کھانے کا زیاں اور عالمی بھوک


” اگر ان کے پاس روٹی نہیں ہے تو یہ کیک کیوں نہیں کھاتے؟ “ یہ تاریخی جملہ فرانس کی ملکہ میری انتونیئت سے منسوب ہے جو کہ اس نے محل کے باہر بھوک سے بلبلاتے اور روٹی کا نعرہ لگاتے مجمع کو دیکھ کر حیرانی اور معصومیت سے ادا کیا۔ لگتا یہ ہے کہ جدید ٹیکنیک سے لیس یہ دنیا آج بھی ایسے ہی دوانتہائی مختلف دھڑوں میں تقسیم ہے۔ بھوک اور فاقہ مستی سے بدحال سسک سسک کر جیتا طبقہ تو دوسرا وہ عیش و عشرت کی دنیا میں مست کھانے کے زیاں کے جرم کا مسلسل مرتکب ہوتا طبقہ۔

بھوک غربت کی کوکھ میں پروان چڑھتی ہے اور کتنی ہی انسانی جانوں کو لقمہِ اجل بنا لیتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بھوک اور کھانے کا بے دریغ اصراف ہم پیالہ و ہم نوالہ ہیں۔ اگر دنیا سے ٹنوں کے حساب سے ضائع ہونے والا کھانا ضائع ہونے سے بچا لیا جائے اور پیداواری غذا کی منصفانہ تقسیم ہو تو دنیا جرائم سے پاک اور صلح و آشتی کی جگہ بن جائے۔ تاہم یہ بات سیاسی دنگل کے ہاتھیوں کو نہیں بھاتی اور نہ ہی وہ اسے سمجھنا چاہتے ہیں۔ بلکہ وہ تو اس بحرانی کیفیت کو جاری رکھنے میں سنجیدہ ہیں۔ ان خود سر بے پہچان ہاتھیوں اور غذائی بحران سے نپٹنے کی محض ایک صورت ہے۔ وہ یہ کہ بھوک، غربت، معاشی نا انصافی اور اور کھانے کے زیاں کی کڑیوں کو جوڑ کر معاملہ نہ صرف سمجھا جائے بلکہ اس کا ممکنہ حل بھی تلاش کیا جائے۔

عالمی صحت کی تنظیم کے مطابق مئی 2018 میں دنیا میں 7.6 ارب لوگ بستے ہیں۔ جن میں سے لاکھوں افراد ہر شب بھوک کی چادر اوڑھ کر سونے پر مجبور ہیں۔ یونیسیف کے مطابق ناقص غذا اور بھوک کا سیلاب ہر روز پچیس ہزار افراد کو لقمہِ اجل بنا لیتا ہے۔ جبکہ موجودہ غذائی پیداوار بارہ ارب افراد کو غذائیت سے بھرپور کھانا فراہم کر سکتی ہے۔ لیکن کھانے کی ایک کثیر مقدار شکمِ انسانی کو بھرنے کی بجائے انسانی غفلت کے باعث کوڑے کا ڈھیر بن رہی ہے۔ اور اس کی وجہ سے ہونے والے غذائی بحران کو ”خاموش سونامی“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

ایک طرف یہ غافلانہ ضیاع اور دوسری جانب 2.1 ارب افراد کھانے کی زیادتی کے سبب موٹاپے اور اس سے وابستہ بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ کہیں دنیا میں بھوک اور غربت کے سبب جنگیں اور فساد برپا ہے۔ تو کہیں ٹنوں کے حساب سے بغیر چھوئے کھاناپھینکا جا رہا ہے۔ مثلا برطانیہ میں 67 لاکھ ٹنز سالانہ 102 لاکھ پونڈز کی لاگت کا کھانا ضائع ہوتا ہے۔ تو امریکہ میں سالانہ 350 ارب پونڈز کھانا مہیا ہوتا ہے۔ تو اس میں سے 100 ارب پونڈز ضائع ہو جاتا ہے۔ محض امریکی ریستورانوں میں 6000 ٹنز کا کھانا روزانہ پھینکا جاتا ہے۔

یہی نہیں ترقی پذیر ملکوں مثلا انڈیا میں بھی 580 ارب روپے کی لاگت کی کھانے کی مصنوعات سالانہ ضائع ہو جاتی ہیں۔ (منسٹری آف فوڈ پراسیسنگ) جس کے تحت اشیا کی مانگ میں اضافہ اور مصنوعی قلت پیدا ہو جاتی ہے۔

امریکہ میں بسنے کی وجہ سے یہاں کے تھرو اوے (Throw away) سماج کی ثقافت کا مظاہرہ آنکھوں دیکھا ہے۔ شادی، تھینکس گوینگ سے لے کر گریجویشن کی تقریبات دیکھ کر خوشی سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ پھر یہاں پہ رہنے والے پاکستانیوں کو روح کی غذا کی بجائے جسم کی غذا پہ بے دریغ خرچ کرتے دیکھ کر خوف سے جھرجھری آ جاتی ہے۔ یہ چاہے مجلس اور میلاد پہ تبرک کے نام پہ ہو یا ڈھولکیوں اور شادی بیاہ میں دکھاوے کی دوڑ میں اسراف۔ جہاں بیس تیس قسم کے لوازمات رکھنا معمولی بات ہو چکی ہے۔ چاہے اس کا انجام کوڑے کا ڈھیر ہی کیوں نہ ہو۔

امریکہ میں کھانے کے اسراف اور زیاں سے ہر گز یہ نہ سمجھا جائے کہ یہاں بھوک کی فصل کاشت نہیں ہوتی۔ دراصل امریکہ میں بھوک خاموش وبا کی صورت ہے جس کا چرچہ نہیں ہوتا۔ 2017 میں فیڈنگ امریکہ نیٹ ورک کے تحت امریکہ میں چار کروڑ افراد کو غربت کے سبب بھوک کا سامنا ہے۔ جن میں 1.2 کروڑ بچے اور پچاس لاکھ بوڑھے افراد ہیں۔

سوال یہ ہے کہ آخر کسی جگہ ہونے والی خوراک کے زیاں کا عالمی بھوک کے بحران سے کیا ربط ہے؟ بات یہ ہے کہ اس وقت دنیا سکڑ کر ”عالمی گاؤں“ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس کی وجہ سے دنیا کے ایک گوشہ میں ہونے والی تبدیلی کا اثر براہِ راست یا بالواسطہ دوسرے کونے میں ضرور ہوتا ہے۔ عالمگیر سطح پر تمام ممالک غذائی اشیاء مشترکہ منڈی سے خرید رہے ہیں۔ ہر ملک اپنی قوتِ خرید کے سبب ضرورت سے زیادہ خرید کر کثیر کھانے کو منڈی سے غائب کر دیتے ہیں۔

جو دراصل غریب اقوام کے منہ سے نوالہ چھیننے کے مترادف ہے۔ کیونکہ وہ مہنگائی کے سبب کھانا خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اور یوں عالمی منڈی میں کھانے کی قلت اور دام میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ مکئی، گیہوں، چاول اور تیل کی بڑھتی قیمتوں سے عالمی منڈی میں بے چینی کی فضا ہے۔ اور مزید کروڑوں افراد غربت کی متعین سطح پہ آن پہنچے ہیں۔

معاشیات کے نوبل انعام یافتہ امریتا سن نے قحطِ بنگال کو اپنی کیس اسٹڈی بناتے ہوئے غذائی بحران کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے کہ جب تین سال کے عرصے میں ( 1942۔ 45 ) تیس لاکھ افراد اس وقت موت کے منہ میں دھکیل دیے گئے کہ جب بنگال کی شہری معیشت اپنے بام پر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دیہات میں کھانے کے دام آسمان سے باتیں کرنے لگے۔ غریبوں کا روٹی خریدنا ناممکن ہو گیا۔ حالانکہ ٹنوں کے حساب سے غلہ ملک سے باہر زیادہ داموں کے عوض فروخت ہو رہا تھا۔

وہ زمانہ ہندوستان میں برطانیہ کی تاراجی کا تھا۔ بغیر جمہوری طاقت کے ملک چلانے والے حکمرانوں کی سماعتوں کو غریبوں کی آہ و بکا نہ چونکا سکی۔ امرتیا سن کے قانون کے مطابق اگر حکومتیں صحیح معنوں میں جمہوری ہوں تو وہ عوام کی بنیادی صحت اور تعلیم کو سماجی ہدف بناتی ہیں۔ اور اس کو درپیش مسائل سے نبرد آزمائی کی ذمہ داری بھی لیتی ہیں۔ غذائی قلت قحط نہیں بن جاتی جبکہ غیر جمہوری حکومتوں میں حالات اس کے برعکس ہوتے ہیں۔ جیسا کہ بنگال میں ہوا۔

کھانے کے زیاں کا براہ راست اثر ماحولیاتی آلودگی پر بھی پڑتا ہے۔ وہ اس طرح کہ لینڈ فل (جہاں ہر جگہ سے کوڑا جمع ہوتا ہے ) میں 60 فیصد سے زیادہ غذا غیر استعمال شدہ ہوتی ہے۔ جس کے سڑنے سے میتھین جیسی گیس کا اخراج ہوتا ہے۔ جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مقابلے میں 23 گنا زیادہ زہریلی ہے۔ اس طرح کھانے کا زیاں نہ صرف غربت بلکہ فضاء اور ماحولیاتی آلودگی کا سبب بن کر ہماری نسلوں کو پانی کے قحط اور زہریلی فضا کا ورثہ بھی دے رہا ہے۔

کیا کیا جائے؟ یاد رکھیں کہ کھانے کی کمی قدرت کا مظہر نہیں بلکہ ہمارے آپ جیسے انسانوں کی حماقتوں کی دین ہے۔ لہذا ہم ہی صورتحال کو بہتر بھی بنا سکتے ہیں۔

چند تجاویز درج ذیل ہیں۔

1۔ کھانا کم مقدار میں تیار کیا جائے۔

2۔ اشیاء خریدنے کی منظم منصوبہ بندی لسٹ بنا کر کی جائے۔

3۔ کھانے کو محفوظ رکھنے کی صحیح معلومات ضروری ہیں۔ تاکہ بچا کھانا بعد میں استعمال ہو سکے۔

4۔ کھانا کھاتے وقت اپنی غذا کی مقدار کو دیکھیں اور پلیٹ صاف کر کے اٹھیں۔

5۔ اشیاء کی خریداری سے پہلے فریج اور پینٹری کو بھی دیکھ لیں۔

6۔ دعوتوں میں کھانوں کی تعداد کو محدود رکھیں۔

7۔ ریکوری گروپ کا پتہ اور فون نمبر رکھیں۔ تاکہ قابلِ استعمال نہ بکنے والے کھانے کو عطیہ کیا جا سکے۔

8۔ بچا کھانا پالتو جانوروں کو کھلایا جائے۔

9۔ بچوں کو تربیت دیں کہ اتنا ہی کھانا لیں جتنا کھا سکیں۔

افسوس کہ جدید تیکنیکی دور میں بھی بھوک کی افزائش کے ساتھ فربہی اور اس سے متعلقہ بیماریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ کھانے کے زیاں کے ساتھ انسانی جانوں کا بھوک کے سبب ضائع ہو جانا ناقابلِ تلافی المیہ ہے۔ جس کا تدارک ہماری آپ کی مشترکہ تدابیر اور عمل کا منتظر ہے۔ آئیے اس دنیا کو بہتر جگہ بنانے میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).