کیا خادم رضوی نے بھی معافی مانگ لی؟ سرپرست کب تائب ہوں گے؟


تحریک لبیک کے سرپرست اعلی افضل قادری کے بعد شعلہ بیان خادم رضوی صاحب کے عشق کا بھوت بھی اتر گیا ہے اور مبینہ طور پر انہوں نے بھی حکومت اور آرمی چیف سے معافی مانگ لی۔

خوش آئند ہے کہ اس طرح عملاً اس اصول سے وابستگی کا اظہار کیا گیا ہے کہ کسی کو بھی ریاست اور ملکی قانون کا بازو مروڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ جو شر پسندی پر تلا ہو اس کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہیے۔ لیکن گزرے کل کی دو چار باتیں یاد کرنے میں حرج نہیں۔ اس موہوم امید کے ساتھ کہ آئندہ آنے والا کوئی کل پھر کسی گزرے کل کا منظر نہ پیش کر رہا ہو۔ ہم حرماں نصیب ایک بار پھر ”ڈیجا وو“ کی کیفیت میں ”یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے“ نہ گنگنا رہے ہوں۔

سنتے ہیں کہ بحیثیت قوم ہماری یادداشت کمزور ہے۔ جن کو کمزور قومی یادداشت راس آتی ہے شاید وہ واقعی یقین رکھتے ہیں کہ قومی یادداشت کی سلیٹ جلد صاف ہو جاتی ہے۔ اس ملک میں ایسا یقین کرنے کی وجوہات بھی ہیں کہ جہاں 2019 میں وزیراعظم چھ عشرے قبل ہری پور کے گاؤں ریحانہ سے ابھر کر قومی افق پر چھا جانے والی سیاہ گھٹا کو تاریخ کا بے مثل ابر رحمت قرار دے۔ اس معاملے میں جب انقلاب اور انصاف کی دعویدار جماعت کے سربراہ اور ٹرکوں کے عقب میں فیلڈ مارشل کی تصویر کے اوپر ”تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد“ لکھوا کر ملک بھر میں مال برداری کو یقینی بناتے ڈرائیور حضرات ایک سی رائے رکھتے ہوں تو پھر یقین کر لینا چاہیے کہ واقعی یادداشت ضعف کا شکار ہو چکی۔ بلکہ محض یادداشت ہی کیا، سیاسی فہم و شعور کو بھی سرطان کا عارضہ لاحق ہونے کی علامات سامنے آنے لگیں۔

تاہم ضعیف یادداشت کے باوجود اب ایسا بھی کیا کہ لوگ سال بھر پہلے قادری و رضوی صاحبان کا ریئلٹی شو بھول جائیں جس کے سارے شو ہاؤس فل گئے تھے۔ اور مقبول بھی ایسے ہوئے کہ تماش بینوں نے گلی محلے میں وہی مکالمے اور ایکٹ دہرانے شروع کر دیے۔ احسن اقبال کے جسم میں اترا سیسہ، خواجہ آصف کے چہرے پر گری سیاہی، زاہد حامد کا پیچھا کرتے آوازے اس تمثیل کے مکالموں اور مناظر کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ عام انتخابات کی مہم کی اختتامی شب لاہور میں موجودہ وزیراعظم کی تقریر پر نظر ڈالیں، مقبول اداکار جناب رضوی سے اکتساب فیض صاف جھلکتا دکھلائی دے گا۔

تو عرض یہ ہے کہ ذود فراموش ہی سہی لیکن یہ تمثیل ہمیں ساری جزیات کے ساتھ یاد ہے۔ یہ وہی ہیں نا جن کے بارے میں جناب عمران خان نے کہا تھا ”دل کرتا ہے خود جا کر دھرنے میں جا کر بیٹھ جاؤں“؟ یہ وہی ہیں نا جو ”اپنے لوگ“ تھے؟ عزت و احترام سے جنہیں جیب خرچ دے کر بھیجا گیا تھا؟ جن کے دھرنے کے بارے میں بات کرنے پر اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے دو ججوں کے خلاف وٹس ایپ گروپوں اور مخصوص سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے قوم کو ”ضروری آگاہی“ فراہم کرنے کی مہم چلائی گئی تھی؟ یہ وہی ہیں نا جن کی دشنام، بہتان اور نفرت سے بھرپور خطبات کو آج حکومت میں بیٹھے بعض اکابرین سراہ رہے تھے؟

