گیم آف تھرونز کے سپوائلر: انٹرنیٹ سے پہلے بھی ہم سپوائلرز سے گھبراتے تھے


سپوائلر

کہانیوں کو خفیہ رکھنا بہت بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے

‘اور پھر فلم کے آخری لمحات میں ناگزیر طور پہ شہنشاہ کا خفیہ ہتھیار تباہ ہو جاتا ہے، شہزادی کو رہائی مل جاتی ہے اور باطل کی طاقتوں کو جنگِ عظیم دوئم کی طرز پر کی جانے والی لڑائی میں شکست ہو جاتی ہے۔ بلیک نائٹ کو چپکے سے کھسک جانے کا موقع دے دیا جاتا ہے تاکہ بعد میں فلم کا دوسرا حصہ بنایا جا سکے’۔

اگر آپ اب تک نہیں پہچان سکے تو یہ عبارت ‘فلم سٹار وارز: اے نیو ہوپ’ کے اختتامی لمحات کی تفصیل ہے۔

یہ تفصیل 12 ستمبر 1976 کو امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں فلم ’سٹار وارز‘ کے ڈائریکٹر جارج لیوکس کے انٹرویو میں چھپی حالانکہ فلم نے آٹھ ماہ بعد امریکہ میں سینماؤں کی زینت بننا تھا۔

اب اس کا موازنہ بلاک بسٹرفلم اوینجرز: اینڈ گیم کی تخلیق سے کرتے ہیں جس کو خفیہ رکھنے کے جنون میں فلم کے اداکاروں کو بھی کہانی سے متعلق اندھیرے میں رکھا گیا۔ یہاں تک کہ فلم کے دوران بھی اِنہیں اپنے کرداروں سے متعلق مختصرمعلومات فراہم کی گئیں۔

یہ سپوائلرز سے خوف کی کیفیت کی ایک مخصوص مثال ہے۔

Little boy with a loudhailer.

سپوائلرز وکٹورین دور سے ہی لوگوں کو غصہ دلا رہے ہیں

حالانکہ یہ کیفیت انٹرنیٹ کی ایجاد کے بعد زیادہ نمایاں ہوئی ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ یہ کیفیت ڈیجیٹل دور کی ایجاد نہیں۔

سپوائلرز ٹی وی اور سینما کی ایجاد سے بھی پہلے لو گوں کے لیے غصے کا باعث بنتے تھے۔

سیریئل کے راز

افشا ہونے والی کہانیوں سے متعلق منفی تاثرات کا رجحان وکٹورین دور کے برطانیہ میں بھی پایا جاتا تھا۔

ایگزیٹر یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے محقق جیمز گرین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘یہ مسئلہ 19ویں صدی میں میڈیا کے وجود میں آنے کے بعد پیدا ہوا’۔

‘اُس وقت بھی لوگ یہ شعور رکھتے تھے کہ افسانے پڑھنے یا دیکھنے کا مزہ تب آتا ہے جب آپ کہانی سے ناآشنا ہوں۔’

English novelist Wilkie Collins

ولکی کولنز کو خیال آیا کہ ان کے ناول ‘دی وومن اِن وائٹ’ کی کہانی خفیہ رکھنا اس کے بارے میں تجسس بڑھا سکتا ہے

“گرین سن 1859 میں ناول نگار ولکی کولنز کے ناول ‘دی وومن اِن وائٹ’ کی مثال استعمال کرتے ہیں۔

یہ پہلے تسلیم شدہ پراسرار ناولوں میں سے ایک ہے اور یہ پہلا ناول ہے جسے قسط وار شکل میں کئی ماہ کے عرصے میں شائع کیا گیا۔

کتاب کے بہت سے باب بنانے کا فائدہ یہ ہوا کہ ایک تو اس کی قیمت کم ہو گئی دوسرا اس کی رسائی محنت کش طبقے تک بھی ہو گئی جس کی وجہ سے کتاب کے مداحوں میں اضافہ ہونے لگا۔

تجسس، پاگل پن اور جرائم سے بھر پور کولنز کی یہ کہانی بہت مقبول ہوئی۔

اس نے لوگوں کو اگلی اقساط کی خریداری کے لیے قطاروں میں لگنے اور جواریوں کو کہانی کے انجام پہ پیسے لگانے پر مجبور کیا۔

