اردو میں مستعمل فارسی ضرب الامثال


23۔ بزرگی بہ عقل است نہ بسال (بزرگی عقل سے ہوتی ہے عمر سے نہیں )

یہ شیخ سعدی شیرازی کے ایک شعر کا مصرع ہے۔ پورا شعرا اس طرح ہے۔ تونگری بہ دل است نہ بمال۔ بزرگی بہ عقل است نہ بسال۔ یعنی مالداری دل سے ہوتی ہے مال سے نہیں اور بزرگی عقل سے ہوتی ہے عمر رسیدگی کی وجہ سے نہیں۔ اکثر مالداروں کے پاس دل نہیں ہوتا ہے جبکہ اکثر دلدار لوگوں کے پاس دولت نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے اگر کوئی چھوٹا یا کم عمر انسان عقل کی بات کہے تو اس کی عمر کی کمسنی کی وجہ سے اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس میں اگر وزن ہو تو اسے قبول کرنا چاہیے کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ جس کی عمر زیادہ ہو وہ عقلمند بھی ہو کیونکہ عقل کا تعلق عمر سے نہیں ہوتا ہے۔ کوئی بھی شخص عقلمند ہوسکتا ہے اس کے لئے کمسنی یا عمر رسیدگی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے۔

24۔ ہر کمالے را زوالے (انتہائی ترقی کے بعد زوال شروع ہوتا ہے ) ۔

اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ انسان جب بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے تو وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ جس بلندی پر بیٹھا ہے، وہ وقتی ہے۔ اس کے بعد تنزلی اس کے مقدر میں آنے والی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا ہے۔ اپنے علاوہ دوسروں کو کمتر اور حقیر تصور کرتا ہے۔ کسی کی بات آسانی سے نہیں سنتا ہے جبکہ اسے اپنی ترقی کی ناپائیداری پر توجہ دینی چاہیے۔ ایسے ہی شخص کو اس کی اصل اوقات بتانے کے لئے کہا جاتا ہے ”ہر کمالے راز والے“۔

25۔ ایں سعادت بزورِ بازو نیست (یہ سعادت بازو کی قوت کی وجہ سے نہیں ہے )

یہ مصرع اس شعر کا پہلا مصرع ہے۔ ایں سعادت بزور بازو نیست۔ تانہ بخشد خدائے بخشندہ۔ جب تک عطا کرنے والا خدا کسی کو کوئی مرتبہ، صلاحیت اور عزت نہ عطا کرے کسی شخص کے بازو کی طاقت سے وہ رتبہ یا وہ صلاحیت و عزت حاصل نہیں ہوتی ہے۔ اکثر و بیشتر لوگ اس شعر کا استعمال خدا کی بزرگی اور اپنی خاکساری کا اظہار کرنے کے لئے لکھتے ہیں کہ میں نے جو کچھ بھی پیش کیا ہے اس میں اللہ کی مدد اور اس کی ودیعت کردہ صلاحیت کا ہی عمل دخل ہے۔ اس میں میرا کچھ بھی حصہ نہیں ہے۔

26۔ گرُبہ کشتن روز اول (بلی کو پہلے ہی دن مارنا بہتر ہوتا ہے )

یعنی رعب پہلے ہی دن بیٹھتا ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ انسان کسی پر رعب ڈالنا چاہے تو پہلے ہی دن اس کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ورنہ وہ شخص اگلے انسان کی نفسیات سے آگاہ ہوجائے گا اور بعد میں وہ لاکھ اس پر دھونس جمانا چاہے، اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ عام طور پر لوگ نوجوانوں کو یہی مشورہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں جب اس کی شادی ہو تو روز اول ہی اگر آپ نے اپنی بیوی پر رعب نہیں جمایا تو بعد میں آپ اپنی بیوی پر رعب نہیں بٹھاسکتے۔ کیونکہ پہلا تاثر ہی آخر دم تک اپنا اثر قائم رکھتا ہے۔

27۔ جائے استاد خالیست (استاد کی جگہ ہمیشہ خالی رہتی ہے )

شاگرد چاہے جتنی بھی ترقی کرجائے۔ آگے بڑھ جائے۔ علم و فضل کا مالک بن جائے، لیکن اس کے باوجود استاد اس موقف میں رہتا ہے کہ اسے کچھ نہ کچھ سکھائے۔ یعنی شاگرد کتنا بھی آگے بڑھ جائے وہ استادکا مقابلہ نہیں کرسکتا ہے اور اسے کرنا بھی نہیں چاہیے۔ کیونکہ استاد کی وجہ سے ہی اسے وہ عزت و منزلت اور رتبہ حاصل ہوتا ہے جس کی اسے توقع تک نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ ”جائے استاد خالیست“۔

