اہلیہ کی گاڑی میں ۔۔۔ گوجرانوالہ تک پینٹھ ترتالی


اِسے ماہِ رمضان کی برکتوں کا اشارہ سمجھنا چاہئیے کہ میری ذاتی موٹر کار کے فروخت ہوتے ہی بیگم سے تعلقات میں قربت محسوس ہونے لگی ہے۔ نئے معمولات یہ ہیں کہ بیوی کی کار میں پہلے اُنہیں اسکول اتارنا اور پھر واپسی پہ ساتھ لانا۔ خوشی اِس لئے کہ دو کی بجائے ایک گاڑی میں شانہ بشانہ سفر نے پینتیس سال پہلے کی یاد یں تازہ کر دی ہیں اور یہ کالم نویس خود کو پھر سے لڑکا لڑکا محسوس کرنے لگا ہے۔

اُن دنوں شعبہ اناٹومی کی استانی کو راولپنڈی میڈیکل کالج میں اتار کر خود اوپن یونیورسٹی پہنچنے کے لئے ہم دونوں ایک تاریخی فوکسی پہ نکلا کرتے تھے۔ اٹھارہ سال پرانی کار دیکھ کر دُور ہی سے پتا چل جاتا کہ حق حلال کے پیسوں سے خریدی گئی۔ شبِ رمضان کو جس خاندانی ہونڈا سوِک کی رخصتی عمل میں آئی ہے، اُس کا ساتھ سولہ برس سے تھا۔ تو بیگم سے قربت کیا ہوئی؟ اب، سنئے اور سر دھنئے۔

یہ تو طے ہے کہ اللہ کے فرمان کے مطابق، انسان خسارے میں ہے اور آپ اِسے ایک عالم گیر سچائی تسلیم کرنے کے پابند ہیں۔ پھر بھی بعض علما نے ایسی صورتیں بھی گنوائی ہیں جب انسانوں کے نیک اعمال کو خسارے سے مستثنی خیال کیا جا سکتا ہے۔ یہاں تک مفہوم واضح ہے، لیکن اِس کا کیا علاج کہ انسانی دنیا میں لوگوں کے بعض ذہنی خانے خوب بھرے ہوئے ہوتے ہیں اور بعض بالکل خالی۔

جیسے میرے دماغ کے کاروبار والے خانے کو آپ خالی تصور کر لیں تو مجھے اپنی کہانی سمجھانے اور آپ کو سمجھنے میں سہولت رہے گی۔ چنانچہ اُس چہیتی گاڑی کو، جس کی انسپیکشن ہر پانچ ہزار کلومیٹر پر ہونڈا کے سروس اسٹیشن سے کروا کر باقاعدہ کاپی پہ پینتالیس مہریں لگوا چکا تھا، جب پرائے گھر بھیج دینے کا فیصلہ کیا تو میرے دوست سردار شوکت نواز کے بقول ”اِک مسئلہ پیدا ہوئی گچھیا“۔

مسئلہ یہ تھا۔۔۔ مسئلہ یہ تھا کہ موٹر کار بیچنے کے لئے لوگ کرتے کیا ہیں۔ کہنے والے کہیں گے کہ جس فوکسی کے ذکر سے ڈھلتی عمر میں تم خود کو لڑکا لڑکا (اور صنفی مساوات کی رُو سے، لڑکی لڑکی) محسوس کرنے لگے ہو، وہ بھی تو کسی نہ کسی کے آگے بیچی ہو گی نا۔ جواب میں حلفیہ طور پر اور بقائمی ہوش و حواس اتنا کہوں گا کہ 1965 ء کا وہ اکانومی ماڈل جس کی ایجاد کا سہرا اڈولف ہٹلر کے سر تھا، ہمارے ہاتھوں بِکنے کی نوبت نہیں آئی تھی۔

پہلے تو چھ وولٹ کی بیٹری مسئلہ بنی کہ لائٹ آن کرتے تو ہارن نہ بجتا اور ہارن بجاتے تو روشنی گُل ہو جاتی۔ پھر دروازے مرضی سے کھُلنے اور بند ہونے لگے۔ بالآخر ایک شام اسلام آباد سے واہ تک کے سفر میں انجن باقاعدہ طبعی موت مر گیا۔ اِس پر جائے وقوعہ کے قریب، جہاں موجودہ آئی ایٹ واقع ہے، فوکسی کا جسدِ خاکی بلاتاخیر قریب ترین کباڑیے کو لوہے کے بھاؤ بیچ دیا گیا تھا۔

