عمران خان کی بے بسی اور تاریخ کا بوجھ


بات سادہ اور آسان ہے۔ اسے پاکستان کا ہر شہری سمجھ سکتا ہے۔ صرف وزیر اعظم اور ان کی حکومت اسے سمجھنے سے انکار کرتے ہیں۔ کہ پاکستان سنگین صورت حال کا شکار ہے۔ اسے سقوط ڈھاکہ کے بعد سے ملکی تاریخ کا سب سے مشکل بحران کہا جاسکتا ہے۔ آئی ایم ایف سے چھے سات ارب ڈالر قرض لینے کے لئے چھے سات ماہ کی مدت صرف کردی گئی ہے لیکن ا س کے باوجود حکومت یہ سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ سیاسی و معاشی معاملات طے کرتے ہوئے اس سے بنیادی غلطیاں سرزد ہورہی ہیں۔ نئے نظام کی باتیں کرنے والے اس تاثر کا سر نامہ بن گئے ہیں کہ اپنی غلطیوں پر اصرار ہی نئے پاکستان کی بنیاد ہے۔ یہ نیا پاکستان دراصل پرانے نظام کو نئے لیبل کے ساتھ فروخت کرنے کی بھونڈی کوشش بن کر رہ گیا ہے۔

1971 سے 2019 کے سیاسی سفر پر نگاہ دوڑائی جائے تو 48 برس کے اس دورانیے میں وہی غلطیاں دہرائی گئیں جو قیام پاکستان کے بعد قومی شعار بنا لی گئی تھیں۔ ایک جمہوری تحریک کے ذریعے قائم ہونے والے ملک کو پہلے مذہب کا مقدس لبادہ پہنایا گیا اور پھر تقدیس کے اس تخت پر فوجی آمریت کا پھریرا لہرایا گیا۔ ایوب خان نے دس سالہ دور اقتدار میں ملکی سیاست و معیشت کو مسلسل بیمار کرنے کے لئے جو کھیتی کاشت کی تھی، اسے کاٹنے کے لئے ایک نئے فوجی حکمران یحیٰ خان نے عوام کی مرضی تسلیم کرنے کی بجائے طاقت کے زور پر ملک کی اکثریت کو مٹھی بھر جرنیلوں اور ان کے ہمنوا سیاست دانوں کا دست نگر رکھنے کی کوشش کی۔ اس مقصد کے لئے مشرقی حصے میں فوجی ایکشن کا حکم دیا جس کے نتیجے میں 80 ہزار فوجی بھارت کی قید میں گئے اور ملک دو نیم ہو گیا۔

یہ سانحہ کسی بھی قوم پر گزرا ہوتا تو وہ اپنا چلن تبدیل کرکے مستقبل کی راہ متعین کرنے کی کوشش کرتی۔ پاکستان میں معاملات البتہ عسکری اشرافیہ نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے سنبھالے ہوئے تھے کہ وہی اس کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنے کی اہل ہے۔ اس لئے سیاست دانوں کو انہی خطوط پر کام کرنا ہوگا جو ملک کے عسکری اسٹبلشمنٹ متعین کرتی ہے۔ یہ تجربہ 1958 میں کیا گیا اور بارہ تیرہ برس بعد ہی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ساتھ اس تجربہ کی ہلاکت خیزی واضح ہوگئی لیکن ملک کے سجیلے جوانوں کو اپنی طاقت اور سیاست دانوں کی بد نیتی کا پختہ یقین تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو ایک عوامی لیڈر تھے۔ وہ اس لحاظ سے فوج کے محسن بھی تھے کہ انہوں نے بھارت کی قید سے فوجیوں کو رہا کروانے کے لئے کامیاب مذاکراتکیے تھے۔ اس کے باوجود جولائی 1977 میں جنرل ضیا الحق نے نہ صرف اپنے محسن وزیر اعظم کی منتخب حکومت کا تختہ الٹا بلکہ اسے تختہ دار پر چڑھا کر ایک بار پھر یہ طے کردیا کہ 1971 کی خانہ جنگی سے جنم لینے والے ’نئے پاکستان‘ میں کچھ بھی نیا نہیں ہوگا۔ فوج بدستور قومی سلامتی کے نام پر سیاست دانوں کا راستہ کاٹتی رہے گی اور ملک کا آئین صرف اس شکل و صورت میں قبول کیا جائے گا اگر ملک کی سپریم کورٹ بدلتی ضرورتوں کے مطابق اس کی توضیح و توجیہ کرنے کا مقدس فریضہ انجام دیتی رہے۔

ان 48 برسوں میں فوج نے 20 برس تک براہ راست حکومت کی ہے۔ ضیا الحق اور پرویز مشرف کے ادوار میں افغان جنگ کی صورت میں قوم کو بدامنی، تشدد، انتشار اور مذہبی انتہا پسندی کا تحفہ دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود کسی سویلین حکومت کو باعزت طریقے سے اپنے اصولوں کے مطابق کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ضیا کے بعد شروع ہونے والے جمہوری دور کو نواز شریف اور بے نظیر کے باریاں لینے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے زمانے کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو یہ لڑائی بھی دراصل جمہوریت اور آمریت کی کشمکش سے ہی عبارت ہے۔

اس میں شبہ نہیں کہ سیاست دان موقع ملنے پر فوجی اسٹبلشمنٹ کے آلہ کار بنتے رہے لیکن اس سارے عمل میں رہنما اصول یہی تھا کہ سیاست دان اسی وقت قابل قبول ہو سکتا ہے جب وہ اسٹبلشمنٹ کی مقرر کردہ بعض ’ریڈ لائنز‘ کو عبور نہ کرے۔ نوے کی دہائی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے دو دو بار حکومت سنبھالی۔ اس حوالے سے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو ناہلی اور ناکامی کا طعنہ بھی دیاجاتا ہے لیکن ان ادوار میں بے نظیر بھٹو با الترتیب ڈیڑھ برس اور تین برس اور نواز شریف پونے دو اور پونے تین برس اس عہدہ پر فائز رہے۔ گویا دسمبر 1988 سے اکتوبر 1999 کے ساڑھے دس برس میں کسی ایک پارٹی کو بھی پوری مدت تک حکومت کرنے کا موقع نہیں ملا۔

سیاسی پارٹیوں کی ناکامیوں پر دفتر سیاہکیے جاچکے ہیں لیکن یہ جاننے کی کوشش نہیں کی گئی کہ چوتھائی یا نصف مدت حکومت سنبھالنے والے وزرائے اعظم سے نتائج کی توقع کرنے والے فوجی آمروں کے طویل دوارنیے والی حکومتوں کا حساب کیوں نہیں مانگتے۔ یا جب فوج منتخب حکومت سے اپنی خدمات اور وقار کے نام پر قومی امور میں حصہ داری کا تقاضہ کرتی ہے تو وہ سیاست میں اپنے جرنیلوں کی ناکامی کا تجزیہ کیوں نہیں کرتی؟

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali