فنکار ماؤں کی طرح ہوتے ہیں


محترمی ڈاکٹر سہیل !

بعد سلام عرض ہے کہ میری عمر چالیس سال ہے اور گزشتہ کئی برس سے میں دائمی ضعف العقل کا شکار ہوں۔ دانش‘ علم‘ ادب و فلسفہ جیسی اشیاء سے بدہضمی کی سی شکایت رہتی ہے اور طبیعت کسی تخلیقی کام کی طرف مائل نہیں ہوتی۔ گزشتہ سال آپ کا تحریر کردہ نسخہ “From creative rain to creative spring” بھی استعمال کرنے کی کوشش کی مگر آپ کی ہدایت کے مطابق اپنے تخیل کے Climate Change کیلئے ایک کاہل الدماغ کو جس قدر مشقت درکار ہے وہ اچھے اچھوں کا تخلیقی پسینہ چھڑوا دے۔ تو یہ کیوں کر ممکن ہو کہ مجھ جیسا نثری نظموں کا شاعر دانشور بن جائے۔

 آپ تخیل کی جن سرسبز وادیوں کے باسی ہیں یہ تخلیقی برکھا اور بہار انہی وادیوں کے موسم ہیں۔ ہم تخیل کے صحراؤں میں بھٹکنے والے خانہ بدوش نخلستانوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ہم اپنے خیالات کے اونٹوں کے گلے میں گھنٹی باندھے جھلستی گرمی میں سلگتی ریت پر میلوں کا سفر طے کرتے ہیں کہ دانش کے کسی چشمے سے اپنی پیاسی سوچ کا گلا تر کر سکیں۔ لیکن کہیں سراب’ کبھی آندھی تو کبھی ریت کے بھنور ہماری ہلاکت کا باعث بن جاتے ہیں۔

آپ کی تشخیص کے مطابق مجھ میں پیدائشی طور پر دانشورانہ جراثیم موجود ہیں۔ جو کہ انتہائی مہلک اور تشویشناک بات ہے۔ میں پورے یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتی ہوں کہ یہ بیماری موروثی ہے اور میری کسی بد پرہیزی کا اس میں کوئی دخل نہیں۔

 لیکن آپ جو علاج تجویز کر رہے ہیں وہ نا صرف میری علمی متاع سے باہر ہے بلکہ اس میں Risk factor بہت زیادہ ہے ۔ یہاں تک کہ یہ میری intellectual death کا باعث بھی ہوسکتا ہے۔ اسے میں ”Extensive Creative Therapy“ کا نام دینا چاہوں گی۔ ایک انتہائی پیچیدہ عمل جس کے لیے مجھ کو اپنی تمام تر تخلیقی قوتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے Continuous Creative Process  کا حصہ بننا ہوگا۔ یہ بالکل کسی بچے کو اس دنیا میں لانے جیسا عمل ہے۔ ایک fertile ذہن کا ہونا۔ کسی مشاہدے، مطالعے اور تجربے کا sperm کی صورت میں واردات قلبی کی شکل میں موجود eggs کے ساتھ مل کر Fetus کی طرح کسی خیال کا تخیل کی کوکھ میں پلنا اور پھر حقیقی دنیا میں paper, canvas , sculpture, music piece یا کسی اور میڈیم میں جنم لینا۔

گو کہ ماں بننا ایک عظیم کام اور بے حد پرمسرت احساس ہے۔ مگر میرا Comfort Zone میرے لئے Contraceptive کا سا کام دیتا ہے ۔ بصورت دیگر مجھے ہر تھوڑے عرصے بعد Creative Pregnancy سے گزرنا پڑے گا۔ جو نو مہینے پر محیط نہ سہی نو دنوں پر ضرور محیط ہوتی ہے۔ تین دن intellectual nausea میں ہذیانی الٹیاں کرتے گزرتے ہیں۔ تین دن سوچتے ہوئے گزرتے ہیں اور تین دن لکھتے ہوئے اور پھر کئی ہفتے Post Creative Depression میں۔ اس دوران معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ لواحقین میرے شدید Mood swings کا شکار ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ گھر میں کھانا کھانے کے لالے پڑ جاتے ہیں۔

ڈ اکٹر صاحب ! مجھے اس بات کا بخوبی ادراک ہے اور میں یہ اعتراف کرتی ہوں کہ میں ایک Intellectual Nymphomaniac  ہوں۔اسی لیے میں نے کڑی تپسیا، ریاضت اور میڈیٹیشن سے اپنے لئے ایک Stupa بنایا ہے۔ جہاں میرے پاس میرا ذاتی Laughing Buddha بھی موجود ہے (اپنے شوہر زوبی سے معذرت کے ساتھ) اور اب جب میں موکش یا نروان پراپتی کے اتنا قریب ہوں تو آپ مجھے کیوں واپس وہیں بھیجنا چاہتے ہیں جہاں سے سفر کا آغاز ہوا تھا؟ اسی Insanity Creative  کی طرف جس کی مجھے اب کوئی موہ نہیں رہی!!

ہما دلاور

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail