سعودی عرب: سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے خصوصی اقامہ


سعودی عرب کی شُوریٰ کونسل نے سرمایہ کاروں کو سعودی عرب کی طرف راغب کرنے کے لیے گرین کارڈ کی طرز کا رہائشی پرمٹ متعارف کروایا ہے۔

حال ہی میں شوریٰ کونسل کے 76 ارکان نے اس اقدام کو سعودی عرب کے معاشی مستقبل کے لیے مفید سمجھتے ہوئے منظور کیا جبکہ شوریٰ کے 55 ارکان نے اس کی مخالفت کی۔

یہ پرمٹ کن لوگوں کے لیے ہے؟

اس نئے پرمٹ کے ذریعے سعودی عرب تمام تجربہ کار سرمایہ کاروں کو راغب کرنا چاہتا ہے جس کو سعودی میڈیا ’پریویلجڈ اقامہ` کا نام دے رہا ہے۔

جن سرمایہ کاروں اور رہائشیوں کے پاس یہ پرمٹ ہو گا وہ نہ صرف مزدوروں اور محنت کشوں کی بھرتی کروا سکیں گے بلکہ جائیداد اور گاڑی بھی خرید سکیں گے۔ اس کے علاوہ اس پرمٹ کے تحت یہ رہائشی جب چاہیں سعودی عرب سے باہر جاسکیں گے جس کے لیے ان لوگوں کو کسی کفیل (یا سپانسر) کی ضرورت نہیں ہوگی۔

یہ بھی پڑھیے

سعودی عرب میں قید 2107 پاکستانیوں کی رہائی کا اعلان

’اب پیسے دیں تو بھی لوگ سعودی عرب نہیں جانا چاہتے‘

سعودی عرب میں نصف تنخواہ اور قید کا ڈر

سعودی عرب کے ‘بےآواز’ پاکستانی مزدور

ساتھ ہی اس پرمٹ کے رکھنے والوں کو پرائیوٹ سیکٹر، کامرس اور انڈسٹری میں ملازمت، سعودی عرب سے آنے اور جانے میں آزادی اور ایئرپورٹ پر مخصوص قطاروں کا استعمال کرنے کی اجازت ہوگی۔

اس کے علاوہ یہ پرمٹ رکھنے والے اپنے خاندان کے افراد کو بھی وزٹ ویزے پر بلاسکیں گے۔

ورکرز

پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے مطابق سعودی عرب میں 26 لاکھ پاکستانی مقیم ہیں۔

کیا اس سے مزدوروں کو کوئی فائدہ ہوگا؟

سعودی عرب پچھلے کئی برسوں سے گرین کارڈ سکیم کا صحیح طریقے سے آغاز کرنا چاہتا تھا۔ اس سکیم کو آگے لانے میں پیشرفت سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دور میں 2017 سے شروع ہوئی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اسلام آباد چیمبر آف کامرس کے ایگزیکیٹو افسر دلدار عباسی نے بتایا کہ ‘اس سکیم کا براہِ راست فائدہ سرمایہ کاروں اور کاروباری برادری کو ہوگا۔ اس کی ایک بڑی وجہ سعودی عرب میں سرمایہ لانا ہے۔’

انھوں نے کہا کہ اب تک تو اس بارے میں زیادہ معلومات میسر نہیں ہیں ‘لیکن کچھ برسوں میں لوگوں کو سعودی شہریت بھی دے دیں گے۔’

انھوں نے کہا کہ ‘اس سے مزدوروں کو براہِ راست تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا لیکن بلاواسطہ فائدہ ضرور ہوگا۔ جہاں کاروباری مواقعوں میں تیزی آئے گی وہیں افرادی قوت کی بھی ضرورت پڑے گی۔’

اس کے علاوہ مزدوروں کو سعودی اقامہ حاصل کرنے کے لیے وہی طریقہ اپنانا پڑے گا جس پر وہ اب تک عمل کرتے آ رہے ہیں، جس میں دو سے تین سال کا ویزا کچھ عرصے کے بعد دوبارہ سے لینا پڑے گا۔

سعودی عرب کو بیرونی سرمائے کی ضرورت کیوں؟

سعودی عرب میں مزدوروں کی وزارت نے پچھلے ماہ ایک گولڈ کارڈ پروگرام متعارف کروایا تھا جس کا مقصد باہر سے آنے والوں میں سعودی ثقافت متعارف کروانا ہے اور سعودی افراد میں باہر سے آنے والوں کے لیے نرم گوشہ پیدا کرنا ہے۔

پچھلے تین برسوں میں سعودی عرب میں مقیم پاکستانی کئی مشکلات کا شکار رہے ہیں۔ ان میں نوکریوں سے برطرفی، اقامہ (یعنی رہائش کے لیے درکار اجازت نامہ) کی قیمت میں اضافہ اور انکم ٹیکس میں تقریباً پانچ فیصد اضافے کے باعث کافی لوگ وطن واپس آ چکے ہیں۔ لیکن بعض ایسے بھی ہیں جو معاشی مواقع نہ ہونے کے باوجود وہیں رہنے پر مجبور ہیں۔

پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے مطابق اس وقت سعودی عرب میں 26 لاکھ پاکستانی ریاض، دمام، طائف اور جدہ میں مقیم ہیں۔

لیکن سنہ 2016 میں یکے بعد دیگرے سعودی آجر، سعد ٹریڈنگ اینڈ کنٹریکٹنگ کمپنی اور بن لادن گروپ جیسی کئی کمپنیوں نے خود کو دیوالیہ قرار دے دیا جس کے بعد متعدد پاکستانیوں کو وطن واپس آنا پڑا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ محمد بن سلمان یمن میں ہونے والی جنگ اور صحافی جمال خاشقجی کے اپنے ہی سفارت خانے میں قتل کے بعد دنیا بھر میں سعودی عرب کی ایک اچھی شکل دکھانا چاہتے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے آسانی سے سعودی عرب آمد ورفت اور وہاں جائیدادوں کی خرید و فروخت اچھا اقدام ثابت ہوسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp