عطا آباد جھیل میں اپنے جوانوں کو بچاتے ہوئے شہید ہونے والے کرنل عارف


سفر ہے شرط پروگرام کی ریکارڈنگ کے لیے کرنل عارف نے ہمیں بریفنگ دینی تھی۔ ہم گلگت پہنچے اور رات 8 بجے کرنل عارف اپنے لیپ ٹاپ کے ہمراہ تشریف لائے۔ مجھے بعد میں علم ہوا کہ ان کا تعلق چکوال سے تھا لیکن ان سے ملاقات کے ابتدائی لمحات میں ہی اندازہ ہو گیا کہ ان کا تعلق اسی خطے سے ہو گا۔ اصل میں کوئی بندہ انفنٹری کا ہو اور اس کا تعلق چکوال، تلہ گنگ، اٹک یا میانوالی سے ہو تو اپنے پس منظر کی وجہ سے دو کلومیٹر دور سے پہچان لیتا ہوں۔

رات 11 بجے تک کرنل صاحب لیپ ٹاپ سے تصاویر اور نقشے دکھاتے رہے۔ صبح ہم نے 6 بجے عطاآباد جھیل کے سپل وے پر جانا تھا۔ سائیٹ پر دوبارہ بریفنگ ہوئی جس میں کافی معلومات ملیں۔ عطاآباد جھیل کا ملبہ شروع میں ایک آفت زدہ علاقہ تھا۔ کچھ معلوم نہیں تھا کہ کیا یہ ملبہ 30 کلومیٹر طویل جھیل کے پانی کے دباؤ کو برداشت کر پائے گا یا نہیں؟ معلومات دیں گئیں کہ سالانہ 10 میٹر کے حساب سے پانی کے اخراج والی جگہ پر بلاسٹنگ کرکے سپل وے کو گہرا اور چوڑا کیا جائے گا۔

3 سال بعد 30 میٹر کی گہرائی تک پہنچیں گے جو تقریبا دریا کی سطح ہے۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ دوسرے ممالک کی کچھ تجاویز اس لیے رد کی گئیں کیونکہ وہ یہ سب ہیوی بلاسٹنگ سے کرنا چاہتے تھے۔ اس صورت میں کامیابی اور ناکامی کی شرح پچاس پچاس فیصد رہ جاتی ہے۔ ناکامی اس صورت میں ہو سکتی ہے کہ آس پاس کے رکوع میں گئے پہاڑ بھاری بلاسٹنگ سے مزید نیچے آ سکتے ہیں۔ اگر مزید پہاڑ نیچے آتا ہے تو پھر یہ سب مکمل ناممکن ہو جائے گا جبکہ ایف ڈبلیو او کنٹرولڈ بلاسٹنگ کر کے بتدریج کھولنا چاہ رہی تھی۔ بریفنگ میں گرانقدر معلومات اور پکوڑوں کے بعد سپل وے کی جانب سفر شروع ہوا۔

راستے میں کرنل عارف وہ بولڈرز یعنی بہت ہی بڑے پتھر دکھاتے رہے جو ملبے کا حصہ تھے۔ ایک جگہ انہوں نے بتایا کہ یہاں کی مٹی کی کیمیائی ساخت ایسی ہے کہ جب اس پر پانی لگتا ہے تو یہ سیمنٹ بن جاتی ہے۔ ایک جگہ انہوں نے بوٹ سے ایسی مٹی کا تودہ توڑنے کی کوشش کی کو جو نہ ٹوٹا۔ پھر انہوں نے اس پر ایک دو وزنی پتھر مارے وہ پھر بھی نہ ٹوٹا۔ کچھ جونئیر افسران اور سپاہی مدد کے لیے آ گے بڑھے لیکن کرنل عارف نے رکنے کا اشارہ کیا۔ یہ فوجی تربیت کا نتیجہ تھا۔ (اس واقعہ کو ذہن میں رکھیے گا کیونکہ اس واقعہ کی نفسیاتی کیفیت سے ان کی شہادت کا واقعہ سمجھنے میں مدد ملے گی)

میں نے کیمرہ مین کو اشارہ کیا کہ ریکارڈنگ بند کر دے کیونکہ ٹیپ ضائع ہو رہی ہے۔ کرنل عارف اس وقت تک لگے رہے جب تک کہ وہ تودہ ٹوٹ نہیں گیا۔ پورا دن ان کے ساتھ ریکارڈنگ کے بعد شام کو عطا آباد کیمپ آئے جہاں کچھ سپاہیوں کی پروموشن کی تقریب ہوئی۔ یہ سب کچھ ”سفر ہے شرط“ پروگرام میں دکھایا گیا۔

ہم واپس لاہور آ گئے۔ پروگرام کی پہلی پانچ قسطیں معمول کے مطابق آن ائیر ہوئیں۔ اس دوران کرنل عارف سے کئی دفعہ بات بھی ہوئی۔ ان کو اداکاری کرنے کا شوق تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد میڈیا میں کام کرنا چاہتے تھے۔ ہر انسان چاہے وہ جس شعبہ میں بھی چلا جائے بہرحال آرٹ کے ساتھ ایک رشتہ رہتا ہے۔ وہ کچھ نہ کچھ ایسے تخلیقی جوہر دکھانا چاہتا ہے جو ہٹ کر ہوں اور اس کی انفرادیت پر مہر ثبت کریں۔ ایک دن آفس میں ہی بیٹھے تھے کہ ٹی وی ٹکرز سرخ ہوئے اور خبر آئی کہ عطا آباد جھیل پر کرنل عارف اپنے جونئیر فوجی ساتھیوں کو بچاتے ہوئے شہید ہو گئے۔ ہم سب کو جب ان کی شہادت کی درست اور تفصیلی جوہات کا علم ہوا تو جیسے سب کو یقین آ گیا کہ جس کرنل عارف کو ہم جانتے تھے ان سے یہ اقدام بالکل بھی بعید نہیں تھا۔

ہوا یہ کہ سپل وے کے پانی کو عبور کر کے ایک مشین کام کر رہی تھی۔ جھیل کی وسعت سے اندازہ لگائیں کہ اس کا سپل وے کس قدر خطرناک اور اس کے پانی کس قدر زور آور ہو ں گے۔ مشین جب واپس اس سائیڈ پر آ رہی تھی تو درمیان میں پھنس گئی۔ ذرا چشم تصور میں منظر لائیے کہ مشین کا بیشتر حصہ زور آور پانیوں میں ڈوبا ہوا ہے اور اس کے اوپر جو جگہ بچی ہے اس پر تین یا چار فوجی پناہ لیے ہوئے ہیں۔ کسی لمحے کی خبر نہیں۔ معلوم نہیں اس لمحے مشین جاتی ہے یا اگلے لمحے۔

اور اگر مشین جاتی ہے تو بچنے کا امکان صفر ہے۔ شام ہوئی۔ رات ہوئی لیکن مشین سے بندے نہ نکالے جا سکے۔ کرنل عارف فورا گلگت سے سائٹ پر پہنچ گئے۔ پوری رات پانیوں کا شدید شور تھا اور مشین کے اوپر یقینی بے یقینی کی کیفیت میں فوجی تھے۔ ہیلی کاپٹر سے ریسکیو کیا جا سکتا تھا لیکن موسم کی خرابی کی وجہ سے ہیلی آ نہیں سکتا تھا۔ رات کرنل عارف اور دیگر ساتھیوں کی سپل وے کنارے پر جاگتے گزری۔ کرنل عارف ان کو چیخ چیخ کر یقین دلاتے رہے کہ صرف ایک بار صبح کا اجالا ہوجانے دو میں خود تمہارے ساتھ مشین پر آ کر کھڑا ہو جاؤں گا اور تم لوگوں کے ساتھ مل کر ہیلی کاپٹر کے آنے کا انتظار کروں گا۔

صبح کا اجالا ہونا شروع ہی ہوا تھا کہ مشین کے ساتھ رسا باندھا گیا۔ کرنل عارف نے رسے سے لٹک کر مشین کی جانب جانا شروع کیا۔ آدھے میں تھے کہ گر گئے اور پھر وہ طوفانی زور آور پانی چشم زدن میں کرنل عارف کو لے گئے۔

جب سفر ہے شرط پروگرام کی اگلی قسط آن ائیر ہوئی تو اس میں کرنل عارف کہہ رہے تھے۔
ہم روزانہ نماز اور تلاوت کر کے سائٹ پراس خیال کے ساتھ آتے ہیں کہ شاید واپس جا سکیں یا شاید آج کا دن شہادت کا دن ہو۔
اب جب بھی گلگت سے گزرتا ہوں تو جوٹیال میں ایک فوجی سیٹ اپ کے گیٹ پر نگاہ کرتا ہوں جس پر بڑا بڑا لکھا ہے۔ کرنل عارف شہید گیٹ!

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik