بہت کچھ دے کررخصت ہوئے۔

زندگی کے ابتدا ئی سال ہر بچہ مادر آغوش میں سیکھتا و پروان چڑھتاہے اس کی تر بیت کی اہم ذمہ دا ری باپ سے زیادہ ماں پر لاگو ہوتی ہے بچے کوہر تکلیف میں ماں یاد آتی ہے کہ شعوری طور پر وہ ماں سے قریب ہو تا ہے اس کی با تیں نصیحتیں ہمیشہ یاد رہتی ہیں پھر کیوں ہم نے اپنے بچوں کی جھولی میں دنیا داری کے نام پر جھوٹ، ریا کا ری اوردکھاوا ڈا ل دیا ہے۔ میں اکثر پڑھا نے کے دوران اسٹوڈنٹس کی نفسیات سمجھنے کی کو شش کرتی ہوں فری پریڈ میں ان سے بات کر تی ہوں مجھے افسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ اکثر بچے جھوٹ بو لتے ہیں ٹیچر ہم ارلی مو رنگ اٹھ کر پڑھائی کر تے ہیں اسکول وین میں بھی پڑ ہتے ہو ئے جا تے ہیں جب کہ بچے کی چھوٹی بہن بول پڑتی ہے ٹیچر!

یہ جھوٹ کہتا ہے مما بڑی مشکلوں سے اسے صبح اٹھا کر تیار کر تی ہیں ان بچوں کی نالج بھی شا ندار ہے مگر کس طرح استعمال ہو رہی ہے اس کی ایک مثال کہ یہ اسٹو ڈنٹس کا روں کی برا نڈ زکے بارے میں مکمل معلوما ت رکھتے ہیں اچھی بات ہے مگر! افسوس یہ محض علم نہیں بلکہ اپنے اسٹیس کو شو کر نے کے لئے ہے بچہ کہتا ہے ٹیچر یہ گا ڑی کے کو نے میں اس کا برانڈنام کیوں لکھا ہوتا ہے ہماری گا ڑی کے کو نے پر بھی لکھا ہے وہ ایک قیمتی گاڑی کانام لیتا ہے میں اسے غور سے دیکھتی ہوں وہ معصوم صورت بنا کر مجھے دیکھتا ہے پھر فخریہ اپنے سا تھیوں کی جا نب مسکراتا ہے میں اسے دیکھتی رہ جا تی ہوں کون سکھاتا ہے انھیں اس انداز سے سو چنا با ت سے بات نکا لنا۔

دکھاوا، جھوٹ، نفرت، خود پسندی اور ہٹ دھرمی یہ سب ان کی رگوں میں کس نے سرایت کر دی ہے وہ مائیں کیوں خوشی سے پھولے نہیں سماتی جب ان کا بچہ کسی ایسے سے بد تمیزی کر تا ہے جس سے وہ چڑتی ہیں مائیں بچے کی حو صلہ افزائی کر تی ہیں گو یا کو ئی کا رنامہ انجا م دیا ہو لیکن کچھ عر سے بعد جس عفریت کی انھوں نے حو صلہ افزا ئی کی تھی وہ رویہ بچہ ان کے ساتھ اپناتا ہے تو افسوس کیوں ہو تا ہے آپ نے تو بچے کو صبر و برداشت بڑوں کا لحاظ کرنا سکھایا نہیں تو وہی اصول وہ آپ کے سا تھ بھی لا گو کر ئے گا۔

بچے کا ذہن ایک صاف کینوس کی ما نند ہے جس میں آپ کو رنگ بھرنا ہے چا ہیں تو انمٹ خوبصورت کردار کا رنگ بھر دیں مرضی ہو تو بدصورت ۔