First edition of 18th Century novel Robinson Crusoe

Public Domain
رابنسن کروسو کے آغاز سے قبل ہی قاری کو ناول کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہو جاتا ہے

1860 میں جب ‘وومن ان وائٹ’ ایک مکمل کتاب کی شکل میں شائع ہوا تو اس کے مصنف نے ناقدین کو سپوائلرز دینے سے خبردار کیا جو کہ اُس وقت کے اعتبار سے غیر معمولی تھا۔

جیمز گرین کا کہنا ہے کہ ‘پرانے وقتوں میں مصنف کہانی کے بارے میں انکشافات کرنے سے گھبراتے نہیں تھے’۔

گرین اس حوالے سے مبالغہ آرائی نہیں کر رہے، ڈینیئل ڈیفو کی لکھی ہوئی روبنسن کروسو ان کی بات کو وزن دیتی ہے۔

مصنف کی التجا

اس کلاسک کتاب کی اشاعت 1759 میں ہوئی اور اس کا مکمل نام دی لائف اینڈ سٹرینج سرپرائزنگ ایڈوینچرز آف روبنسن کروسو آ ف یارک مرینز ہے۔

یہ کردار اپنے سمندری جہاز کی تباہی، جس میں صرف وہی زندہ بچ سکا، کے بعد 28 برس تن تنہا امریکہ کے ساحل سے دور دریائے اورونوق کے دہانے کے پاس موجود ایک غیر آباد جزیرے میں رہا۔

ادبی دنیا میں سپوائلر سے پاک جائزے چھاپنے کی روایت بھی کولنز کی کتاب کے بعد ڈلی۔ آج کل صحافیوں کے لیے یہ بات عام ہے کہ وہ سپوائلرز دیے بغیر فلموں کے جائزے چھاپتےہیں۔

19ویں صدی میں زیادہ تر ناقدین نے کولنز کے ناول سے متعلق خاموش رہنے کی درخواستیں مان لیں۔ یہاں تک کہ وہ بھی جنھیں ناول دی وومن ان وائٹ پسند نہیں آیا۔

الفریڈ ہچکاک

الفریڈ ہچکاک سپوائلرز کو پسند نہیں کرتے تھے

مزے کی بات یہ ہے کہ وکٹورین برطانیہ میں ہی پہلی بار’ سپوائلر’ کی اصطلاح کا استعمال شروع ہوا۔

گرافک اخبار نے 1886 میں ایک فلمی جائزے کا آغاز کچھ ایسے کیا: ‘ہمیں کہانی کے بارے میں سپوائلر دینے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے کہانی کا مزہ کرکرا ہو جاتا ہے۔ پڑھنے والوں کی دلچسپی کا دارومدار اس بات پہ ہوتا ہے کہ وہ مکمل تازگی اور کھلے ذہن کے ساتھ کتاب پڑھیں’۔

ہچکاک کی کوششیں

ماہرین کے مطابق 20ویں صدی میں ماہرین نے افسانوں میں ‘جذباتی سرمایہ کاری’ کو فروغ دیا۔

لیجنڈ فلم ڈائریکٹر اور پروڈیوسر ایلفریڈ ہچکاک نے اپنی 1960 کی تجسس سے بھرپور شاہکار فلم ‘سائیکو’ کی کہانی کے اہم موڑوں کو خفیہ رکھنے کے لیے بہت پاپڑ بیلے۔

ہچکاک نے نہ صرف رابرٹ بلاک کے ناول،جس کی بنیاد پریہ فلم بنی تھی، کی لاتعداد کاپیاں خرید لیں بلکہ فلم کی تشہیری مہم کو سپوائلرزکے خلاف پیغامات سے بھر دیا۔

ایک پرنٹ اشتہار پر یہ التجا درج تھی ‘فلم کے اختتام کے بارے میں کسی کو نہ بتائیں۔ ہمارے پاس اس کے علاوہ فلم کا اور کوئی انجام موجود نہیں ہے۔’

‘لیوک، میں تمہارا باپ ہوں

سٹار وارز: اے نیو ہوپ کی مرتبہ تو جارج لیوکس کہانی کے بارے میں خوشی خوشی بات کر رہے تھے، لیکن اسی سلسلے کی اگلی کڑی یعنی دی ایمپائر سٹرائکس بیک نے ان کا رویہ بدل دیا۔