اب قدیم ہونڈا سوک کی فروخت کے لئے یہ سوچ کر کہ کہیں پروسیجر کی مار نہ پڑ جائے، مَیں نے شہزا د مکینک سے رابطہ قائم کیا، جن سے کسی کسی وقت کار کے پوشیدہ امراض کا علاج کرواتا رہا ہوں۔ میری جان پہچان کے حلقے میں وہ موٹروں کے واحد معالج ہیں جو چھینا جھپٹی نہیں کرتے۔ بات سُن کر شہزاد نے پوچھا ”بھائی جان، کتنے میں ڈن کروں؟“۔ کہا کہ کچھ پتا نہیں۔ ”دیکھیں سولہ سو سی سی ہے اور سولہ سال پرانی مگر کوئی نقص نہیں۔

ٹائروں کو چند مہینے ہوئے ہیں، بیٹری بالکل نئی۔ آپ مناسب سمجھیں تو آٹھ مانگیں گے اور ساڑھے سات میں دے دیں گے؟“ ”ٹھیک ہے“ مَیں نے اپنا تکیہء کلام دہرایا۔ اگلے دن اتوار کو گوجرانوالہ سے بھائی کا فون آ گیا اور قیمت پوچھی۔ مَیں نے شہزاد کے نام سے پوری چالاکی افشا کر دی۔ بھائی نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ کار میرے دوست نوید کو بیچ دیں۔

کہتے ہیں نئی فصل کا میوہ ہمیشہ سخی کے ہاتھ سے کھاؤ، اگر بخیل کے ہاتھ سے کھایا تو پھر ساری زندگی نصیب نہ ہو گا۔ نوید میاں کار خرید کر لے گئے تو ہونا چاہئیے تھا کہ شہزادہ اور شہزادی چین کی زندگی گزارنے لگتے۔ پر شہزادے اور شہزادی کی طبیعت میں چہل آئی کہ کل منگل کو اسکول میں امتحانات کی چھٹی ہے۔ کیوں نا بیگم صاحبہ کی گاڑی میں بھائی کے پاس گوجرانوالہ چلیں۔ کار کی فروخت پہ بھائی کا شکریہ بھی ادا کر دیں گے اور رمضان کی پہلی صبح کا میوہ بھی سخی کے ہاتھ سے ملے گا۔

ایک حرکت یہ بھی ہوئی کہ گھر سے نہر کا راستہ پکڑنے سے پہلے پسندیدہ میوزک ڈائرکٹر نوشاد علی کے نیم کلاسیکی فلمی گانوں کی سی ڈی لگا لی۔ یہ فُل عیاشی پروگرام عہدِ رفتہ کو آواز دینے کے لئے تھا۔

اب جی ٹاپو ٹاپ جا رہے ہیں کہ کالا شاہ کاکو پر ایم ٹو سے اتریں گے اور آگے پون گھنٹے میں گوجرانوالہ کینٹ۔

نوشاد علی ساتھ ہوں تو مَیں جی ٹی روڈ کے چھوٹے موٹے رش کو خاطر میں نہیں لاتا۔ پر اُس شام سات بج کر دس منٹ پہ مریدکے سے پہلے جو پروگرام شروع ہوا ہے تو ایسی پرفارمنس نہ پہلے کبھی دیکھی، نہ سنی۔ کاریں، مسافر بسیں، ٹرک متوازی لائنوں میں تاحدِ نظر کھڑے ہیں۔

محسوس ہو گیا کہ یہ کوئی چھوٹا موٹا ٹریفک جام نہیں ہے۔ اِس لئے مہم جُو لوگوں کی نا ہموار اترائیاں اتر کر الٹی سمت میں سروس روڈ پکڑنے کی کوشش اور اِس سے آگے شام کے اندھیروں میں نا آشنا بستیاں، ویرانے اور ندی نالے پار کرنے کی دائرہ در دائرہ تگ و دو منزل کو قریب تر نہیں لا سکتی۔ ساتھ کھڑی ایک کار کے ڈرائیور نے ہمارے پوچھے بغیر شیشہ نیچے کر کے بتا دیا کہ چند کلو میٹر آگے پیش آنے والے کسی واقعہ پر مقامی باشندے سڑک بند کرکے احتجاج کر رہے ہیں۔ چلئے چھٹی ہوئی۔

اللہ معافی دے، جب اپنے بس میں کچھ بھی نہ ہو تو زیادہ چُر چُر کرنے کا فائدہ نہیں ہوتا۔

یاد آیا کہ انگلستان میں ایک رات نیو پورٹ سے لندن واپسی پر اِس سے ملتی جلتی صورتحال سے پالا پڑا تھا۔ تب بچے چھوٹے تھے، لہذا سوچ لیا کہ کار میں پٹرول اور فیِڈر میں دودھ ہونا چاہئیے۔ پیر کی شب حالات زیادہ موافق نکلے۔ ٹنکی بھری ہوئی تھی اور دو میں سے ایک موبائل فون تازہ دم۔

دودھ پینے والے بچے تھے ہی نہیں۔ ہاں، جامد گاڑیوں کے ہجوم میں سے گزر کر بڈھا بڈھی کے لئے پانی کی بوتل اور بسکٹوں کے دو ڈبے خرید لئے جن کے بارے میں حد سے مصروف کھوکھے والے نے خوش دلی سے کہا ”اچھی قسم کے ہیں“۔ اِس حوصلہ افزائی سے شہ پا کر ہم دونوں نے فیصلہ کیا کہ کچھ ہو جائے مُوڈ اچھا رکھنا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ سحری یہیں ہو جائے۔ تو بھئی ہو جائے۔ سحری تو وہاں نہ ہوئی، لیکن قبولِ دعا کی اس گھڑی میں خوشگوار واقعات رونما ہونے لگے۔

آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ ٹریفک کو جنبش ہوئی اور گاڑیاں مرید کے اور اس سے آگے سادھوکی کے رُخ پہ سرکنے لگیں۔ نئیں بھاجی، ایہہ گل نئیں۔ ٹریفک میں حرکت تو پورے اڑھائی گھنٹے گزر جانے پہ ہوئی اور پھر لاہور سے گوجرانوالہ تک کُل ساڑھے چھ گھنٹے کی مسافت میں جگہ جگہ وہ حال کہ ’کیا لطف جنازہ اٹھنے کا ہر گام پہ جب ماتم نہ ہوا‘۔ ہمارے گردو پیش دو باتیں البتہ بہت ہمت افزا تھیں۔

ایک تو اِس طویل آزمائش کے دوران کوئی فالتو ہارن نہ بجا، جو حیران کُن ہے۔ دوسرے دائیں بائیں کم و بیش سب گاڑیوں نے انجن مسلسل اسٹارٹ رہنے دئے اور مدھم روشنیاں جلائے رکھیں جس سے تکمیلِ سفر کی آس نہ ٹوٹنے پائی۔ پھر بھی جن خوشگوار واقعات کا اشارہ اوپر دے چکا ہوں، اُن کا تعلق دیگر عوامل سے نہیں، بسوں، ٹرکوں، ویگنوں اور چنگچیوں کے زورِ سخن سے تھا۔

اولین نمونہء کلام کی نشاندہی بیگم نے عین اُس وقت کی جب مَیں نوشاد علی والی سی ڈی تیسری مرتبہ آن کرنے لگا تھا۔ کیا دیکھا کہ ایک ٹرک کی پشت پہ لکھا ہے ’خان پھر آئے گا‘۔ میرے منہ سے چچا تپش برنی کے انداز میں نکلا ’صاحب، لہجے کی شاعری ہے‘۔

ساتھ ہی جنرل ایوب خان کے زوال کے پس منظر میں راولپنڈی سے ایبٹ آباد جانے والی مسافر ویگنوں پر اُن کی باوردی تصویر میری آنکھوں میں گھومنے لگی جس کے نیچے درج یہ مصرع ہماری روڈ ٹرانسپورٹ پر شعری تحریک کا نکتہ آ غاز تھا کہ ’تیرے جانے کے بعد تیری یاد آئی‘۔ جوں جوں مزید نمونے جمع ہوئے، یہ خیال تقویت پکڑنے لگا کہ ہماری شاعری کی مذکورہ صنف محض سیاسی محرومیوں کے شعوری اظہار تک محدود نہیں رہی۔ اب یہ سیاسی شعور ہمارے تمدنی پیرایوں میں گھُل مل گیا ہے۔ شعر ملاحظہ ہو:

سڑکاں اتے چلن لاریاں

چوکا ں وچ سپاہی

ہر موڑ تے لوکی پچھن

پینٹھ ترتالی (6543) کیوں نئیں آئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چاول میں چاول، چاول میں کِیڑا

میری ماں جنت کا ہیرا

دیکھ مگر پیار سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہو سکتا ہے کہ آپ لاہور کے اُس یونیورسٹی پروفیسر کے طر فدار ہوں جنہوں نے اپنے دو شعری مجموعوں کی اشاعت سے فارغ ہو کر ایک دن انکشاف کیا ’کل افتخار عارف کہہ رہے تھے کہ شاعری میں ایک چیز ہوتی ہے جسے وزن کہتے ہیں‘۔

ٹریفک کی روانی بحال ہونے پر گوجرانوالہ کینٹ پہنچنے سے پہلے پہلے ہم نے ’خان‘ والے ٹرک کی طرح ایک مسافر ویگن پر لہجے کی شاعری کا ایک اور نمونہ تلاش کر لیا تھا:

کاش آپ ہمارے ہوتے

صدقہ پنجتن پاک


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).