خدا کرے کہ اب آئے نہ آندھیوں کا موسم


کہا جا سکتا ہے کہ پنجاب حکومت نے انتظامی امور بہتر بنانے کے لیے با ضابطہ اقدامات کا آغاز کر دیا ہے۔ گزشتہ دنوں اس کے بارے میں یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ وہ صوبے کے معاملات کو بہ احسن طریق نمٹانے میں سست روی کا شکار ہے، جس سے عوام میں بد دلی و بے چینی پھیل رہی ہے۔ اس کا مطلب پورے ملک میں حالات خرابی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ لہٰذا وزیر اعظم پاکستان نے عثمان بزدار سے خصوصی ملاقات کر کے انہیں اہداف دیے کہ وہ انہیں حاصل کرنے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کریں۔ بصورت دیگر پی ٹی آئی کی ساکھ مجروح ہو گی اور وہ اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

اب جو وزیر اعلیٰ پنجاب کی کوششیں دکھائی دے رہی ہیں ان کے مطابق یہ بات واضح ہے کہ آنے والے دنوں میں تمام سرکاری محکمے جن میں پولیس سر فہرست ہے۔ اقتداری جماعت کے ویژن پر عمل در آمد کرنے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے وہ میسر ہر ذریعہ برائے کار لا سکتے ہیں۔

اس امر کا اندازہ و احساس اس وقت ہوا جب لاہور پی ٹی آئی کے چند اہم عہدیداروں نے وزیر اعلیٰ پنجاب شکایت سیل کی چیئر پرسن محترمہ مہناز سعید کو ایک مقامی ہال ( میٹیکس) میں استقبالیہ دیا۔ اس تقریب کا اہتمام چودھری طارق جاوید نے کیا۔ منتظمین میں رکن قومی کونسل پی ٹی آئی پولیٹیکل ٹرینر پنجاب خواجہ جمشید امام اور ریاض احمد احسان شامل تھے۔ مقررین نے یقین دلایا کہ اب حکومت عوامی جذبات کا ہر صورت احترام کرے گی۔

ڈاکٹر عمرانہ مشتاق جو خود بھی اس جماعت کی عہدیدار ہیں نے خوبصورت انداز سے حکومتی پروگرام بارے میں حاضرین و سامعین کو بتایا۔ ریاض احمد احسان نے اپنے ادیب ہونے کا بھر پور تاثر دیتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ مسائل و شکایات سے متعلق اب کوئی بھی درخواست ردی کی ٹوکری کی نذر نہیں ہو گی۔ ازاں بعد خواجہ جمشید امام جو جمشید بٹ کے نام سے بھی اپنی پہچان رکھتے ہیں نے گویا اجتماع کو گرما دیا ان کی تقریر منطق دلیل اور احساسات پر مبنی تھی۔

انہوں نے ہر پہلو کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ پنجاب ہی نہیں مرکزی حکومت بھی اب پر جوش ہے اور عوامی مشکلات کو کسی طور بھی نظر انداز نہیں کر رہی۔ انہوں نے کہا یہ مہنگائی عارضی ہے اور کچھ لوگ دانستہ مصنوعی گرانی کر رہے ہیں۔ جنہیں اب سختی سے پوچھا جائے گا اس کا باقاعدہ بندو بست کیا جا چکا ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اب میں سکون سے سوتا ہوں کہ میرے ملک کا خزانہ محفوظ ہے اس کو لوٹا نہیں جا رہا اور لوٹ کر بیرون ملک نہیں بھیجا جا رہا۔

دیگر مقررین بھی اچھی اچھی باتیں کرتے ہوئے چیئر پرسن سے امید کر رہے تھے کہ وہ عوام کو مایوس نہیں کریں گی۔ آخر میں محترمہ مہناز سعید نے منتظمین کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ شکایت سیل کی چیئر پرسن اس لیے بنائی گئی ہیں کہ مسائل کے خاتمے کے لیے اپنا بھر پور کردار ادا کریں لہٰذا وہ یقین دلاتی ہیں کہ وہ واقعتا کسی کو مایوس نہیں کریں گی اور عمران خان کے پروگرام کو آگے بڑھائیں گی۔

یہاں میں وزیر اعلیٰ پنجاب کی توجہ اس پہلو کی طرف بھی مبذول کرانا چاہوں گا کہ وہ پولیس کے سربراہ سے کام لیں۔ انہیں صاف صاف بتا دیں کہ امور پولیس میں اب سیاسی مداخلت نہیں ہو گی۔ وہ تھانوں میں ایم این ایز، ایم پی ایز کی سفارش پر تعینات کیے جانے والے تھانیداروں کو تبدیل کر دیں۔ وہاں میرٹ پالیسی کو ملخوظ خاطر رکھیں اور یہ بتا دیا جائے کوئی بھی ہونے والا جُرم ان کی نا اہلی تصور کیا جائے گا۔ قبضہ گروپوں، لینڈ مافیا، مہنگائی مافیا، ملاوٹیوں، جعل سازوں اور بازاروں اور سڑکوں پر ناجائز قابضین کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے کیونکہ ابھی تک وہی پرانا منظر نظر آتا ہے کہ سینہ زور سینہ زوری کر رہے ہیں۔

