”سُرمئی نیند کی بازگشت” میں خواب کی چاپ


”سُرمئی نیند کی بازگشت” میں جیسے خوابوں کی چاپ سے منسلک تاریخ مرتب کی جا رہی ہو، پیش منظر کا نوحہ کہتی نطمیں پچھوکڑ کا عکس بنتی کوئی تبدیلی دکھاتی آہ و زاری کرتی گلی گلی نظر آتی ہیں۔ شاعر (نصیر احمد ناصر) نے کچھ نظمیں دوستوں کے نام کر کے انہیں بھی اپنی شاعری کے قبیلے میں اور قریب کرنے کی ترکیب سوچی ہے۔ یہ ایک خوبصورت قدم ہے کہ ”آ ملے ہیں سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک”۔ شاعر کا یہ تجربہ اچھا لگا اس طرح بھی درد کی سوغات بانٹی جاتی ہے۔ یہاں مجھے استعاروں سے شاعری کی ترسیل ہوئی اور علامتی انداز کے توسط سے فکشن کی گیرائی بھی ملی۔ تھکن کہیں نظر نہیں آئی۔ آگے بڑھتے ہیں تو بہتر سے بہتر نظم ہمیں فیسی نیٹ کرتی ہوئی اپنے بازو پھیلاتی ہے۔

بڑی بات یہ کہ شاعر خاک میں لتھڑنا پسند کرتا ہے۔ نظموں کے نتھنے مٹی میں پھولتے ہیں۔ پھیپھڑوں سے باہر آتی ہوا، ہونٹوں سے لوگوں تک خاک آلودہ پہنچتی ہے جو انہی کے درد و الم اور فسانوں سے لبریز ہے۔ سرما میں کوئلوں سے بھری انگیٹھی اور گرمیوں میں یخ بستہ پون کی فضا میں کہانیاں کہتی نظمیں ایسا ماحول مہیا کرتی ہیں کہ بندہ ان نظموں کے ساتھ رہنا شروع کر دیتا ہے۔ شاعری پڑھتے ہوئے مصنوعی پن کی کیفیت لمحہ بھر بھی نہیں ملتی۔ قاری کو یہاں اپنی ہی باتوں سے واسطہ پڑتا ھے۔۔ شاعر اور شاعری دونوں جاذبیت رکھتے ہوئےکوئی بُعد اور اوپرا پن محسوس نہیں ہونے دیتے۔ اجنبیت دور کرتی ایک نظم کی ونگی دیکھیے:

نظم کا شجرہ

نظم کے شجرے میں

دکھوں کا طویل سلسلہ تحریر ہے

جسے پڑھتے ہوئے

کئی عینکیں بدلنی پڑتی ہیں

کئی بار تو کلاں کار شیشے سے دیکھنا پڑتا ہے

لیکن شاخوں اور جڑوں کی گنجلکوں میں

کچھ پتا نہیں چلتا

کہ دکھ کا ازلی اور جدی زرخیز بیج کہاں سے آیا

اور کن ابدوں تک پھیلا

دکھ کائنات کے کس کھیت کی پیداوار ہے

اور کس الوہی پیوند کاری کا سدا بہار کرشمہ ہے

اور یہ زمین پر کیسے پُھولا پھلا

اسمگلنگ کے ذریعے آیا

یا ارتقائی راستوں سے درآمد ہوا

اور بڑھتے بڑھتے نظم کیسے بنا

آدم اور حوا کی متھ پرانی ہو چکی ہے

اولین گناہ انسانی کھاتے میں ڈالنا بھی

خدائی غلطی کے مترادف ہے

عقیدوں اور نطریوں کے زنگار میں

نظم کی اصلیت کہاں دکھائی دیتی ہے!

شاعر نے کمال ہنر سے نظم کے وسیلے سے کھری باتیں کیں نظم کے شجرے کے مخطوطے سے دکھوں کے لمبے سلسلے میں آدم اور حوا کی متھ، عقیدوں اور نظریوں کے زنگار کی داستان اپنے دل سے گزار کر درد کے الاؤ کے گرد بیٹھے اُفتادگانِ خاک کو سنائی جو بعد میں اسی کھتا کے ہو کر رہ گئے، واپسی نہ کر سکے، پتھرا گئے۔

پابلو نرودا کی ایک نظم ”a dog has died” جس میں شاعر نے بے زبان کُتےکو زبان دی، اس کے مرنے کے بعد بھی اسے زیست کا حصہ جانا، اس سے باتیں کیں اور اپنی تنہائی بانٹی۔ اسی طرح نصیر احمد ناصر بھی نباتات، جمادات، چرند، پرند اور فطرت کے دوسرے مظاہر کو اپنا ساجھی بناتا، ان سے گفتگو کرتا چلا جاتا ہے اور نظموں میں اسی طرح جگہ دیتا ہے جیسے انسانوں کی کتھا کہتے ہوئے وہ عالمی گاؤں کی خاک سے پیوند کاری کرتا ہے۔ یہ جُڑت اُسے دوسرے شاعروں سے مختلف کرتی ہے۔ وہ جدت پسند ہونے کے باوجود دور کی کوڑٰی نہیں لاتا، سیدھے سبھاؤ مکالمہ کرتا نظر آتا ہے جسے پرندے بھی کان لگا کر سنتے ہیں اوربنیروں/ درختوں پر اپنے گیتوں میں دہراتے ہیں۔ وہ فطرت کا شاعر بھی ہے اور اسی سے اسمِ اعظم لیتا ہے جس سے بند در وا ہوتے چلےجاتے ہیں۔ شاعر اگر پُشت کیے زندگی کرتا ہے تو اس کا پرتو شاعری میں آئے گا اور اس میں وہ عطر سمیل نہیں ہو گا جس کی ضرورت ہے جس کے ناطے وہ ایک بڑا شاعر کہلا سکتا ہے۔ یہاں شاعر گلوبل ویلج گھوم کر اپنی گلی کی مٹی کو بوسہ دیتا ہے۔ زیست اوکڑیں سامنے چھاتی پر سہتا ہے اسی لیے نظم کے چبوترے کا پردھا ن ہے۔

” سُرمئی نیند کی بازگشت” کی کئی نظموں میں دہشت زدگی سرایت کی ہوئی ملی۔۔ یہاں پریشان حال و خوف زدہ مکینوں کو دہشت گرد اپنے جسموں سے بندھی بارودی جیکٹس دکھاتے محسوس ہوئے۔ نظم ملاحظہ کرتے ہیں” لاشیں اور دن ترتیب سے گنے جاتے ہیں”:

جب سب مردو زن مار دیے گئے

اعضا بکھرے ہوئے تھے

بے ترتیبی سے

ہاتھ بازوؤں سے الگ

اور پاؤں ٹانگوں سے

سر تن سے جُدا

دل سینے سے

اور آنتیں پیٹ سے باہر

شرم گاہیں کھلی ہوئی

اور ذکور کٹے ہوئے

جب سب مار دیے گئے

جسموں کے ٹکڑے اکٹھے کیے گئے

گنتی کے لیے

لاشیں ترتیب سے رکھی گئیں

شناختی نشانوں کے ساتھ

روزنامچے میں

دن، تاریخ اور وقت درج کیا گیا

تا کہ بے حساب مرنے والوں کا

حساب رکھا جا سکے!

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2