انڈیا الیکشن 2019: پارلیمان میں مسلمانوں کی نمائندگی نہ ہونےکے برابر


An Indian Muslim voter leaves after casting his vote at a polling station, in Kanpur on April 29, 2019.

انڈیا میں مسلمانوں کی سیاسی قیادت سکڑ رہی ہے

انڈیا میں مسلمانوں کی آبادی دو ہزار گیارہ میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق سترہ کروڑ ہے لیکن قانون سازاداروں میں ان کی نمائندگی کا تناسب اچھا نہیں ہے۔

بی بی سی کی پریانکا پاٹھک نے مسلمان برادری کی پارلیمان میں سکڑتی ہوئی نمائندگی کے بارے میں یہ رپورٹ تیار کی ہے۔

حال ہی میں انڈیا کی مشرقی ریاست بہار کے حلقے مدھوبانی میں ایک گرم صبح ایک تنگ گلی میں سیاسی کارکن، مقامی تاجر اور سماجی کارکن شکیل احمد کو گھیرے بیٹھے ہیں۔

اس کے فوراً بعد ہی شکیل احمد جو انتخابی امیدوار ہیں اپنی سفید گاڑی میں انتخابی مہم کے ایک اور سرگرم دن کے لیے نکل پڑے۔

63 سالہ شکیل احمد کانگرس پارٹی کے سابق رکن ہیں لیکن اپریل میں جب پارٹی نے انہیں اپنے امیدوار کے طور پر میدان میں اتارنے سے انکار کیا تو انھوں نے ایک بے مثال کام کیا۔

انھوں نے کانگرس جماعت کے ساتھ اپنے دہائیوں کے تعلق کو ختم کر کے ایک آزاد امیدوار کے طور پر اسی نشست سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں جہاں سے وہ ماضی میں دو مرتبہ جیت چکے ہیں۔

https://twitter.com/Ahmad_Shakeel/status/1117763932847050752

یہ ایک چونکا دینے والا قدم تھا جس کی وجہ بڑے پیمانے پر مسلمانوں کی حمایت تھی۔ یہ اقدام انڈیا کے مسلمانوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور استحصال کو بھی ظاہر کرتا ہے جو پارلیمان میں اپنی سکڑتی ہوئی نمائندگی کے باعث خدشات کا شکار ہیں۔

https://twitter.com/Ahmad_Shakeel/status/1118590317404610560

حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی اس مرتبہ بھی صرف سات مسلمان امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ انڈیا کے ایوانِ زیریں کی 545 نشستوں میں سے 437 پر اس کے امیدوار انتخاب لڑ رہے ہیں۔ پارٹی نے سنہ 2014 کے انتخابات میں بھی صرف سات امیدوار ہی میدان میں اتارے تھے اور ان میں سے کوئی بھی جیت نہیں سکا۔ یہ انڈیا کی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ حکومتی جماعت میں کوئی بھی مسلمان نمائندہ موجود نہیں تھا۔

سنہ 2014 میں کانگریس نے 464 نشستوں پر انتخاب لڑا لیکن ان کے مسلمان امیدواروں کی تعداد صرف 31 رہی۔ ان میں سے بھی سات کو کامیابی حاصل ہوئی۔ اس مرتبہ بھی کچھ زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔ کانگریس جماعت کے کل 423 امیدواروں میں صرف 32 مسلمان ہیں۔

کانگرس کی جانب سے شکیل احمد کو میدان میں نہ اتارنا ایک حیران کن فیصلہ تھا۔ وہ کوئی عام امیدوار نہیں تھے۔ جب کانگرس اقتدار میں تھی تو وہ پارٹی کے جنرل سیکرٹری اور جونیئر منسٹر رہے۔ ان کے والد اور دادا دونوں ہی کانگرس کے رہنما تھے اور بہار اسمبلی میں منتخب قانون ساز تھے۔

اسی بارے میں

مسلمان اب کسی کا ووٹ بینک نہیں

انڈیا: مسلمان اپنی نماز کا انتظام خود کریں

انڈیا میں مسلمان ہندوؤں سے زیادہ کیسے ہوں؟

بہار میں ایک اسلامی تنظیم امارات شریعہ کے سیکرٹری مولانا انیس الرحمن قاسمی کا کہنا تھا ’ شکیل احمد جیسے کانگرس کے ایک بڑے رہنما کو اپنی ہی سیٹ کے لیے بھیک مانگنی پڑی۔ وہ بہادر بنتے رہے لیکن انہیں جماعت بہت پہلے چھوڑ دینی چاہیے تھی۔ صرف مسلمان ہی کانگریس کو کامیابی دلا سکتے ہیں۔‘

’یہ ہمارے خلاف سازش ہے۔ کانگریس مسلمانوں سے کہتی ہے کہ ان کے لیے ووٹ کریں لیکن انہیں ٹکٹ نہیں دیتی۔‘

کانگرس خود کو سیکولر جماعت قرار دیتی ہے جو اقلیتوں کے مفادات کی بھی نمائندگی کرتی ہے اور یہ ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی سے مختلف ہے۔ لیکن مسلمان ووٹرز کے ساتھ یہ رازو نیاز مسلمان امیدواروں کو ملنے والے ٹکٹوں میں نہیں جھلکتا۔ بہار میں ان کے 120 انتخابی امیدواروں میں صرف آٹھ مسلمان ہیں۔

Shakeel Ahmad at a press conference in May 2015 in Bhopal.

شکیل احمد 30 سال سے کانگرس کے ساتھ تھے

گذشتہ ماہ دہلی کے سینیئر کانگریس رہنما شعیب اقبال، مارٹن احمد، حسن احمد اور آصف محمد خان نے کانگرس کے صدر راہول گاندھی کو ایک خط کے ذریعے خبردار کیا تھا کہ لوگ اس بات کا برا منا رہے ہیں کہ دہلی میں کوئی مسلمان امیدوار حصہ نہیں لے رہا۔ انھوں نے ان سے کم از کم ایک نشست پر مسلمان امیدوار نامزد کرنے کا مطالبہ کیا۔

خط میں لکھا گیا کہ ’مسلمانوں کے ووٹوں کی تعداد اور انتخابات جینتے میں مسلمان امیدواروں کے کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے دہلی سے کم از کم ایک نشست مسلمان امیدوار کو دی جانی چاہیے۔ چاہے وہ چاندنی چوک ہو یا پھر شمال مشرقی دہلی کی۔‘

لیکن راہول گاندھی نے اس مطالبے کو نظر انداز کر دیا۔ دہلی کے لیے ان کی جماعت کے امیدواروں میں کوئی مسلمان نہیں ہے۔

کانگرس اپنے ٹکٹوں کی تقسیم کا دفاع کرتی ہے۔ پارٹی کے قومی میڈیا کوآرڈینیٹر سنجیو سنگھ نے بی بی سی کو بتایا ’ہم جو کر سکتے تھے ہم نے کیا اور جس جس کو ممکن تھا ٹکٹ دیئے۔ درحقیقت ہم نے سنہ 2014 کے مقابلے میں ایک ٹکٹ زیادہ دیا ہے۔ لیکن ہم اتحادی جماعتوں کی وجہ سے بھی پابند ہیں۔‘

مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ ان کی آبادی سنہ 1981 کی چھ کروڑ اسی لاکھ کے مقابلے میں بڑھ کر سنہ 2011 میں 17 کروڑ 20 لاکھ ہو چکی ہے۔ اور سنہ 1980 کے مقابلے میں مسلمان ارکان اسمبلی کی تعداد 49 سے کم ہو کر سنہ 2014 میں صرف 22 رہ گئی۔

مسلمانوں کی پارلیمنٹ میں نمائندگی سنہ 1980 کے مقابلے میں 9 فیصد سے سکڑ کر سنہ 2014 میں چار فیصد رہ گئی اور مسلمان آبادی کے تناسب سے ان کے نمائندگی کا فرق دو فیصد سے بڑھ کر 10 فیصد پر آ گیا۔

یہ سب چند دہائیوں میں ہوا۔ جیسا کے کئی لوگوں کو لگتا ہے یہ سنہ 2014 میں ہندو قوم پرستی لہر کی وجہ سے نہیں ہوا جو نرنیندر مودی کی فتح کا سبب بنی۔

مسلمان کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان کی سب سے بڑی شکایت کانگرس کی جانب سے انہیں نمائندگی دینے سے انکار ہے۔

یونائیٹڈ مسلم ایمپاورمنٹ کے رکن مستقیم صدیقی کا کہنا تھا ’انھوں نے مسلمانوں کے ذہنوں میں بی جے پی کا اتنا خوف پیدا کیا ہے کہ اگر وہ ہم مسلمانوں کو ایک ٹکٹ بھی نہیں دیتے تو مسلمان ایک لفظ بھی نہیں کہیں گے۔‘

A Muslim mother with her daughter and her friends celebrates at St. Thomas School after the class 10th CBSE result announced, on June 3, 2016 in New Delhi, India.

مسلمان انڈیا کی کل آبادی کا 15 فیصد ہیں

ان کا مزید کہنا تھا اس کے باوجود کے کانگرس نے مسلمانوں کو ٹکٹیں نہیں دیے لیکن وہ ان سے ان کے ووٹ ضرور مانگتے ہیں۔ ’وہ ہمیں کہتے ہیں کہ اگر انھوں نے مسلمانوں کو ٹکٹ دیے تو ان حلقوں میں ووٹ تقسیم ہو جائے گا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ٹکٹ نہ دے کر وہ ووٹروں کو تاثر دے رہے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو خوش کرنے کی سیاست نہیں کر رہے۔‘

کانگرس جو دوسرے عوامل نظر انداز کر رہی ہے ان میں مسلمان برادری کے اندر تحریکیں اور جھگڑے ہیں۔

سنٹر فار دی سٹڈی آف ڈویلپنگ سوسائٹیز میں پولیٹیکل اسلام کے پروفیسر ہلال احمد کا کہنا ہے ’ایک قومی بیانیہ ہے کہ اسلام میں ذات پات نہیں ہے اور سب کی ایک سیاسی شناخت ہے۔ یہ کافی عجیب ہے کہ ایسا سمجھا جاتا ہے تمام مسلمان کسی ایک ہی کو ووٹ دیں گے۔‘

مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ صرف اپنے مسائل کی بنا پر ووٹ نہیں دیتے۔

حلقے مدھوبانی کے رہائشی محمد قادری کہتے ہیں ’ہر کوئی بہتر سڑکیں، بہتر سکول اور بہتر ملازمتیں چاہتا ہے۔ لیکن وہ سب اسے مذہب سے جوڑ رہے ہیں۔ شکیل احمد نے یہاں اچھا کام کیا ہے لیکن انہیں اس لیے ٹکٹ نہیں دیا گیا کہ وہ مسلمان ہیں۔ یہ بہت غلط بات ہے۔‘

ہمیں بی جے پی سے کوئی امید نہیں لیکن ہمیں کانگرس سے کافی امیدیں تھیں۔‘

ایسے میں مذہبی رہنماؤں کا کہنا ہے وہ اب بھی مسلمان آبادی سے کہتے ہیں کہ وہ کانگریس کو ووٹ دیں کیونکہ ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔

مولانا قاسمی کا کہنا تھا ’ہم ایسے مزدوروں کے طرح ہیں جو کام چھوڑ کر جانے لیے آزاد ہیں لیکن ہم جائیں گے نہیں۔ ہماری آبادی تو بڑھی ہے لیکن ہمارے نوجوانوں کے پاس نظریہ نہیں ہے نہ تعلیم ہے۔ اس لیے ہم ایسے مزدور ہیں جو اپنا کام کرتے رہیں گے اور اپنے آباؤ اجداد کی طرح ووٹ دیتے رہیں گے۔‘

Indian Muslim women stand in a queue to cast their vote at a polling station in Kurnool district of the Indian state of Andhra Pradesh, on April 11, 2019.

پولیٹیکل سائنٹیسٹ کرسٹوفر جیفرلوٹ جن کی تحقیق میں یہ جائزہ لیا گیا کہ انڈین پارلیمان میں مسلمانوں کے لیے کون بولتا ہے۔ سنہ میں 2016 ان کا کہنا تھا کہ منتخب اداروں میں آپ کے اپنے لوگوں کا آپ کی نمائندگی کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اقلیتوں کے دفاع کے لیے بہت کم لوگ رہ جائیں گے۔

ان کی تحقیق کا مرکز وہ سوالات اور مباحثے تھے جو بلووں، مثبت کارروائیوں اور مسلم خانگی قوانین کے متعلق تھے۔ اور ان کا مزید کہنا تھا کہ تحقیق سے انہیں پتا چلا کہ مسلمانوں کو درپیش مسائل سے متعلق 23 فیصد سوالات مسلمان ارکانِ اسمبلی نے اٹھائے۔

مسلمانوں کو اس چیز کا احساس ہے۔ مدھوبانی کے ایک سماجی کارکن عطا الرحمن انصاری کا کہنا ہے ’ہمیں کوئی ہمارے لیے بولنے والا چاہیے۔‘

Indian Muslim children are seen performing ablutions before offering prayers in a mosque during the first day of the holy fasting month of Ramadan in Patiala district of Punjab.

مارچ 2019 میں کیے گئے سروے کے مطابق کچھ علاقوں میں مسلمان کانگرس سے ناطہ توڑ کر بی جے پی کو ووٹ دے رہے ہیں جن میں کرناٹک، مغربی بنگال اور راجھستان کے علاقے شامل ہیں۔

دوسرے جانب شکیل احمد جیسے امیدوار بھی ہیں جو اپنی پارٹی سے تعلق توڑ کر مسلمانوں کی نمائندگی کا معاملہ اجاگر کر رہے ہیں۔

مسلمان برادری کو یہ بھی امید ہے کہ مسلمانوں کی نئی نسل میں شاید کچھ رہنما پیدا ہوں گے جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ ملک کی نمائندگی کریں گے۔

مولانا قاسم کہتے ہیں ’مسلمانوں کو اب قیادت سنبھالنے کے بارے میں سوچنا چاہیے نہ کہ اسے دوسری سیاسی جماعتوں کو دینے کے بارے میں۔ ‘

’ہمیں آزادی کے دور جیسے رہنماؤں کی ضرورت ہے۔ ایسے مسلمان رہنما جن میں نظریہ اور حوصلہ ہو جو نہ صرف مسلمانوں سے تعلق رکھتا ہو بلکہ پورے ملک کے لیے ہو۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp