کراچی پریس کلب کی ایک شام


شام اداس ہے، اونچے پیڑوں اور پستہ قامت پودوں پر بھی دھوپ کی زردی پھیلی ہوئی ہے۔ تنہا کوئل کی آواز دل کو کچھ اور ملول کر رہی ہے۔ کراچی پریس کلب کے صحن میں بیٹھی ہوئی میں اُس پریس کلب کو یاد کر رہی ہوں جو اب سے 40 برس پہلے ہوتا تھا۔ کچا صحن اور خزاں کے دنوں میں بھی بہار کی آمد آمد کا شائبہ۔ صحافیوں کے جوش سے تمتماتے ہوئے چہرے، اونچی آوازیں جو یقین کے سرخ رنگ میں رنگی ہوئی ہوتی تھیں۔

بیشتر صحافیوں کا ایمان تھا کہ وہ سچ کے امانت دار ہیں اور ایک طاقتور شخص نے بھٹو کی آئینی اور قانونی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد جس سفاکی سے صحافت کو ذبح کیا تھا اس کے خلاف لڑنا ان کا دین ایمان ہے۔ حبیب جالبؔ کی پاٹ دار آواز۔ ظلمت کو ضیا، صرصرکو صبا، بندے کو خدا کیا کہنا۔ منہاج برنا، نثار عثمانی اور عبدالحمید چھاپرا کی دلوں کو گرما دینے والی تقریریں۔ بھوک ہڑتالیں، گرفتاریاں، لاہور کے شاہی قلعے میں صحافیوں پر ہونے والا تشدد، چار صحافیوں کو دی جانے والی کوڑوں کی سزائیں، یہ وہ سزائیں تھیں جو دنیا بھر میں پاکستان کو رسوا کر گئیں۔

مجھے اپنے عزیز دوست احفاظ الرحمان یاد آتے ہیں جنہوں نے 1977 اور 1978کے دوران صحافیوں پر گزرنے والی صعوبتوں کی تاریخ مرتب کی ہے۔ اور اسے ’’سب سے بڑی جنگ‘‘ کا نام دیا ہے۔ احفاظ نے اس کتاب کا آغاز اپنی اس نظم سے کیا ہے:

وہ خالی ہاتھوں والے تھے… وہ خالی جیبوں والے تھے…جو پرچم لے کے نکلے تھے… کچھ پھول اگانے نکلے تھے… وہ روشن خوابوں والے تھے… وہ رات کے کالے ماتھے پر… خورشید اگانے نکلے تھے… جابر کی آنکھ میں شعلے تھے… جیبوں میں خونی اژدر تھے… زنجیریں تھیں، تعزیریں تھیں… طاقت کی سب تدبیریں تھیں… پھر بھی وہ ان سے خائف تھا… وہ خالی ہاتھوں والے تھے… وہ خالی جیبوں والے تھے…جو راکھ بنے، گل زار ہوئے… مٹی کی کوکھ سے نکلے تھے… آکاش سے جا ٹکرائے تھے… آکاش بھی ان سے خائف تھا… خالی ہاتھوں کی جیت ہوئی… خالی جیبوں کی جیت ہوئی…حاکم کا مان ہوا رُسوا… تلوار کی شان ہوئی رُسوا… پھر قلم کتاب کی جیت ہوئی۔

میں پریس کلب کے صحن میں بیٹھی ان دنوں کو یاد کر رہی ہوں جب یہاں سے مزاحمت کرنے والوں کے جتھے نکلتے تھے اور پابند سلاسل کر کے ملک کی مختلف جیلوں میں دھکیل دیے جاتے تھے۔

صوبہ سندھ کے آئینی سربراہ نے صوبے کی وحدت کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا اس نے لوگوں کو ناراض اور آزردہ کیا۔ سندھ کو بھلا کون دو ٹکڑے کر سکتا ہے۔ وہ سندھ جس نے لاکھوں اردو بولنے والوں کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کیا.

جہاں آج بھی اردو بولنے والوں کی بڑی بڑی بستیاں ہیں، اسے دو لخت کرنے کا خیال بھی دل میں لانا کسی سانحے سے کم نہیں۔ اس وقت مجھے وہ پارسی یاد آتے ہیں جو پہلی صدی ہجری میں قتل عام اور دیس نکالے سے بچ کر ہندوستان کے ساحلی علاقے تک پہنچے تھے اور جب راجا نے ان سے سوال کیا تھا کہ وہ یہاں کس انداز سے زندگی بسر کریں گے تو ان کے موبد نے دودھ میں شکر گھول کر بتایا تھا کہ ہم اس انداز میں شیر و شکر ہو کر رہیں گے۔ آج تک وہ ہندوستان اور پاکستان میں اسی طرح رہتے ہیں۔

جی ایم سید اور دوسرے سندھی رہنمائوں نے ہندوستان سے نئے وطن میں آنے والوں سے کچھ نہیں پوچھا تھا۔ ایسے میں وہ بیانات جو وقتاً فوقتاً دیئے جاتے رہتے ہیں، جارحیت اور شر انگیزی سے کم نہیں۔ سندھ کی جانی مانی ادیب، دانشور اور ڈرامہ نگار نور الہدیٰ شاہ آ جاتی ہیں۔ پھر لوگ پریس کلب کے دروازے سے نکل کر اپنے جذبات کا اظہارکرنے کے لیے پوسٹر لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگ نعرے لگاتے ہیں اور تھوڑی دیر بعد سب منتشر ہو جاتے ہیں۔