خوفناک دنیا پر بوجھ بننے وا لے انسان کشید کر یں قدرت نے ماؤں کو اتنا بڑا درجہ عطا کیا جنت اس کے قدموں تلے رکھ دی باپ سے تین گنا زیادہ حق دیدیا یہ سب انعام ایک بھاری ذمہ داری کا تقاضا کر تا ہے اللہ نے ماؤں کے دلوں میں محبت سے لبریز ایک وسیع سمندر رکھ دیامشکل و مصیبت کے وقت ہمیں سب سے پہلے ماں یا د آتی ہے اگر زندہ ہو تو اسے خود بھی الہام ہو جا تا ہے وہ بے چین ہو جا تی ہے اسے کسی پل قرارنہیں آتا ماں کو قدرت نے نجانے کو ن سی کیمسٹری سے بنا یا ہے کہ وہ زندگی اپنی گزارتی ہے مگر عمر کی تمام سانسیں اپنے بچوں میں پیار منتقل کرتی رہتی ہے اس کا سونا، جا گنا، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا سب اولاد کے لیے ہو تا ہے جس طرح ماں بننا ایک نئی زندگی جنم دینا اللہ تعالیٰ کا انعام ہے اسی طرح اولا د کی پرورش و تر بیت بھی ماں کے لیے ایک امتحان ہے مگر ماؤں نے اپنی تر جیحات بدل دی ہیں آج کی مائیں اپنے بچوں کی ما دی ضروریات کا خیال پہلے زمانے کی ماؤں سے بہت زیادہ رکھتی ہیں مگر اسے ایک بڑا ادمی بننے کے لئے کس قسم کی شخصیت میں ڈھلنا ہے وہ اس سے چوک گئی ہے تعلیم کے ساتھ بچوں کی اخلا قی تر بیت پر نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔

تربیت کے حوالے سے کیا ماں کی اتنی ذمہ داری ہے کہ وہ بچے کو صبح اسکول بھیجے اور شام کو ٹیو شن کے حوالے کر دے بچہ سا را دن گھر سے با ہر رہتا ہے اسے ماں کی قر بت میسر ہی نہیں ہو تی چند ایسے قیمتی لمحات جنھیں وہ ساری زندگی کا حاصل سمجھ سکے وہ ان سے محروم رہتا ہے یہ وہی بچے ہو تے ہیں جنھیں دنیا کی تما م نعمتیں میسر ہو تی ہیں مگر ماں کی تو جہ اور قرب حاصل نہیں ہو تا بڑے ہو کر خراب دوستوں کی بیٹھک میں نشہ وجرا ئم میں پڑکر شو قیہ وارداتیں کرتے ہیں اکثر ما ئیں اولاد کی سر گرمیوں سے بے خبر بے فکر رہتی ہیں انھیں معلوم ہی نہیں ہوتا بچہ کن دوستوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے شغل کے طور پر کرنے والے چھوٹے چھوٹے جرم کب ایک بڑے مجرم کو جنم دیتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں برائیاں، چوری، اسٹریٹ کرائمز، چھینا جھپٹی، ماردھاڑ کی بر ائیاں تیزی سے پھیلتی جا رہی ہیں دہشت گردوں کی تو یہاں بات ہی نہیں ہو رہی کہ تشدد کا رجحان وہ بچپن سے گھروں میں دیکھتے ہیں۔

آج سے بیس تیس سال قبل جو ٹی وی ڈرامے اور کہانیاں بچوں کے لئے لکھی گئی وہ اس دور میں سود مند تھیں مگر آج کے بچے اس دور سے بہت آگے نکل گئے ہیں موجودہ تیز رفتار دورمیں نت نئی ایجادات کے ساتھ یہ انٹرنیٹ، موبائل، سوشل میڈیا چیلنج بھی ہے کہ اس سے کس طرح ہماری نسلوں کو فائدہ حاصل کرنا ہے ہمیں سکھانا ہے اس کا متبادل اب اہل دانش اور خا ص کر ماؤں کو ہی ڈھو نڈنا ہو گا یہ کا م اساتذہ کے ساتھ اب ماؤں کی ذہا نت پر مبنی ہے ہم پہلے سنتے تھے کم بچے خو شحال گھرا نہ یا بچے دوہی اچھے و غیرہ لیکن اب غور کر نا ہو گا کہ کم بچے پیدا کر کے انھیں دنیاوی آسا ئشیوں میں پروان چڑھا کر بھی اگر ایک اچھا انسان نہ بنا سکے تو پھر ہم تہی دا من ہی رہے بے شک! ماوؤں پر مری آج عجب وقت پڑا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).