جب خودکش بمبار کو تھپڑ پڑ گئے۔۔۔


فرض کریں اپ کو کہیں جانے کی جلدی ہو اور اچانک کوئی حواس باختہ موٹرسائیکل سوار غلط سمت سے آپ کی گاڑی سے ٹکرا کر گر جائے تو آپ کا کیا ردعمل ہو گا؟ یقیناً آپ کو غصہ آئے گا، تو تو میں میں بھی ہو سکتی ہے اور ہاتھا پائی بھی۔

فرض کریں کہ آپ گاڑی سے اترتے ہیں اور موٹر سائیکل سوار نوجوان کو گالیوں کے ساتھ دو تین تھپڑ بھی جڑ دیتے ہیں اور خوفزدہ نوجوان عجیب سی نظروں سے آپ کو دیکھتا ہوا اپنی خراب موٹرسائیکل تھام کر پیدال کھسک جاتا ہے اور آپ جاتے جاتے ایک اور گالی دے کر اپنی راہ لیتے ہیں۔

فرض کرنے کا یہ سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ایک بار پھر سوچیں کہ اگلے روز آپ پر انکشاف ہوتا ہے کہ انجانے میں جس نوجوان کی تھپڑوں اور گالیوں سے تواضع کی تھی وہ کوئی عام راہ گیر نہیں بلکہ ایک خودکش بمبار تھا جو موٹرسائیکل میں بارود بھر کر قریبی پارک میں تحریک انصاف کے اجتماع کو نشانہ بنانے کے لیے نکلا تھا لیکن اس حادثہ نے اس کا سارا منصوبہ خراب کر دیا تو آپ پر کیا گزرے گی اور نہ جانے کیسے کیسے خیالات آپ کے دل و دماغ کو جکڑ لیں گے۔

یہ کوئی افسانہ نہیں بلکہ پشاورمیں ایسا ہی واقعہ سامنے آیا۔ 15 اپریل کو حیات آباد آپریشن کے دوران پانچ دہشت گردوں کو پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے مشترکہ طویل آپریشن میں ہلاک کیا گیا جبکہ ایک نوجوان دہشت گرد یاسر شمس کو زندہ حراست میں لیا گیا۔ یاسر شمس نے پشاور کی نجی یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری لی ہے اور ایک ادارے میں کمپیوٹر آپریٹر کی ملازمت کرتا تھا۔

اس کے جو پانچ سا تھی آپریشن میں مارے گئے انہوں نے پشاور ہائی کورٹ کے جج پر قاتلانہ حملہ اور انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی ریلی میں صوبائی وزراء عاطف خان اور شاہرام ترکئی کو خودکش حملے میں نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا تھا۔۔ یاسر شمس نے سینئر سول جج کی عدالت میں تحریری طور پر اقبال جرم کیا جس میں یہی کہانی بیان کی۔

اس کا کہنا تھا کہ افغان خود کش حملہ آور پی ٹی آئی ریلی کو نشانہ بنانے کے لئے بھیجا گیا تھا جس کا راستے میں ایک موٹرکار سوار کے ساتھ ایکسیڈنٹ ہوا اور بارود سے بھری موٹر سائیکل خراب ہو گئی جبکہ اس سارے معاملے میں خود کش حملہ آور کو ایک شہری کے تھپڑ بھی کھانے پڑ گئے۔ اسی حادثہ کے باعث حملہ کا منصوبہ ملتوی ہو گیا۔ اپنے بیان میں یاسر کا یہ بھی کہنا ہے کہ شام کو اپنے ٹھکانے پر واپسی کے بعد ساری گروہ منصوبہ کی ناکامی پر ایک دوسرے کو برا بھلا کہتا رہا۔

دہشت گردی میں اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کا ملوث ہونا نئی بات نہیں لیکن حیات آباد آپریشن دیگر حوالوں سے بھی مختلف رہا۔ واقعہ کے بعد ہلاک تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تصویریں سوشل میڈیا پرگردش کرتی رہیں اور انہیں کئی لوگ بے گناہ قرار دیتے رہے۔

دہشت گردوں کی پناہ گاہ مکان کو بارود سے گرانے اور سترہ گھنٹے طویل آپریشن پر بھی کئی افراد سوالات اٹھاتے رہے۔ اگرچہ پولیس اور سیکیورٹی اداروں نے کالعدم تحریک طالبان سے وابستہ پانچ دہشت گردوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی لیکن یاسر کی گرفتاری کو خفیہ رکھا گیا جس نے دوران تفتیش پورے گروہ کی سرگرمیوں سے پردہ اٹھایا۔

عدالت میں یاسر کے اقبال جرم کے بعد سوشل میڈیا پرہلاک دہشت گردوں کی حمایت میں جاری مہم بند ہو گئی اور ساتھ ہی بعض مذھبی جماعتوں کے اعتراضات اور سوالات کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).