جو ہو رہا ہے ہم اسی کے مستحق ہیں


کیا آپ کو یاد ہے مہاجن چوکی سامنے رکھے‘ دری پر بیٹھا ہوتا تھا؟ نواب صاحب کا منشی اس کے پاس آتا تھا۔ کہ نواب صاحب نے مزید قرض مانگا ہے۔ وہ کھاتہ دیکھتا تھا کہ پچھلا حساب کتنا ہے۔ پھر کچھ کہے یا پوچھے بغیر مطلوبہ رقم گن کر منشی کے حوالے کر دیتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ قر ض واپسی آنا ہی آنا ہے اور مع سود آنا ہے۔ نواب صاحب کے پاس رقم نہ بھی ہوئی تو جاگیر تو کہیں نہیں گئی۔ یوں آہستہ آہستہ جاگیر قسطوں میں مہاجن کے نام منتقل ہوتی رہتی تھی۔

اس زمانے میں کتنے ہی نواب قرض لے لے کر قرقی ہوئے۔ کچھ نے پیسہ طوائفوں کے کوٹھوں پر لٹایا کچھ نے کنیزیں پالیں اور ان پر فدا ہوئے کچھ کو شادیوں کا شوق تھا۔ کچھ شراب نوشی اور قمار بازی کے شیدا تھے۔ کچھ کو انگریز سرکار پنشن جتنی دیتی تھی وہ ان کے شاہانہ اخراجات کی متحمل نہ ہوتی تھی۔ واجد علی شاہ کو لکھنؤ سے نکال کر انگریزوں نے کلکتہ میٹا برج میں نظر بند کیا تو ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دکانداروں کو انہیں ادھار دینے سے منع کر دیا۔

مہاجن کا وصف یہ تھا کہ وہ نصیحت نہیں کرتا تھا۔ قرض دیتے وقت شرط نہیں عائد کرتا تھا کہ نواب صاحب اپنی سلطنت میں فلاں فلاں اصلاحات بروئے کار لائیں یا جاگیر کے انتظام و انصرام میں یہ یہ تبدیلی لائیں۔ آئی ایم ایف بھی مہاجن ہے۔ مگر جدید زمانے کا پڑھا لکھا طاقت ور مہاجن !

جس کا رعب داب اتنا ہے کہ قرض مانگنے والے ملکوں کو پندو نصائح کرتا ہے۔ اصلاحات تجویزکرتا ہے۔ پھر ان اصلاحات کا عملی نفاذ مانگتا ہے۔ اگر ہم گریبان میں لمحہ بھر کے لئے جھانکنا گوارا کریں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ آئی ایم ایف کے بجائے اگر عہد رفتہ کا مہاجن ہوتا تو اب تک پاکستان کے وسیع رقبے اس کے نام منتقل ہو چکے ہوتے۔ ہم وہ نواب ہیں جس کی جاگیر بدترین بدانتظامی کا شکار ہے اور ہم خود شکار کھیل رہے ہیں اور کوٹھوں پر بیٹھے مجروں سے حظ اٹھا رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے اختیار میں تھا کیا ہم نے کیا ؟ حکومتیں سٹیل مل اور پی آئی اے کی درجنوں یونینوں کے ہاتھوں یرغمال رہی ہیں آج بھی حکومت یرغمال ہے۔ پی آئی اے کو پے درپے ہر حکومت نے رشوت کے طور پر استعمال کیا آج بھی اچھی طرح یاد ہے ایک سیاسی جماعت کے دو لیڈروں کی دو ڈاکٹر بیٹیوں کی تعیناتی قومی ایئر لائن میں ہوئی تھی۔ جب کہ ملک کی ہزاروں ڈاکٹر بیٹیاں اس خصوصی سلوک سے محروم تھیں۔

کتنے عشرے گزر گئے کہ کسی اشتہار کے بغیر کسی اوپن مقابلے کے بغیر‘ بھرتیاں کی جاتی رہیں۔ کیا بائیں بازو کے کامریڈ اور کیا اسلام پسند۔ سب نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ گنتی کے چند جہاز اور دنیا بھر میں فی جہاز سب سے زیادہ ملازمین؟ یونینیں کوئی اصلاحات نہیں کرنے دیتیں۔پائلٹوں کی اپنی یونین، انجینئروں کی اپنی‘ انتظامی سائڈ والے الگ ۔ اس کا ایک ہی علاج تھا کہ اسے نجی شعبے کے حوالے کیا جاتا۔وہ اسے نفع نقصان کی بنیاد پر چلاتا اور یہ اندھیر نہ ہوتا کہ جہاز کے اندر اچھی نشستیں سب اپنے ملازمین کو دی جاتی ہیں جو مفت سفر کرتے ہیں۔

یہی حال سٹیل مل کا ہے۔ شریفوں سمیت سب کے نجی کارخانے کامیابی سے چل رہے ہیں صرف سٹیل مل سفید ہاتھی ہے ؎ انجم غریب شہر تھے اب تک اسیر ہیں سارے ضمانتوں پہ رہا کر دیے گئے مگر حکومت اس سے جان نہیں چھڑا رہی ۔ہر سال اربوں روپے خیرات میں اس لولے لنگڑے کارخانے کو دیے جاتے ہیں۔ ہم کروڑوں روپے کی ماہانہ اس چوری کو نہیں روک سکتے جو گیس اور بجلی کی ملک کے اطراف و اکناف میں ہو رہی ہے آپ نااہلی اور بدانتظامی کی انتہا دیکھیے کہ گیس سائل کو قانونی طریقے سے نہیں دی جا رہی، وہ برسوں جوتے چٹخاتا ہے۔کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ رشوت دے کر چوری کا کنکشن لے لیتا ہے جس کا بل بھی نہیں ہوتا۔

آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی کے نرخ بڑھا دیں گے مگر ملک کے جن حصوں میں بجلی مفت دی جا رہی ہے، وہاںمفت دی جاتی رہے گی۔ چوری نہیں روکی جا رہی۔ پھر محکمے کے ہزاروں ملازمین جس بے دردی سے ایئر کنڈیشنر مفت استعمال کر رہے ہیں اس کا کوئی حساب ہے نہ تخمینہ! کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ تاجروں کی ہٹ دھرمی اور ملک دشمنی کتنی مہنگی پڑ رہی ہے؟ ٹیکس کی بات نہیں کی جا رہی۔ اوقات کار کی طرف اشارہ ہے۔

یہ کیسے محب وطن ہیں جو دن کے بارہ ایک بجے کاروبار شروع کرتے ہیں اور آدھی رات تک توانائی کو بے دردی سے استعمال کرتے ہیں پوری مہذب دنیا میں بازار نو بجے کھل جاتے ہیں‘ پاکستان میں دوپہر تک سناٹا رہتا ہے۔ آپ اداروں کی کارکردگی پر غور کریں گے توسر پیٹ لیں گے۔ نادرہ جیسے حساس ادارے میں غیر ملکی ملازمین پائے گئے۔ ہزاروں شناختی کارڈ غیر ملکیوں کو جاری کر دیے گئے۔

ترقیاتی ادارے کرپشن کا گڑھ ہیں۔ باقی شہروں کوچھوڑ دیجیے‘ وفاقی دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ نااہلی رشوت اور بدانتظامی سے ناسور بن چکا ہے ایک انتہائی طاقت ور یونین ہے جس کے عہدیدار دفتری کام کئے بغیر صرف دادا گیری کرتے ہیں۔ دارالحکومت کے رہائشی سیکٹر جھگیوں سے بدتر تصویر پیش کرتے ہیں۔ دکانداروں سے رشوت لی جاتی ہے۔ ناجائز تجاوزات کی بھر مار پارکنگ کے رقبے ریڑھیوں اور سٹال لگانے والوں کو ٹھیکے پر دیے جاتے ہیں۔

ترقیاتی ادارے کی آنکھوں کے سامنے ناجائز تعمیرات ہوتی ہیں۔ غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیاں تشکیل پاتی اور پروان چڑھتی ہیں۔ بارہ کہو کے علاقے میں پہاڑ کاٹ کاٹ کر سرکاری زمینیں ہڑپ کی جا رہی ہیں۔ مگر چیف کمشنر کا ادارہ کچھ کرتا ہے نہ ترقیاتی ادارہ! آپ ترقیاتی ادارے کی نااہلی کا اندازہ ایک مثال سے لگائیے پورے وفاقی دارالحکومت میں اگر کوئی سڑک پر تعمیراتی سامان یعنی سریا’ اینٹیں‘ بجری‘ سیمنٹ رکھ دے یہاں تک کہ گزرگاہ بند ہو جائے تو اس ظلم سے روکنے والا کوئی نہیں۔

دوسری طرف بحریہ اور ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹیوں میں اس حرکت کو جرم قرار دے کر بھاری جرمانے عائد کئے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ترقیاتی ادارے میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟ کیا عجب کل آئی ایم ایف حکومت پاکستان سے یہ کہے کہ قرض لینے سے پہلے اپنے ملازمین کو وقت کا پابند کیجیے۔ کیا افسر کیا کلرک کیا نائب قاصد دس گیارہ بجے سے پہلے دفتر‘ خواب گراں سے جاگتے نہیں!

سائل آئے تو متعلقہ اہلکار نشست پر موجود نہیں ہوتا۔ ایک استدعا آئی ایم ایف سے ہم خود کرنا چاہتے ہیں کہ کسی طرح اہل پاکستان کو تقاریب وقت پر شروع کرنے پر مجبور کیا جائے۔ اس لاقانونیت میں شادی بیاہ کی تقاریب کے علاوہ تمام سرکاری اور نجی تقاریب سرگرم کارہیں۔ یہ عجیب مست ملنگ اور دامن دریدہ قوم ہے کہ دعوتی کارڈ پر آٹھ بجے کا وقت لکھتے ہیں اور میزبان خود نو دس بجے سے پہلے نہیں نظر آتے۔

جن تقریبات میں وزیر اعظم صدر اور وزراء شرکت کرتے ہیں ان میں بھی یہی جاہلانہ رویہ اپنایا جاتا ہے۔ پاکستان میں وقت پر کوئی کام کرنے کا تصور سرے سے مفقود ہے۔ ہماری اپیل ہے کہ مادام لگارڈے‘ جو آئی ایم ایف کی سربراہ ہیں۔ اس ضمن میں اپنا کردار ادا کریں اور وقت کے ناقابل بیان ضیاع کو رکوائیں۔

اگر وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ کی ناک کے عین نیچے وفاقی دارالحکومت میں اتنی دھاندلی‘ اتنی لاقانونیت اور اتنی انارکی کا دور دورہ ہے تو ضلعوں اور تحصیلوں میں جو کچھ ہو رہاہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اسسٹنٹ کمشنر بادشاہ ہے۔ دوپہر کو دفتر آئے تو کون اعتراض کر سکتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر ‘ ایس پی‘ تحصیلدار‘ پٹواری‘ فراعنہ اور نماردہ سے کم نہیں!

پورا دن دفترنہ آئیں سائل بیٹھ بیٹھ کر سوکھ سڑ جائیں تو کوئی تلافی ہے نہ شنوائی! جس قوم کے یہ لچھن ہوں وہ دنیا میں سر اٹھا کر کیسے چل سکتی ہے؟ وہ اسی قابل ہے کہ کشکول ہاتھ میں اٹھائے‘ رُسوا ہوتی رہے!

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).