باتیں قیصر بنگالی کی: ابھی کچھ لوگ باقی ہیں


سوچتی ہوں انسان کو کیا چیز دوسروں سے منفرد کرتی ہے؟ اقبال تو کہہ گئے ہیں کہ درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو لیکن پاکستان کے حالات دیکھ کر تو یوں لگتا ہے کہ انسان کو صرف دوسروں اور اپنے ملک کو لوٹنے کھسوٹنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اپنے ذاتی مفادا ت سے بالا تر ہو کر عوام کے، غریبوں، دکھی لوگوں اور کچلے اور پسے ہوئے طبقات کے بارے میں سوچتے ہیں؟ شاید اب ایسے لوگ پیدا ہونا بند ہو گئے ہیں؟

لیکن نہیں ایسا نہیں ہے، چند لوگ ابھی باقی ہیں جو دوسروں کے لئے سوچتے ہیں اور ان کے حالات بدلنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر مبارک ہیں جو تاریخ کو عوامی نقطہ ء نظر سے دکھاتے ہیں۔ عارف حسن ہیں جو جو شہری منصوبہ بندی کے ماہر ہیں اور عوام دوست منصوبے پیش کرتے رہتے ہیں لیکن ارباب اختیار ان کی باتوں پر کان نہیں دھرتے۔ کچی آبادیوں کے لئے کام کرنے والے تسنیم صدیقی ہیں جنہوں نے ’خدا کی بستی‘ کے نام سے غریبوں کے لئے آبادی بسائی۔

چند نام اور بھی ہیں، شیر شاہ سید ہیں جو واقعی غریب عورتوں کے مسیحا ہیں لیکن اس وقت میں صرف قیصر بنگالی کا ذکر کرنا چاہوں گی جو صحیح معنوں میں عوام دوست ماہر اقتصادیات ہیں۔ ان کے خیالا ت اور نظریات کے بارے میں بات کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس وقت چاروں طرف مہنگائی اور آئی ایم ایف کے قرضوں کے حوالے سے ہا ہا کار مچی ہوئی ہے۔ ٹیکنو کریٹس کو بلانے کی باتیں ہورہی ہیں بلکہ بلائے جا چکے ہیں۔ یہ ٹیکنو کریٹس کون ہیں؟

یہ وہ ہیں جنہیں پاکستان سے کوئی مطلب نہیں، یہ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور واشنگٹن کے خدمت گزار ہیں۔ ان کے آقا انہیں جو کہہ دیتے ہیں، یہ بڑی تابعداری سے ان کے احکامات بجا لاتے ہیں۔ انہیں اپنی تنخواہوں اور مراعات سے غرض ہوتی ہے، عوام کے دکھ درد اور تکالیف سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔ وہ قیصر بنگالی کی طرح نہیں کہ بلوچستان کے بے روزگارنوجوا نوں کو آنسو بہاتے دیکھ کر ان کا دل کٹنے لگے۔

قیصر بنگالی ایسی باتیں کر کے ہم جیسوں کو رلاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے برسوں پہلے انہوں نے غربت کے حوالے سے سروے کیا تھا اور ایک پروگرام میں بہت دکھ سے ہمیں بتایا تھا کہ جب انہوں نے غریب گھرانوں کے ماہانہ بجٹ کا جائزہ لیا تو انہیں یہ دیکھ کر انہیں بہت حیرت ہوئی کہ خوراک کی مد میں چائے پر ان کی معمولی آمدنی کا سب سے بڑا حصہ خرچ ہوتا ہے، جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ چائے پر اتنی رقم کیوں خرچ کرتے ہیں جب کہ ان کے پاس کھانے کا خرچہ نہیں ہوتا تو ان کا جواب تھا ”چائے پی کر بھوک نہیں لگتی“۔ اب ایسی باتیں سن کر انسان آنسو نہ بہائے تو کیا کرے۔

آئی ایم ایف کے حوالے سے قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس کا ایک اور صرف ایک ایجنڈا ہے اور وہ ہے نجکاری۔ سارے اداروں کی نجکاری اور وہ بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں بلکہ خریدنے والوں کے مفاد میں۔ چاہے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کا معاملہ ہو یا اداروں کو فروخت کرنے کا معاملہ، پاکستان کی طرف سے بات چیت کرنے والے پاکستان سے مخلص نہیں، انہیں صرف آئی ایم ایف اور خریدنے والے اداروں کے مفادات سے غرض ہوتی ہے یعنی پاکستان کے قرضوں اور نجکاری کے معاملے میں پاکستان ان سے مذاکرات نہیں کرتا بلکہ آئی ایم ایف ہی آئی ایم ایف سے مذاکرات کرتا ہے۔