اور سب سے اہم یہ کہ آج کے یہ شر پسند کل کے وہی عشاق ہیں جن کے احتجاج کا شکار معصوم اور سادہ لوح لوگ ہوئے۔ ان کی نفرت انگیز مہم سے متاثر ہو کر جو ان کے ساتھ چل پڑے۔ ریاستی اداروں سے الجھتے رہے، ان پر حملے کیے اور جوابی کارروائی میں کئی جان سے بھی گئے۔ شاہراہیں بلاک کرنے والے یہ وہی ہیں جن کے ہاتھوں بند راستوں کے باعث کئی مریض ایمبولینسوں میں دم توڑ گئے۔ اور انہوں نے اسے عشق کے راستے کی قربانی کہا۔ اگرچہ وہ مریض عشق نہیں، ہسپتال کے راستے میں تھے۔

چلو اچھا ہے کہ ان دو صاحبان جبہ و دستار سے اپنی اوقات کا اندازہ لگانے میں غلطی ہوئی تو طاقتوروں نے ان کو عملی درس دیا کہ تم اس بساط پر محض مہرے کی حیثیت رکھتے تھے۔ اپنی حیثیت پہچانو۔ احمق مت بنو۔ اور انہوں نے بھی بلا تاخیر حرف نصیحت سمجھا اور معافی مانگ لی۔

لیکن جو خون خاک نشیناں رزق خاک ہوا، خواہ رضوی صاحب کے خطبات سے متاثر ہو کر ان کے ساتھ ملنے والوں کا ہو یا اپنا فرض نبھاتے ان کے احتجاج کو روکنے والے پولیس اہلکاروں کا ہو، یا پھر اس احتجاج کے متاثرین مرنے والے عام شہریوں اور مریضوں کا ہو، اس بے قدر لہو کے بارے میں بھی کوئی کچھ سوچے گا کہ نہیں؟

ایٹمی ریاست کے دارالحکومت کے دروازے پر دھونی رما کر بیٹھے ان کرداروں کے سبب دنیا بھر میں جو آپ کی ”نیک نامی“ ہوئی، کیا اس پر ایک لمحے کو ٹھہر کر غور کرنے کی زحمت کی جائے گی یا نہیں؟

دیہاڑی داروں سے لے کر پورے ملک سے کٹ کر رہ جانے والے دارالحکومت کے کاروباری اداروں اور ملک بھر کی شاہراہوں پر رکاوٹوں سے متاثر ہوئے چھوٹے بڑے کاروباروں اور اربوں کے نقصان پر ایک بار ہی سہی، معیشت کی زبوں حالی پر پریشان ہو ہو اٹھنے والے بزرجمہر کوئی بات کریں گے یا نہیں؟ یا اگر پھر کبھی کسی کے پر کترنے کی ضرورت پڑی تو مال خانے سے ایسے ہی کوئی دو چار اور نمونے جھاڑ پھونک کر بساط پر لا کھڑے کیے جائیں گے؟

زیادہ نہیں تو دو چار حرف ندامت ہی سہی؟ شرمندگی کا رسمی اظہار ہی سہی؟

یا آج دربار کی سرپرستی میں مرتب کی جانے والی سرکاری تاریخ کے صفحات پر یہ سب کچھ بھی ”کولیٹرل ڈیمیج“ کی ذیل میں ہی درج کیا جائے گا؟ ”عظیم تر مقصد“ کے حصول کی لازمی لاگت کے طور پر بہی کھاتے میں چڑھایا جائے گا؟ قومی یکجہتی، سیاسی استحکام، ملکی وقار، معاشی تواتر، شہری حقوق کب تک معیشت دانوں کی زبان میں ”کاسٹ آف ڈوئنگ بزنس“ یا کاروبار کرنے کی لاگت سمجھے جاتے رہیں گے؟

آپ اعترافِ تقصیر کر لیں گے تو یہ سب کے مفاد میں ہو گا۔ آئینی حدود میں سب بروئے کار آئیں گے تو نتیجتاً حاصل ہونے والے وقار و خوشحالی میں بھی سب حصہ دار ہوں گے۔ اعتراف نہ سہی اپنی سمت ہی درست کر لیں تب بھی معاملات بگاڑ کی راہ سے پلٹ آئیں گے۔ پلٹنا آپ کو ہی پڑے گا کہ اجتماعی انسانی شعور طے شدہ منازل سے یوٹرن نہیں لیتا ہوتا۔ یہ صرف آگے کی جانب پیش قدمی کرتا ہے۔ یہی تاریخ کا سبق ہے۔ آپ کے پاس بھی کوئی دوسری آپشن نہیں۔ انکار آپ کے اختیار میں نہیں۔ آپ کے اختیار میں محض درست سمت کی جانب مڑنے میں تقدیم اور تاخیر کا انتخاب ہے۔ یہ مہلت بھی لامتناہی نہیں۔ تاخیر کی لاگت بھی سنجیدہ غور و فکر کا تقاضا کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).