28۔ صدر ہر جا کہ نشیند صدراست (صدر جہاں بھی بیٹھ جائے وہ صدر ہی ہوتا ہے ) ۔

یعنی بزرگ، حاکم یا کوئی بڑا آدمی، جہاں بھی بیٹھ جائے وہی جگہ معزز سمجھی جاتی ہے۔ صدر کے لئے ضروری نہیں کہ وہ اسٹیج پر ہی بیٹھے تو اسے صدر کہا جائے گا بلکہ وہ عام سامعین میں بھی بیٹھے تو وہ صدر ہی کہلاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بزرگ شخصیت کا حامل کوئی بھی انسان چاہے، جہاں بھی رہے اس کا مقام کسی اچھی یا بری جگہ کی وجہ سے کم نہیں ہوتا ہے وہ ہر جگہ معزز ہی تصور کیا جاتا ہے۔

29۔ شنیدہ کیَ بود مانند دیدہ (سنا ہوا کب دیکھے ہوئے کے برابر ہوسکتا ہے )

یعنی سنی ہوئی بات کی کوئی وقعت نہیں ہوتی ہے جب تک اس بات کی حقیقت کے متعلق خود مشاہدہ نہ کیا جائے۔ کسی واقعے کے بارے میں کوئی شخص اپنی طرف سے بڑھا چڑھا کر کچھ بھی بول سکتا ہے، لیکن جب آپ اس واقعے کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کریں تو آپ کو حقیقت کا علم ہوجاتا ہے اور پوری سچائی سامنے آجاتی ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ سنی ہوئی باتوں پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے جب تک اس کی پوری تحقیق نہ ہوجائے۔

30۔ تامرد سخن نگفتہ باشد۔ عیب و ہنرش نہفتہ باشد (جب تک کوئی شخص کچھ کہنے کے لئے اپنی زبان نہیں کھولتا، اس کے عیب و ہنر اس وقت تک پوشیدہ رہتے ہیں )

عام طور پر کسی خاموش مزاج انسان کے تئیں غلط رائے قائم کرلی جاتی ہے، لیکن جب وہ بولتا ہے تو اس کی صلاحیت، اس کا نظریہ، اس کی فکر اور اس کی علمی وسعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس لئے کسی بھی شخص کے بارے میں اس وقت تک کوئی رائے قائم نہیں کرنی چاہیے جب تک وہ خاموش رہے۔ کیونکہ آپ اس کی خوبیوں اور خامیوں سے اس وقت تک واقف نہیں ہوتے جب تک وہ اپنی زبان نہیں کھولتا ہے۔ کبھی کبھی لوگ اپنی کم علمی چھپانے کے لئے بھی خاموش رہتے ہیں، اور کبھی مصلحتاً بھی بعض افراد خاموشی اختیار کیے ہوئے ہوتے ہیں۔

کیونکہ محفل میں ہر شخص بولنے کی ہمت نہیں کرتا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جب کسی کے بارے میں جاننا چاہو تو اس کے بارے میں دوسروں سے مت پوچھو بلکہ اس سے خود گفتگو کرو، پھر اس کے عیب و ہنر، اس کی علمیت اور اس کی فکری بصیرت سامنے آجائے گی۔ جو لوگ کسی کے خیالات جانے بغیر اس کے بارے میں غلط رائے قائم کرلیتے ہیں تو تجربہ کار افراد کہتے ہیں کہ تامرد سخن نگفتہ باشد۔ عیب و ہنرش نہفتہ باشد

31۔ داشتہ آید بکار۔ گرچہ باشد سرِمار (رکھی ہوئی چیز کبھی نہ کبھی کام آتی ہے چاہے وہ سانپ کا سر ہی کیوں نہ ہو)

وہ لوگ جو معمولی اور وقتی طور پر بے مصرف سمجھ کر کسی چیز کو پھینک دیتے ہیں، لیکن ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ انھیں احساس ہوتا ہے کہ جو چیز میں نے فلاں وقت اور فلاں جگہ پھینک دی تھی، وہ اس وقت ہوتی تو میرے کام آتی۔ اس لئے کسی بھی معمولی چیز کو بھی حفاظت سے رکھنی چاہیے۔ نہ جانے کب اس کی ضرورت پڑجائے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ داشتہ آید بکار، گرچہ باشد سرِمار۔ یعنی رکھی ہوئی چیز کبھی نہ کبھی ضرور کام آجاتی ہے بھلے ہی کسی سانپ کا سر ہی کیوں نہ ہو۔ وہ بھی ایک دن کام آجاتا ہے۔

فارسی کے مذکورہ مقولے، محاورے، اقوال، اشعار، مصرعے اور ضرب الامثال ایسی معنویت لئے ہوئے ہیں جن کے نعم البدل اردو میں موجود نہیں ہیں اس لئے تحریر و تقریر میں ان مقولوں کی معنویت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اس میں تجربے کی ایک دنیا پوشیدہ ہوتی ہے جو حقائق پر مبنی ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4