1977 میں ریلیز ہونے والی سٹار وارز کی چوتھی قسط اے نیو ہوپ کی غیر متوقع کامیابی کے بعد 1980 میں آںے والی پانچویں قسط کو خفیہ رکھنا ناگزیر ہو گیا تھا۔

Publicity shot from Star Wars: A New Hope

LucasFilm/Disney
ہیمِل (انتہائی بائیں) نے فلم کا اہم موڑ اپنے دوستوں اور ساتھی اداکاروں سے بھی خفیہ رکھا

ایمپائر سٹرائکس بیک میں ایک ایسا اہم موڑ آتا ہے جس میں ڈارتھ ویڈر اپنے نوجوان حریف لیوک سکائی واکر کو یہ بتاتا ہے کہ اُن کا آپس میں بیٹے اور باپ کا رشتہ ہے۔

لیکن فلم کا اصلی سکرپٹ میں ایک ایسا جھانسا ہے جو 21ویں صدی کے جنونی فلم پروڈیوسروں کے لیے فخر کا باعث بنے۔

مارک ہیمل نے 2017 میں کہا کہ ڈائریکٹر نے مجھے ایک طرف لے جا کر کہا ‘میں نے تمہیں کچھ بتانا ہے۔ مجھے پتہ ہے، جارج لیوکس کو بھی علم ہے اور جب میں تمہیں بتاؤں گا تو تمہیں بھی پتہ چل جائے گا لیکن اگر یہ راز افشا ہوا تو الزام بھی تم پہ ہی آئے گا۔

’پھر انھوں نے مجھے ایک پرچی پکڑائی جس پہ لکھا تھا، ‘میں تمہارا باپ ہوں’۔ یہ پڑھ کے میں حیران رہ گیا۔’

ہیمِل نے فلم کا یہ اہم موڑ اپنے دوستوں اور ساتھی اداکاروں سے بھی خفیہ رکھا، اور اُنھیں فلم دیکھنے کے بعد ہی اس بات کا علم ہوا۔

آج کل اداکاروں اور فلم کے عملے سے رازداری کے متعدد معاہدوں پر دستخط کرائےجاتے ہیں تاکہ فلم سے متعلق وہ معلومات افشا نہ ہو سکیں جو فلم کی باکس آفس پر کامیابی کے امکانات پر اثرانداز ہوں۔

Promotional handout for Game of Thrones

HBO
گیم آف تھرونز ٹی وی سیریز کے آخری سیزن کو صرف امریکہ میں اوسطاً تین کروڑ اٹھائیس لاکھ لوگوں نے دیکھا

اگر وکٹورینز کے پاس تجسس سے بھرپور سلسلہ وار کتب تھے، تو ہمارے پاس گیم آف تھرونز جیسی ٹی وی سیریز موجود ہے جس کے آخری سیزن کو صرف امریکہ میں اوسطاً تین کروڑ اٹھائیس لاکھ لوگوں نے دیکھا۔

اب یہ ‘سپوائلر ایتھکس’ کا مرکز بن گیا ہے۔

جیمز گرین کا کہنا ہے کہ’آج کل لوگ کچھ پروڈکشنز کے حوالے سے زیادہ پُرجوش ہیں کیونکہ وہ اکثر ان کے ساتھ بڑے ہوتے ہیں۔ وکٹورین دور میں بڑے سیکوئلز یا داستانیں نہیں ہوتی تھیں اور اولیور ٹوئسٹ کی فرینچائز بھی نہیں تھی۔’

‘آج کل سوشل میڈیا اور معلومات کے تیزی سے پھیلنے کی بدولت سب کچھ بہت شدت اختیار کر گیا ہے۔’

کبھی کبھارسپوائلرز دینے میں روایتی میڈیا بھی شامل ہو جاتا ہے جو فلم بنانے والوں کے لیے دردِ سر ثابت ہوتا ہے۔

1995 میں برازیلین اخبار فولہا ڈی ایس. پا لو نے فلم دی یوژوئل سسپیکٹ کے انجام کو اخبار کے ثقافتی حصے کے سرورق پر چھاپ دیا تھا۔ اس سے کچھ سال پہلے اسی اخبار نے ٹی وی سیریز ٹوئن پیکس میں لورا پامر کے قتل کے حوالے سے راز افشا کیا تھا۔ں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32494 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp