اردو میں مستعمل فارسی ضرب الامثال


یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اردو زبان میں اچھی شعری تخلیق یا اعلیٰ ادب منصۂ شہود پر لانے کے لئے فارسی زبان کا علم ضروری ہے۔ کسی بھی نامور ادیب یا شاعر کی تخلیقات کا مطالعہ کیجئے تو اس نظریے کی صداقت سامنے آجائے گی اور اندازہ ہوجائے گا کہ شاعر یا تخلیق کار فارسی زبان کا علم ضرور رکھتا ہے۔ روایتی غزل گوئی ہو یا عوامی شاعری، ترقی پسند شاعری ہو یا جدید ادب، فارسی سے مفر کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔

جدید غزل کے پرستار جو روایتی اردو غزل گوئی سے کلی طور پر منحرف ہیں اور اپنی شاعرانہ کاوشوں کو عوامی بنانے کی کوشش میں سرگرم ہیں، وہ بھی فارسی کے بغیر اپنے ضمیر کی بات بہتر طور پر نہیں ادا کرسکتے ہیں۔ عربی اور فارسی کے ہزاروں الفاظ، محاورے، فقرے، جملے، ضرب الامثال اردو روزمرہ کا جزو لاینفک بن چکے ہیں اور اب کیفیت یہ ہے کہ ان کو اردو زبان سے خارج ہی نہیں کیا جاسکتا ہے، بلکہ کچھ فقرے اور محاورے تو اس طرح سے زبان زد خاص و عام ہوچکے ہیں کہ انھیں ان کی روزمرہ کی گفتگو سے بھی الگ نہیں کیا جاسکتا ہے۔

اردو میں خاص طور پر ادب و شعر میں فارسی مصرعے، فقرے اور محاورے ضرب الامثال کے طور پر ہمیشہ ہی زیر استعمال رہے ہیں، لیکن زمانے کے تغیرات اور انگریزی زبان کی سرعت کے ساتھ اثر پذیری نے اردو زبان پر انگریزی کے غلبہ کی روایت کو فروغ دینے کا کام کیا ہے۔ اب تو حالت یہ ہے کہ کوئی بڑا ادیب، دانشور یا شاعر جب تک اپنی تحریروں میں انگریزی کے الفاظ جا بجا استعمال نہیں کرتا ہے تو اسے اطمینان ہی نہیں ہوتا ہے، حالانکہ وہ جن انگریزی الفاظ کا استعمال اپنی تحریروں میں کرتا ہے اس کے متبادل نہایت خوبصورت، معنویت سے پُر اور سہل الفہم لفظیات اردو میں موجود ہیں بلکہ مستعمل بھی ہیں، لیکن اسے تو زمانے کے شانہ بشانہ چلنے اور انگریزی دانی کا زعم دکھانا مقصود ہوتا ہے۔

جب ایسی روایت کی اتباع کرنے کا رجحان فروغ پا چکا ہو تو بھلا ایسی حالت میں ان فارسی محاوروں، فقروں اور ضرب الامثال کی طرف توجہ کی کسے فکر ہوگی، جن سے صدیوں سے ہماراگلستانِ ادب معطر رہا ہے۔ زیر نظر مضمون میں ایسے ہی فارسی محاوروں، مصرعوں، فقروں اور ضرب الامثال کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جن کا اردو میں عام طور پر استعمال ہوتا رہا ہے اور جن میں سے بعض اب بھی مستعمل ہیں، لیکن وقت کے ہاتھوں انھیں پامال ہو کر ہمارے ادب کے منظرنامے سے غائب ہونے کا خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔ یہاں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ ان فارسی فقروں، مصرعوں اور محاروں کا لفظی ترجمہ نہیں کیا جائے بلکہ اس بات کی سعی کی گئی ہے کہ ان کی معنویت بھی ان کے ترجمہ سے ظاہر ہوجائے اور قاری کا ذہن اسے آسانی سے قبول کرسکے۔

1۔ خطائے بزرگان گرفتن خطاست (بزرگوں کی غلطیوں کی گرفت کرنا بذات خود ایک خطا ہے) ۔

ہندوستانی تہذیب اس بات کی اجازت نہیں دیتی ہے کہ بڑوں کی غلطیوں پر انگلی اٹھائی جائے۔ ان کی غلطیوں کو خاموشی سے نظر انداز کردینا بہتر تصور کیا جاتا ہے۔ اس کا یہ نتیجہ نہیں اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ان سے غلطی سرزد نہیں ہوتی ہے یا ہر بات میں ان کی اندھی تقلید کی جانی چاہیے، بلکہ ان کی بزرگی اور عمر رسیدگی کے باعث احتراماً ان کی غلطیوں کو نظر انداز کردینے کی روایت ہماری تہذیب کی ایک صحت مند علامت ہے۔ اس فقرے کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ ان کی خطاؤں کی نشاندہی اور گرفت کرکے انھیں شرمندہ کرنا بجائے خود غلط ہے اور اس سے اجتناب مستحسن قرار دیا جاتا ہے، لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بعض بزرگ افراد اپنی پیرانہ سالی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسی غلطیاں بار بار دہراتے ہیں، جن کا اعادہ نہیں ہونا چاہیے اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ ہم بزرگ ہیں، ہماری ہر جائز اور ناجائز بات تسلیم کی جائے۔ اس لئے ایسے بزرگوں کی خطاؤں کی نشاندہی بھی ضرور کی جانی چاہیے تاکہ انھیں احساس ہوسکے کہ اب زمانہ بدل چکا ہے اور زمانے کی روش پر چل کر ہی باعزت زندگی گزاری جاسکتی ہے۔

2۔ پدرم سلطان بود، تُرا چہ؟ (میرا باپ بادشاہ تھا۔ تیرا باپ کیا ہے؟)

یہ فقرہ کم علمی اور شیخی بگھارنے والا ہے۔ یہ فقرہ وہ لوگ استعمال کرتے ہیں، جو اپنی برتری، بڑائی اور فضیلت بہ زبان خود بیان کرنا چاہتے ہیں۔ گویا آبا واجداد کے کارناموں پر خود اپنی نام نہاد کامیابی کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں۔ سیاق و سباق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ثقہ اور سنجیدہ حلقوں میں ایسی شیخی کا اظہار مستحسن شمار نہیں کیا جاتا ہے، کیونکہ انسان کی فضیلت و برتری کا شمار اس کی اپنی حصولیابیوں کی وجہ سے ہوتا ہے نہ کہ آبا و اجداد کی عزت و عظمت کے حوالے سے۔

3۔ گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل (اگر بولوں تو مشکل اور نہ بولوں تو بھی مشکل ہے )

کبھی ایسی حالت پیدا ہوجاتی ہے کہ انسان کو خاموش رہنے اور بولنے دونوں صورتوں میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر اس مصرعے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ مصرع مرزا غالب کے ایک قطعہ سے اخذ کردہ ہے۔ اس مصرعے کا ایسے وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کوئی شخص یہ محسوس کرے کہ اگر وہ اپنی صفائی میں کسی مسئلہ کی صراحت کے سلسلے میں کچھ بولتا ہے تو اس کی کوئی نہیں سنتا ہے اور اگر وہ خاموش رہتا ہے تو بھی اسے مورد الزام قرار دیا جاتا ہے۔ اس مصرعے کے وجود میں آنے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ مرزا غالب نے جب شاعری شروع کی تو ابتدائی دور میں بہت مشکل اشعار کہا کرتے تھے، جو بیشتر لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہوتے تھے۔ غالب کی اسی مشکل پسندی پر ایک مشہور مقامی شاعر آغا جان عیشؔ نے یہ قطعہ موزوں کردیا۔

اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے
مزا کہنے کا جب ہے، اک کہے اور دوسرا سمجھے

کلامِ میر سمجھے اور زبانِ میرزا سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے

آغا جان عیش کے اس قطعہ کے جواب میں مرزا غالب نے درج ذیل رباعی کہی، جس کا ایک مصرعہ جو فارسی میں تھا، ضرب المثل کی حیثیت اختیار گرگیا۔ ملاحظہ کیجئے غالب کی عیشؔ کے جواب میں کہی گئی یہ رباعی:۔

مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل!
سن سن کے اسے سخنورانِ کامل

آسان کہنے کی کرتے ہیں فرمائش
گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل

غالب کا یہ مصرع عوام کے درمیان غلط طور پر ”گویا مشکل نہ گویا مشکل“ مستعمل ہوچکا ہے۔

4۔ من تُرا حاجی بگویم تو مُرا ملا بگو (میں تجھے حاجی کہتا ہوں اور تو مجھ کو ملا کہہ)

یہ محاورہ عام طور پر ”من تیرا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو“ کے طور پر مشہور ہے، لیکن ”حاجی بگو“ کی بجائے ”ملاّ بگو“ درست ہے۔ اکثر و بیشتر یہ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ آپس میں گٹھ جوڑ کرلیتے ہیں۔ ایک دوسرے کی تعریف کرکے لوگوں پر اپنی نام نہاد برتری ثابت کرنے کوشش کرتے رہتے ہیں۔ آج کل ادب میں یہ طریقہ عام ہوگیا ہے۔ ایک ادیب دوسرے ادیب کی تعریف کرتا ہے اور دوسرا ادیب اس کی شان میں قصیدے پڑھتا ہے جو اس کی تعریف کرتا ہے۔ عام طور پر کتابوں کے تبصرے کے معاملے میں یہ عام سی بات ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ مقولہ ان کے اس کم باسواد باہمی معاہدہ کی جانب ایک بلیغ اشارہ ہے، جو ایک دوسرے کے قصیدے پڑھنے کے لئے پابند عہد ہوتے ہیں، حالانکہ یہ صحت مند روش نہیں ہے۔

5۔ من آنم کہ من دانم (میں جو کچھ ہوں وہ میں خود ہی اچھی طرح جانتا ہوں )

یہ مقولہ اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کسی شخص کی تعریف کی جائے لیکن وہ خود کو اس کا مستحق نہ سمجھتا ہو۔ ایسے موقع پر وہ شخص (جس کی تعریف کی جاتی ہے ) کہتا ہے کہ آپ کی تعریف بصد شوق قبول ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں اس تعریف کا مستحق نہیں ہوں۔ میں اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہوں کہ میں کتنے پانی میں ہوں۔ وہ انسان جو حقیقت پسند ہوتا ہے وہی یہ مقولہ استعمال کرتا ہے ورنہ بیشتر لوگ تو اپنی جھوٹی تعریف بھی سن کر پھولے نہیں سماتے ہیں اور تعریف کرنے والے کو دل ہی دل میں دعا بھی دیتے ہیں۔ کیونکہ اپنی تعریف ہر شخص کو بھلی معلوم ہوتی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4