اوبر کے بارے میں جدید دنیا کی پریشانی


اوبر ایک ایسی ٹیکسی سروس ہے جس کی ملکیت میں کوئی بھی گاڑی نہیں ہے، عوام اس سروس کے ساتھ خود کو اپنی گاڑی سمیت منسلک کرتے ہیں اور روزگار کماتے ہیں۔ پاکستان میں بھی اس ہی سروس نے خاصی تبدیلی برپا کی۔ معاملات آسان ہوگئے۔ کچھ لوگ گھر بیٹھے گاڑی منگوانے لگے تو کچھ رزق کی تلاش میں گاڑی چلانے لگے۔ یہ دھندہ مگر جدت پر استوار تھا جس کے لیے موبائل فون اور سافٹ ویئر سے آشنا ہونا ضروری تھا۔ ہمارے دیس کے کام چور ٹیکسی ڈرائیور جو کرنا سکے لہذ آج کل کام نہ ہونے کے گلے شکوے کرتے پائے جاتے ہیں۔ ٹیکنالوجی نے انہیں بے رحمی سے کچلا اور آگے بڑھ گئی۔

یہاں تک تو معاملہ سادہ تھا۔ ہوا مگر یہ کہ بجلی سے چلنے والی گاڑیاں منظر عام پر آگئیں، یہ نہ صرف بجلی سے چلتی ہیں بلکہ خود کار بھی ہیں۔ ان کے لیے ڈرائیور کی ضرورت نہیں۔ آپ گاڑی میں سوار ہوں، اپنی منزل کا پتہ دیں اور پہنچ جائیں۔ آج تک ہوتا یہ تھا کہ اگر آپ گاڑی میں دفتر جارہے ہیں تو آٹھ گھنٹے تک گاڑی پارکنگ میں فضول کھڑی رہے گی۔ اس ہی طرح آپ جب بھی مصروف ہیں آپ کی کار بے کار ہے۔ کیونکہ اس کو چلانے کے لیے ڈرائیور درکار ہے۔

اب مگر گاڑیاں ایسی آگئی ہیں جو کہ سمجھدار ہیں، دماغ اور سمجھ بوجھ رکھتی ہیں، ان کو ڈرائیور کی ضرورت نہیں تو یہ بے کار بھی نہیں رہنا چاہیں گی۔ ہوگا کیا؟ گاڑی نے صاحب کو دفتر چھوڑا اور خود نکل پڑی اوبر یا پھر اس جیسی کسی دوسری سروس پر پیسے بنانے۔ جب صاحب دفتر سے فارغ ہوئے تو انہیں گھر چھوڑدیا۔ یا پھر اس سے ملتا جلتا کوئی بھی اور ماڈل! لہذا ڈرائیور حضرات بڑے پیمانے پر بے روزگار ہوجائیں گے۔ امیر مزید امیر ہوگا۔

یہ مثال محض گاڑیوں تک ہی محدود نہیں ہر شعبہ زندگی میں ربوٹ تبدیلی لائیں گے۔ بہت بے رحمی اور تیزی کے ساتھ انسانوں کی نوکریاں کھاجائیں گے۔ اگر کارخانوں میں مشینیں خود سے کام کریں گی وہ بھی انسانوں سے بہتر، ہوٹلوں میں ویٹرز کی جگہ مشینیں لے لیں گی، وغیرہ وغیرہ تو انسان کیا کرے گا؟ سیٹھ کے لیے تو مشین فائدہ مند ہے کہ تنخواہ لیتی ہے نہ چھٹی مانگتی ہے۔ انسان ان سب صورتوں میں کیا کرے گا؟ اس پر مغربی دنیا میں بحث جاری ہے۔

جیت ہمیشہ کی طرح سرمایہ کار کی ہوگی۔ جو ممالک یہ سب تبدیلیاں لائیں گے وہ آئندہ کے انسان کو زندہ رہنے پر بھی تیار کرلیں گے۔ یعنی جدید علوم اور ہنر وغیرہ کی طرف چلے جائیں گے۔ بہت سے ممالک تو اسکولوں میں کوڈنگ پڑھا بھی رہے ہیں کہ بچہ کالج پہنچنے تک ہی خود کفیل ہوچکا ہو۔ شاید بہت جلد موجودہ یونیورسٹیوں کی شکل بھی بدل جائے گی۔ جب یہ سب ہورہا ہے تو ہم کیا کررہے ہیں؟
ہم بحث کررہے ہیں، ماہ رمضان کا آغاز چاند دیکھ کرکریں یا سیٹلائٹ وغیرہ کی مدد سے تعین کرلیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).