مجھے یہ احساس شدت سے ہوتا ہے کہ وقت نے ہم کو واقعی منتشر کر دیا ہے۔ اب نہ وہ پہلے والی گرما گرمی ہے، نہ حوصلوں کی وہ توانائی۔ مجھے احفاظ الرحمان کا وہ مضمون یاد آتا ہے جو انھوں نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں کراچی پریس کلب کے مجلے کے لیے لکھا تھا اور اس میں یہ رقم کرنے سے نہیں چوکے تھے کہ:

’’بدقسمتی سے ہم کرۂ ارض کے جس خطے میں سانس لے رہے ہیں وہ زبان حال سے یہ اعلان کر رہا ہے کہ یہا ںکی فضا ایک مضبوط اور منصفانہ سماجی اور سیاسی نظام سے محروم ہے۔ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ بنیادی انسانی حقوق کے معاملے میں ہمارا معاشرہ ایک قابل رحم تصویر پیش کرتا ہے۔ چنانچہ، دوسرے پیشوں کی طرح ہمارا پیشہ (صحافت) بھی اس مجموعی صورتحال کے اثرات سے محفوظ نہیں، تاہم چونکہ پریس کو مملکت کے چوتھے ستون کی حیثیت حاصل ہے اس لیے اس پر اثر انداز ہونیو الے عوامل معاشرے کی کیفیت پر زیادہ مہلک اور خوفناک زخم لگاتے ہیں۔

ہم نے آزادی کے بعد سے اب تک کیا حاصل کیا ہے؟ ایک افسوسناک سیاسی، سماجی اور اقتصادی نظام جو معاشرے میں زور، جبر اور لوٹ کھسوٹ کو پروان چڑھاتا ہے۔ یہ مرض اب ہماری رگ رگ میں اتر چکا ہے، یہاں تک کہ اس سے شفا حاصل کرنے کا تصور ہماری آنکھوں میں ٹھٹھر کر ساکت ہو گیا ہے۔ دراصل، معاشرے میں منفی اور مثبت اقدار کے درمیان حد فاصل قائم کرنے والے عوامل نے ان حریص اور متمول طبقات کی اطاعت قبول کر لی ہے ، سچائی کو مسترد کرنے کے عوض انھیں ہر رنگ کی رشوت پیش کرنے کے ساتھ ہر رنگ میں آنکھیں دکھانے کی طاقت بھی رکھتے ہیں۔

طاقت کی بالادستی کا یہی اصول معاشرتی اقدار کے فروغ کی رفتار کا پیمانہ بن چکا ہے۔ گویا، عوام کی حسرتیں امیر اور بالادست طبقات کے خوں خوار پنجوں کی گرفت میں اپنی بے بسی کا نوحہ سنا رہی ہیں۔ صحافی کا بنیادی فرض عوام کی ان حسرتوں کی تصویر کشی کرنا اور ظلم اور بدعنوانی کے کارندوں کو بے نقاب کرنا ہے، یہ عمل خاص طور پر ہمارے معاشرے میں جگرؔ مراد آبادی کے اس شعر کا عکس پیش کرتا ہے۔

یہ عشق نہیں آساں، بس اتنا سمجھ لیجے

اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

آگ کا یہ دریا اقتدار اور اختیار پر قابض طاقتور طبقات کی خود غرضیوں اور سفاکیوں سے جنم لیتا ہے جس کی تپش سے نمو کے امکانات جھلستے جاتے ہیں۔ ہم صحافی برادری کے لوگ ان امکانات کو بار آور دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ان ظالم اور بدعنوان طبقات کی نظر میں مطعون اور معتوب قرار پاتے ہیں۔ لیکن ہم ان ہی داغوں کو اپنا زاد راہ بنا کر اپنے فرض کو وقار کی سند عطا کرتے ہیں۔ ‘‘

احفاظ کے مقدر میں صرف جرنیل شاہی کے خلاف مزاحمت ہی نہیں لکھی گئی تھی۔ انھوں نے کینسر جیسے مہلک مرض سے بھی برسوں لڑائی لڑی۔ وہ تقریر کے بادشاہ تھے اور تقدیر نے ان سے ان کی آواز چھین لی۔ قلم اب بھی ان کے ہاتھ میں سلامت ہے۔

اس قلم کو انھوں نے ہاتھ سے نہیں رکھا۔ اور بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو قلم کی حرمت کا پاس رکھے ہوئے ہیں۔ دل کو یہ تسلی دینے کے ساتھ ہی میں واپسی کے سفر میں سڑک پر نئی گاڑیوں کا اژدھام دیکھتی ہوں۔ خیال آتا ہے کہ اب سے تیس چالیس برس پہلے شہر کی سڑکوں پر عموماً کھٹارا گاڑیاں چلتی تھیں اور بلند و بالا عمارتیں نہیں بنی تھیں۔ جن میں شاندار ’’مال‘‘ ہیں۔ برانڈڈ سامان سے بھرے ہوئے۔ سماج کی رگوں میں صارفیت لہریں لیتی ہے۔ اور بہت سے لکھنے والے ان لہروں کے سامنے پسپا ہو جاتے ہیں۔

ان دنوں اخباروں پر وقتِ ابتلا ہے۔ ٹیلی ویژن چینلوں کی بھرمار ہے لیکن کوئی نہیں جانتا کہ یہ کتنے دنوں کے مہمان ہیں۔ منہاج برنا کو ہم سے جدا ہوئے بہت دن ہو گئے لیکن ان کا ایک شعر یاد آتا ہے:

قصے ہزار عشق کے، اظہار بھی تو ہو

خبریں بہت ہیں شہر میں، اخبار بھی تو ہو

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).