ٹیکسی ڈرائیور کا رویہ پنڈی میں ایک اور اسلام آباد میں دوسرا کیوں؟


راولپنڈی سے اسلام آباد کے لیے ٹیکسی بک کریں اور ٹیکسی ڈرائیور پہ نظر رکھیں۔ جوں ہی اسلام آباد کی حدود میں آپ داخل ہونے لگیں گے تو آپ نہ صرف ڈرائیور کو سیٹ بیلٹ باندھتے ہوئے دیکھیں گے بلکہ اس کے ڈرائیو کرنے کے انداز میں بھی خاصی تبدیلی محسوس کریں گے

چائینیز جب شروع شروع میں پاکستان آئے تھے تو ان کے بڑے چرچے تھے کہ وہ قانون کی کتنی پاسداری کرتے ہیں، کرپشن اور کرپٹ پرکٹسز سے ان کا دور دور تک کوئی تعلق نظر نہیں آتا تھا۔ کہتے ہیں خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے، اب دو ہی راستے تھے یا تو ہم پاکستانی ان سے کچھ سیکھتے یا پھر چائینیز ہم پاکستانیوں سے۔ چنانچہ ہمارے مقابلے ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی اور پاکستانی قوانین میں موجود گنجائش بھی کسی حد تک اثر کر گئی تو مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے چائینیز ہمارے رنگ میں رنگ گئے یوں آہستہ آہستہ وہ بھی کرپشن اور کرپٹ پرکٹسز کے عادی ہوتے گئے۔

میگا پراجکٹس میں ہمارے لوگوں کے ساتھ مل کر کرپشن کرنا تو معمول کا حصہ تھا ہی مگر حالیہ دنوں نیوز چینلز اود اخبارات کے ذریعے جو چیزیں دیکھنے اور سننے میں آرہی ہیں وہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اب کی بار چائینیز نے نہ صرف ہمارے ریاستی قوانین کا غلط فائدہ اٹھایا بلکہ اسلام قبول کرنے کا جھوٹا ڈھونک رچا کر عزتوں کو بھی پامال کیا۔

جب کوئی غیر ملکی ٹوریسٹ چلتے چلتے جوس پینے کے بعد خالی ڈبہ روڈ پہ پھینکنے کے بجائے اپنے بیگ میں ڈالتا ہے تو ہم صفائی کو نصف ایمان کہنے والوں اور جوس کے خالی ڈبے کو چلتی گاڑی کے ٹائیر کے نیچے پھینک کر ٹھاہ کی آواز سننے کے شوقین لوگوں کو یہ سب عجیب لگتا ہے اور ہم اندر ہی اندر شرمندگی بھی محسوس کرنے لگتے ہیں۔

ایسا کیوں ہے کہ پنڈی سے اسلام آباد جانے والا ٹیکسی ڈرائیور بیک وقت دو روپ دکھاتا ہے اور ایک خاص مقام پہ وہ مہذب نظر آنے لگتا ہے؟

وہ چائینیز جو پاکستان آنے کے بعد ایک عرصے تک مہذب نظر آتے تھے، گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ غیر مہذب کیسے ہوگئے؟

انگریز جوس کے ڈبے کو روڈ پہ پھینکنے کے بجائے اپنے بیگ میں ڈال کر اسے پھینکنے کے لیے موضوع جگہ کی تلاش کیوں کر کرتا ہے؟ کیا یہ عادتیں اسے بائی برتھ ملی ہیں؟

بعید نہیں کہ اگر جوس کا خالی ڈبہ ہاتھ میں لے کر ڈسٹ بین اور موضوع جگہ کی تلاش کرنے والا انگریز اگر ہمارے ساتھ ایک لمبا عرصہ گزارے تو وہ بھی ڈسٹ بین کے بجائے چلتی گاڑی کے ٹائر کے نیچے ڈبہ کو پھینک کر ٹھاہ کی آواز سن کر لطف اندوز ہونے لگے۔

کوئی معاشرہ از خود مہذب نہیں ہوتا، نہ ہی مہذب ہونے کے پیچھے مذہب کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے اگر مہذب معاشرہ کا قیام مذہب سے ہوتا تو اسلام کے نام پہ قائم مملکتیں آج اخلاقی اقدار میں نمونہ عمل ہوتی مگر جس دور میں ہم جی رہے ہیں ہمارے حالات اسلامی اقدار سے یکسر مختلف ہیں۔

جھوٹ، فریب، دھوکھہ دہی، ناپ تول میں دو نمبری، قتل و غارت گری، اصولوں پہ سودے بازی اور معاملات میں دوغلا پنی میں بحیثیت قوم ہم نمبر ون ہیں اور کوئی غیر مسلم معاشرہ ان معاملات میں ہمارا مقابلہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا مگر ہمیں یہ پڑھایا گیا ہے کہ کہ ہمارے اعمال جو مرضی ہوں ہمارا ایمان ہمیں جنت کی جانب کھینچ کر لے جائے گا اور غیر مسلموں کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے چاہے ان کے اعمال اسلام کے عین مطابق ہی کیوں نہ ہوں۔

انفرادی عادتیں ہوں یا اجتماعی ہمارے مُعاشرے کو تباہی کے کنارے کھڑا کرنے میں جو وجوہات سرِ فہرست ہیں، ان میں سے ایک بڑی وجہ سزا و جزا کے قوانین پہ عملدرآمد نہ ہونا ہے، لاقانونیت ہمارے مُعاشرے میں اپنی جڑیں اتنی مضبوط کر چکی ہے کہ اب یہ ایک قد آور درخت بن چکا ہے اور مُعاشرے کا تقریباً ہر طبقہ اس کی لپیٹ میں ہے۔ جھوٹ دھوکہ دہی، چوری اور قتل و غارت گری کرتے ہوئے کوئی پکڑا جائے تو بڑے اطمینان سے کہنے لگتا ہے بھئی پاکستان ہے، سب چلتا ہے!

اور جب تک سب چلتا ہے کو قانون کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں سے نہ نکالا جائے گا تب تک ایک مہذب معاشرے کا خواب، خواب ہی رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).