رشوت عام ہے۔ سرکاری ملازمین من مرضی کر ہے ہیں۔ نا جائز منافع خور، بے خوف مصروف عمل ہیں اور بھتہ خور جو علاقے کے طاقتور لوگ ہیں، دھڑلے سے وصولیاں کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ لہٰذا فی الفور حکومت کارروائی کر کے صورت حال کو قابو میں کرے وگرنہ عوام مایوس ہونے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ جس کا فائدہ حزب اختلاف کو پہنچے گا۔ اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا، کہ کل ایک ایسا منظم احتجاج ہونے کا آغاز ہو جاتا ہے تو وہ اس کے لیے غیر سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔

لہٰذا وہ انتظامی پیچیدگیوں اور مسائل و مشکلات پر توجہ دے یہ جو بیورو کریسی کا عذر پیش کیا جاتا ہے کہ وہ تعاون نہیں کر رہی سرا سر غلط ہے۔ وہ کیسے ریاست کے خلاف کوئی اقدام اٹھا سکتی ہے۔ اصل میں حکومت کی پالیسی واضح نہیں وہ اپنے منشور پر کس قدر عمل در آمد کرنا چاہتی ہے اسے یہ فیصلہ کرنا ہو گا اگرچہ وہ ایک حد تک اس پہلو کو سامنے رکھ بھی رہی ہے، مگر وہ دھند میں لپٹا ہوا ہے۔ لہٰذا جو بھی کرنا ہے اسے دیر نہیں کرنی چاہیے۔

پانی پلوں کے نیچے سے بہنا شروع ہو چکا ہے۔ یہ درست ہے کہ عثمان بزدار وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے پارٹی میں پائی جانے والی کھینچا تانی کی بنا پر کچھ رکاوٹیں ہیں مگر وہ انہیں دور کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے لیے انہیں وزیر اعظم سے مدد و تعاون حاصل کرنا پڑے تو کریں کیونکہ ہو سکتا ہے جو روڑے راستے میں ہیں وہ مرکزی اور صوبائی حکومت کو نا کام بنانا چاہتے ہوں۔ اگر ایسا نہیں تو پھر ان پر بھی انگلیاں اٹھ سکتی ہیں بلکہ اُٹھ رہی ہیں، کہ وہ یک طرفہ اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جس سے گیارہ کروڑ عوام کو مساوی سہولتیں ملنا مشکل ہے۔

ان سے متعلق یہ بھی قیاس کیا جا رہا ہے کہ وہ سخت ہاتھ غیر موافق عناصر پر اس لیے بھی نہیں ڈال رہے کہ کل انہیں ان کی پشتی بان جماعت یا جماعتوں میں جانا پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا وہ فریقین کو راضی رکھنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ مگر اب یہ خیال ذہنوں سے محو ہو جانا چاہیے کیونکہ وہ خود میدان عمل میں کود پڑے ہیں۔ ان کا شکایت سیل نام کا نہیں کام کا ہے۔ اس کی چیئر پرسن خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں وہ این جی اوز کی ماضی میں سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہی ہیں۔ استقبالیے میں انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ پی ٹی آئی کی حکومت کے منشور سے صرف نظر نہیں کریں گی۔ اپنی ذمہ داری کو انتہائی دیانت داری اور مستعدی سے نبھائیں گی۔

بہر حال اس طرح کے اقدامات اپنی جگہ معاشی اصلاحات کو عوام دوست بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اب جب آئی ایم ایف سے اس کی شرائط پر قرض لیا جا رہا ہے، وہ عوامی نہیں کیونکہ نئے ٹیکسوں کے نفاذ سے عام آدمی کی زندگی تکلیف دہ ہوتی جا رہی ہے۔ جبکہ کہا جا رہا تھا کہ پاکستان کو اس کے تمام مطالبات نہیں ماننا پڑیں گے کیونکہ وہ دوست ممالک کی مدد سے کٹھن صورت حال سے چھٹکارا پا چکا ہے۔ مگر اب کیا ہوا کہ دھڑا دھڑ اس کی دی ہوئی گائیڈ لائن پر چلنے کوقبول کر لیا گیا ہے اور ایک بار پھر معیشت اس کے ہاتھ میں یر غمال بن رہی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری کوئی پالیسی نہیں کوئی آزاد رائے نہیں اور کوئی حیثیت نہیں کیونکہ فیصلے وہی کرتے ہیں، جو ہمارے معاشی بیڑے کو دھکیلتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں وزیر اعظم کا کہا کہاں تک سچ ثابت ہوتا ہے کہ دو برس کے بعد خوشحالی آ جائے گی اور ہم کسی بھی مالیاتی ادارے سے قرض نہیں لیں گے؟

خدا کرے کہ اب آئے نہ آندھیوں کا موسم

ہم ہیں ریگ ساحل آبلہ پا کھڑے ہوئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).