اس وقت مجھے برسوں پہلے ارشاد احمد حقانی مرحوم کا لکھا ہوا ایک کالم یاد آرہا ہے۔ آئی ایم ایف کے ایک اعلیٰ عہدیدار سے ان کی ملاقات ہوئی تو اس نے انہیں بتایا کہ جب ہندوستان کا نمائندہ ہم سے کسی معاہدے کے بارے میں بات کرنے آتا ہے تو اس کا پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ اس سے میرے ملک کو کیا فائدہ ہو گا؟ اور جب وہ مطمئن ہو جاتا ہے تو پھر پوچھتا ہے کہ مجھے کیا ملے گا لیکن پاکستان کے نمائندے کا پہلا سوال ہی یہ ہوتا ہے کہ مجھے کیا ملے گا؟ اسی زمانے میں پاکستان کا آئی ایم ایف سے ایک معاہدہ ہوا تھا، آئی ایم ایف کے اس اعلیٰ عہدیدار کا کہنا تھاکہ ہم نے یہ سوچ کر زیادہ شرائط رکھی تھیں کہ مذاکرات ہوں گے تو ہم کچھ شرائط کم کر دیں گے مگر پاکستان نے بلا حیل و حجت ساری شرائط مان لیں۔ تو یہ حال ہے ہمارے نمائندوں اور ٹیکنو کریٹس کا! ۔

قیصر بنگالی کو خوف ہے کہ ادارے بیچنے کے بعد ہماری حکومتیں معدنی اور قدرتی وسائل بھی بیچ دیں گی۔ کیونکہ اب ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف پاکستان کی معیشت کا کنٹرول سنبھال چکے ہیں۔ حفیظ شیخ جیسے ٹیکنو کریٹ وزیر اعظم کو نہیں واشنگٹن کوجوابدہ ہیں۔ مشرف دور میں پی ٹی سی ایل بکا، خریدنے والوں نے ابھی تک آٹھ سو ملین ڈالر پاکستانی حکومت کو ادا نہیں کیے۔ گزشتہ کئی برسوں سے اسٹیٹ بنک کے صدور ہماری نہیں ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ دوسری طرف حکومتیں اپنی فضول خرچی اور اللوں تللوں سے باز نہیں آتیں۔ اتنی وزارتیں کام کر رہی ہیں جن کے بغیر بھی گزارہ ہو سکتا ہے۔ آخر کوئی بتائے کہ محکمہء ڈاک میں اتنے زیادہ ڈائرکٹروں کی کیا ضرورت ہے؟

پہلے سو ڈالر کی برامدات کے مقابلے میں ایک سو پچیس ڈالر کی درآمدات ہوتی تھیں۔ اب سو ڈالر کی برامدات کے مقابلے میں دو سو تیس ڈالر کی درآمدات ہوتی ہیں۔ ہمارے سپر اسٹورز امپورٹڈ ڈاگ فوڈ اور کیٹ فوڈ کے ڈبوں سے بھرے ہوئے ہیں، دوسری طرف غریب کو دو وقت کھانا میسر نہیں۔ ایک طرف غریب گرمی سے مر رہا ہے دوسری طرف امیروں کے کتے ائیر کنڈیشنڈ ڈربوں میں رکھے جاتے ہیں۔

ملٹی نیشنل کمپنیوں کا یہ حال ہے کہ روپوں میں منافع کماتی ہیں اور ڈالروں میں باہر لے جاتی ہیں۔ ہمارے پانی کو بوتلوں میں بند کر کے ہمیں بیچ رہی ہیں اور ڈالر لے کر جا رہی ہیں۔ ہماری حکومتیں عوام کو پینے کا صاف پانی بھی نہیں دے سکتیں۔ ڈاکٹر بنگالی کو خوف ہے کہ امسال ڈالر کی قیمت دو سو روپے تک پہنچ جائے گی۔ ان کی رائے میں صورتحال اسی وقت بہتر ہو سکتی ہے جب عوام سڑکوں پر نکل کر احتجاج کریں گے۔ عوامی احتجاج کے ذریعے ہی صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).