اردو میں مستعمل فارسی ضرب الامثال


6۔ آوازِ سگاں کم نہ کنُد رزقِ گدارا (کتوں کے بھونکنے سے فقیروں کا رزق کم نہیں ہوجاتا ہے )

جب کسی فقیر کو دیکھ کر کتیّ بھونکتے ہیں، تو کتوں کے بھونکنے سے ایسا نہیں ہوتا ہے کہ اسے بھیک نہیں ملتی ہے۔ حالانکہ فقیر نے ان کتوں کا کچھ بھی بگاڑا نہیں ہوتا ہے، اس کے باوجود وہ اپنی خصلت سے مجبور ہوتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جب کسی شخص کی برائی کی جائے اور اس شخص کو خواہ مخواہ لوگوں میں بدنام کرنے اور اسے رسوا کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ اپنی برائی کرنے والے شخص سے کہتا ہے کہ ایسی بے بنیاد باتوں سے میری صحت پر کوئی اثر نہیں واقع ہوسکتا ہے۔

جس طرح کتوں کے بھونکنے سے فقیر کا رزق کم نہیں ہوتا اسی طرح تمہاری بیہودہ اور بے بنیاد باتوں سے میرے رتبہ و مقام پر کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ سنجیدہ اور شریف لوگوں کے حلقوں میں یہ فقرہ اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی شخص کو کتے سے تشبیہ دینا کوئی اچھی بات نہیں، لیکن یہاں استعارۃً اس لفظ کا استعمال ہوا ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ رجحان عام طور پر پایا جاتا ہے کہ کسی باعزت اور شریف انسان کو کسی ذاتی دشمنی کے باعث غلط الزام تراشی کے ذریعے بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن خدا جسے عزت دینا چاہے انسان اسے لاکھ کوششوں کے باوجود بھی ذلیل نہیں کرسکتا ہے، کیونکہ عزت و ذلت خدا کے دست قدرت میں ہوتی ہے۔

7۔ ہنوز دلی دور است (ابھی دلی دور ہے )

یہ فقرہ اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کسی کام کو مکمل ہونے میں دیر ہو اور کوئی شخص اس بات پر بضد ہو کہ کام تو پورا ہوگیا، اب انتظار کس چیز کا ہے؟ اس محاورے کے پیچھے ایک تاریخی واقعہ پوشیدہ ہے جس کا یہاں ذکر طوالت سے خالی نہ ہوگا۔ المختصر یہ کہ جب کسی مقصد کے حصول میں تاخیر ہورہی ہو اور سامنے والا شخص اس کام کو مکمل کرنے کی ضد کرے یا اسے محسوس ہو کہ اب کام تو مکمل ہوگیا، لیکن کام کرنے والا اس کام کی نزاکتوں سے واقف ہوتا ہے۔

اسے اس کام کی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے تو وہ اس شخص سے جو کام کی تکمیل کے احساس سے سرشار ہوتا ہے، کہتا ہے کہ ”ہنوز دلی دور است“۔ (7) خود کردہ را علاجے نیست (اپنے کیے کا کوئی علاج نہیں ) اردو میں اسی سے ملتا جلتا ایک محاورہ رائج ہے کہ ”کمان سے نکلا تیر اور زبان سے نکلی بات واپس نہیں آتے ہیں“۔ اسے دوسرے لفظوں میں محاورۃً یہ کہا جاتا ہے کہ اپنے پیر پر کلہاڑی خود مارنا۔ ظاہر ہے ایسے شخص کا کیا علاج ہوسکتا ہے جو اپنا بھلا بُرا خود ہی نہیں سمجھتا۔ جس شخص کو ایسی بات یا کام کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی ہو جس میں سراسر اسی کا نقصان ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر ہی یہ محاورہ استعمال کیا جاتا ہے۔

8۔ کنُد ہم جنس باہم جنس پرواز (ایک ہم جنس پرندہ اپنے ہم جنس کے ساتھ پرواز کرتا ہے )

دراصل یہ ایک شعر کا پہلا مصرعہ ہے جو ضرب المثل کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ وہ شعر یوں ہے

کند ہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر، باز با باز

یہ شعر انسان کی فطرت کی جانب اشارہ کرتا ہے، کیونکہ معاشرے کا ہر شخص اپنے ہم مسلک، ہم خیال، ہم مزاج اور ہم زبان لوگوں کو تلاش کرتا ہے اور انہی لوگوں کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔ ان کی ہم نشینی اسے پسند آتی ہے اور وہ دوسروں کی بہ نسبت ہم زبان و ہم خیال لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، گفتگو کرنا، رسم و راہ رکھنا زیادہ بہتر تصور کرتا ہے۔ شاعر نے پرندوں کی نفسیات کو پیش کرتے ہوئے اپنے اس شعر میں انسانی فطرت کی جانب اشارہ کیا ہے۔ کبوتر جب پرواز کرتا ہے تو دوسرے کبوتروں کی معیت میں رہتا ہے اور اسی طرح باز (پرندہ) بھی اپنے ہم جنسوں کی صحبت میں رہتا ہے اور انھیں کے ساتھ اڑنا پسند کرتا ہے۔ ٹھیک یہی حال کارخانۂ قدرت میں ہر بشر کا ہے کہ وہ بھی اسی صفت سے متصف ہوتا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے ”کند ہم جنس باہم جنس پرواز“

9۔ عقل مند را اشارا کافیست (عقل مند کو ایک اشارہ کافی ہوتا ہے )

اس مقولہ کا مطلب ایک عام انسان بھی بخوبی سمجھ سکتا ہے، جو تھوڑی بہت بھی اردو جانتا ہو۔ احمق انسان کو ایک ہی بات بار بار سمجھانی پڑتی ہے، جبکہ عقلمند شخص آنکھ کے اشارے سے ہی بہت سی باتیں سمجھ لیتا ہے۔ کچھ اسی طرح کا ایک اور فارسی مقولہ بہت مشہور ہے ”ہرچہ دانا کند، کند ناداں لیک بعد از خراب ئی بسیار“ یعنی جو کام ایک عقلمند آدمی کرتا ہے وہی کام ایک نادان انسان بھی کرتا ہے، لیکن کافی نقصان اٹھانے اور سخت تکلیف برداشت کرنے کے بعد۔ اس لئے یہ مثل بھی مشہور ہے کہ ”نادان کو الٹا بھی تو نادان ہی رہا“۔

10۔ دروغ گو را حافظہ نباشد (جھوٹ بولنے والے شخص کا حافظہ نہیں ہوا کرتا ہے )

ایک جھوٹے شخص کی فطرت ہوتی ہے کہ اسے یہ یاد نہیں رہتا ہے کہ اس نے کس سے کیا کہا تھا اور کب کہا تھا۔ کیونکہ وہ تو ہر وقت جھوٹ ہی بولتا رہتا ہے۔ اگر سچ بات بولے گا تبھی تو اسے وہ بات یاد رہے گی۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ شخص ایک آدمی سے کچھ کہتا ہے اور دوسرے سے کچھ اور۔ عام طور پر یہ عمل غیر دانستہ ہوتا ہے، کیونکہ اس کی یادداشت اس کا ساتھ نہیں دیتی ہے۔ لیکن اکثر و بیشتر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک جھوٹ کو ثابت کرنے کے لئے مزید جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔

اس کے باوجود اس کا جھوٹ، سچ ثابت نہیں ہوپاتا ہے، لیکن سچ بات بولنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ حق گو کو کچھ اور یاد رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ دروغ گوئی کی عادت کوموجودہ معاشرے میں عیب نہیں بلکہ ہنر تصور کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دروغ گو افراد کی سماج میں کثرت پائی جاتی ہے، کیونکہ اخلاقی اقدار اب مٹنے لگی ہیں، لیکن ”دروغ مصلحت آمیز بہ راستی فتنہ انگیز“ کی گنجائش رہتی ہے۔

11۔ ہم خُرمہ و ہم ثواب (خُرمے الگ ہاتھ آئے اور ثواب الگ ملے )

عام طور پر مذہبی محفلوں میں تقریب کے اختتام پر تبرک تقسیم کیے جاتے ہیں، جس کا مقصد حصول ثواب ہوتا ہے، اس فقرے کا مفہوم یہ ہے کہ یہ عمل بھی خوب ہے کہ ثواب بھی ملا اور کھانے کے لئے خُرمے بھی ہاتھ آئے۔ اردو میں ایک مقولہ مشہور ہے کہ ”آم کے آم گٹھلیوں کے دام“ اور یہ مقولہ مذکورہ فارسی مثل کی بہترین تشریح ہے۔ اس لئے عقلمند افراد ایسے کاموں میں کبھی پیچھے نہیں رہتے ہیں، جس میں ثواب کے ساتھ ساتھ مادی منفعت بھی ہو۔ ایسے متعدد فارسی محاورے، مقولے، ضرب الامثال اردو میں عام طور پر مستعمل ہیں، جن کا استعمال ناگزیر ہوتا ہے کیونکہ دوسرے جملے ان مفاہیم کو پوری طرح ادا نہیں کرپاتے، جو فارسی مقولے یا محاورے ادا کرتے ہیں۔

12۔ آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہاداری (جو بات ساری دنیا کے حسینوں میں ہے وہ تمہارے ذات واحد میں موجود ہے ) ۔

یہ مقولہ کسی شخص کی تعریف و تحسین کے لئے مبالغہ آرائی کا سہارا لیتے ہوئے استعمال کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ساری دنیا ایک طرف اور آپ ایک طرف۔ یعنی ساری دنیا کے مقابلے میں آپ کی تنہا ذات پیش کی جاسکتی ہے۔ آپ اپنی خصوصیات و اوصاف میں بے مثال ہیں۔ آپ کا کسی اور سے کیا مقابلہ ہوسکتا ہے لیکن اس مقولے میں مبالغہ کا عنصر واضح طور پر نظر آتا ہے جو بعید از حقیقت نظر آتا ہے۔

13۔ سپردم بتومایۂ خویش را۔ تو دانی حساب کم و بیش را (میں نے اپنی زندگی کا پورا سرمایہ آپ کے حوالے کردیا ہے۔ اب آپ ہی کمی بیشی کا حساب جانتے ہیں کہ حق ادا ہوا کہ نہیں )

بعض دفعہ پورا شعرہی ضرب المثل کی شکل اختیار کرلیتا ہے، جس کی مثال یہ شعر ہے۔ جب کوئی فنکار یا تخلیق کار اپنی پوری صلاحیت کا استعمال کرکے کوئی شاہکار پیش کرتا ہے اور وہ لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہوئے اپنی فروتنی اور خاکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں نے حتی المقدور کوشش کرکے اپنی تخلیق (کتاب یا ادبی نگارش) آپ کے سامنے پیش کی ہے۔

اب آپ ہی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ میں اپنی کوشش میں کس حد تک کامیاب ہوپایا ہوں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4