اپنی والدہ کے نام ایک نظم۔ بوڑھی آنکھیں


میری ماں کی بوڑھی آنکھیں

ان آنکھوں میں جب بھی جھانکا

خوابوں کے ویرانے دیکھے

ویرانے بھی ایسے جن میں

ہر اک حسرت خار بنی تھی

ہر اک خواہش سوکھی ٹہنی

برسوں کی معصوم امنگیں

پژمردہ مرجھائی کلیاں

امیدوں کے کنکر پتھر

بکھرے پڑے تھے

میری ماں کی بوڑھی آنکھیں

ان آنکھوں میں جب بھی جھانکا

ماضی کے آسیب ہی دیکھے

نسلوں کی بیکار کی محنت

میری ماں نے

سردی کی راتوں میں اکثر

ٹھنڈے پانی کے نلکے سے

کپڑے دھو کر ہاتھوں پر گٹے بھی ڈالے

گرمی کی اس دھوپ میں ہر دن

آگ جلا کر گھر والوں کی روٹی پکائی

اپنے چہرے کو جھلسایا

قربانی کی ریت نبھائی

لیکن اس قربانی کا حاصل

آہیں آنسو

حسرت کے گمنام جزیرے

ایسے جزیرے جن پہ تنہائی کا ڈیرا بسیرا

خواب ادھورا

بچوں سے اک اندھی محبت

میری ماں کی اندھی محبت

میرے پاؤں کی زنجیر بنی تھی

میں نے اس زنجیر کی خاطر

ہجرت کا اک زہر پیا تھا

ہجرت کا وہ زہر کہ جو اک

امرت بن کر شریانوں میں پھیل گیا تھا

میری ماں کی آنکھوں میں اب

محرومی کی دھول تو ہے پر

مایوسی کے خار نہیں ہیں

میری ماں نے زیست کے ہر اک چوراہے پر

ہمت کے کچھ پھول کھلائے

چاہت کے کچھ گیت سنائے

اس ہمت نے اس چاہت نے

دوکلیوں کا روپ سنوارا

ایک کلی ہے عنبر بیٹی

جس کی خوشبو

قریہ قریہ پھیل گئی ہے

ایک کلی ہے شاعر بیٹا دنیا بھر کے انسانوں کو پیار کا تحفہ

میری ماں تم خوش قسمت ہو

تیری دونوں آنکھوں کے ان

خوابوں کے ویرانوں میں اب

خوشیوں کے دو پھول کھلے ہیں

۔ ۔

نوٹ :

یہ نظم 1988 میں جب میں نے ٹورانٹو کی ایک محفل میں پڑھی تو کسی نے وڈیو بنالی۔ جب میری والدہ نے وہ وڈیو لاہور میں دیکھی تو نظم سن کو وہ آبدیدہ ہو گئیں۔ اب وہ چند سال پیشتر اس دارِ فانی سے کوچ کر گئی ہیں لیکن آج مدرز ڈے پر یاد آئیں تو یہ نظم بھی یاد آ گئی۔ سوچا دوستوں سے شیر کر لوں۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail