مسیحی – چینی شادیوں سے کیا سیکھنا چاہیے؟


چائینز مردوں کی پاکستانی خصوصاً مسیحی لڑکیوں سے شادیوں کے معاملے میں روز بروز بڑھنے والی گرفتاریاں، گرفتار ملزمان کے انکشافات و اعترافات اور متاثرہ لڑکیوں کی کہانیوں نے معاملے کو سنگین تر بنا دیا ہے۔ پہلے پہل اطلاع تھی کہ تقریباً 1100 لڑکیوں کی شادی ہوئی ہے مگر گرفتاریوں کے بعد یہ تعداد 1500 تک ہوگئی اور ممکن ہے مزید تفتیش کے بعد شادیوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہوجائے۔ اور شادی کے بعد ہونے والے سلوک کے بارے میں متاثرہ لڑکیوں کے بیانات بھی ریکارڈ پر آ گئے جن میں متاثرہ لڑکیاں بتا رہی ہیں کہ کیسے یہ گینگ مذہبی لیڈروں کو شامل کر کے لڑکیوں کے خاندانوں کو شادیوں کے لئے راضی کرتے ہیں اور چائنہ لے جا کرانہیں جلدی بچے بیدا کرنے کے لئے، انہیں جنسی کاروبار کے لئے، جنسی اعضاء کی فروختگی اور لڑکیوں کے مختلف گینگزکو بیچنے کے انکشافات ہوئے ہیں۔

اتنی زیادہ گرفتاریاں ہونے کے بعد نئی شادیوں کا سلسہ تو کچھ تھما ہے مگر پہلے سے شادی شدہ لڑکیاں اور ان کے خاندان چائینز گینگ اور پاسٹر کے دکھائے گئے خوابوں سے باہر نہیں آ رہے۔ ایک چائینیز دلہن کے والدہ نے ہمیں بتایا کہ ہماری بیٹی تو چائینیز مرد کے ساتھ بہت خوش ہے، میرا داماد ایک بہت بڑی کمپنی میں کام کرتا ہے، راولپنڈی میں ان کی کوٹھی تعمیر ہو رہی ہے اور میرے داماد کا چائینہ میں بھی بہت بڑا گھر ہے، شادی کے بعد ہماری بیٹی اور داماد نے چائنہ چلے جانا ہے اور بعد میں ہم سب نے بھی چائنہ چلے جانا ہے۔ میں نے سوال کیا کہ سب کچھ آ پ کو کس نے بتایا؟ دلہن کے والدہ نے بتایا کہ پاسٹر صاحب نے ہمیں یہ سب بتایا ہے۔

ایک اور والدین، جن کی بیٹی کی شادی چائینز دلہا سے ہوئی، کو ایف آئی کی کارروائیوں کے بعد روکا کہ آپ اپنی بیٹی کو چائنہ نہ بھیجیں دیکھیں کیسے کیسے انکشافات ہورہے ہیں کہ چائنہ والے لڑکیوں کو ان کے اعضا بیچ دیتے ہیں آپ دیکھیں خبروں میں روز ایسے واقعات آ رہے ہیں انہوں نے کہاکہ ہم سوچیں گے، مگر اگلے ہی دن وہ خاندان وہاں سے کچھ دنوں کے لئے غائب ہی ہو گیا۔

بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ زیادہ تر کیسز میں گینگ نے غریب لوگوں کو ٹارگٹ کیا اور شامل کیا ساتھ میں خواتین کو، پاسٹرصاحب اور نکاح خواں مولوی صاحب کو جنہوں نے اپنے مالی فائدے کے لئے لوگوں کو راضی کیا اور پیش کیے چائینز مردوں کے کرسچن اور مسلم ہونے کے سرٹیفکیٹ اور نقدی رقم اور خاندانی طور پر بیرون ملک سیٹ ہونے کا خواب۔ اس ضمن میں پاسٹر زاہد نے دوران تفتیش اعتراف بھی کیا ہے کہ وہ فی نکاح بیس ہزار وصول کرتے تھے اور انہوں نے تقریباً بارہ نکاح کروائے ہیں۔

غریب اور خصوصاً مسیحی لڑکیوں کو ٹارگٹ کرنے کے پیچھے ایک موقف یہ بھی ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کی آ واز کم سنی جاتی ہے اس لئے اس کمیونٹی کو ٹارگٹ کرنا آسان ہے۔ اور اب تک سامنے آنے والی شادیوں اور گرفتاریوں سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ اکثریت شادیاں مسیحی غریب گھرانوں کی لڑکیوں سے کی گئی ہیں۔

ایک متاثرہ لڑکی کے والدین نے موقف اختیار کیا کہ ہم غریب لوگ ہیں اور پاسٹر صاحب جب ہم سے بیٹی کے رشتے بارے پوچھتے ہیں تو ہم اپنی مرضی سے رشتے کے لئے ہاں کرتے ہیں، ہماری سوسائٹی میں بیٹیوں کے رشتے مل بھی تو نہیں رہے اور نہ معاشرے میں عزت رکھنے کے لئے شادی کے اخراجات ہماری پہنچ میں ہیں۔ چائینز مردوں کے ساتھ شادی کرنے پر تمام اخراجات بھی وہ خود برداشت کرتے ہیں اور دوسرا ہم یہ بھی سوچتے ہیں کہ ہماری بیٹی مالی طور پر اچھی زندگی گزارے گی۔

مندرجہ بالا ایشوز سامنے آنے کے بعدچائنہ کی دفتر خارجہ کا پہلے پہل اپنے موقف میں اپنے شہریوں کو تنبیہ کی کہ شادی کرنے کے لئے غیر قانونی عناصر سے ہوشار رہیں اور بعد میں کہا کہ پاکستان سے لائی گئی خواتین کے بارے میں تما م تر الزمات غلط ہیں۔ حالانکہ چائینز گینگ کے لوگ ایک لڑکی کو چائنہ لیجانے تک تقریباً آٹھ سے دس لاکھ روپے انویسٹ کرتے ہیں، اور لڑکیوں کو چائنہ سمگل کرنے کے لئے طریقہ کار شادی کا اپناتے ہیں۔

تفتیش میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ یہ شادیاں ازدواجی زندگی آباد کرنے کے لیے نہیں کی جاتیں بلکہ اس بارے میں کوئی بھی قانونی اور جائز موقف سامنے نہیں آ سکا۔ یہ بھی ثابت شدہ ہے ایک ہی لڑکے نے پانچ پانچ دفعہ مختلف دلہنوں سے شادیاں کیں۔ اس کے ساتھ چائنہ سے آئی لڑکیوں کا موقف چائینزدفر خارجہ کے موقف کی نفی کرتا ہے۔

مذہبی رہنما پاسٹر عمران نے بات کرتے ہوئے سب سے پہلے تو نکاح کا طریقہ کار ہی غلط ہے اور تمام جو پاسٹر جو مالی مفادات کے ایسے گروپس کو مدد فراہم کرتے ان کو بالکل کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے اور لوگوں کو ایسے خادموں کی نشاندہی کرنی چاہیے اور خاندانوں کے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ظاہری چمک دمک اور لالچ میں مت آ ئیں بلکہ ان لوگوں کی نشاندہی اور متعلقہ اداروں کو اطلاع دیں۔

مسیحی راہنما حبقوق گل نے بتایا کہ یہ خالصتاً ایک سماجی مسئلہ ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں شادی دونوں خاندانوں کے لئے ایک بڑی اقتصادی سرگرمی ہے، ہمارے زیادہ تر لوگ غربت کی لکیر پر زندگی بسر کر رہے ہیں مسیحی خاندان لڑکیوں کے رشتوں کی کمی کا شکار بھی ہیں، ہماری خواتین کے ساتھ ایسے فراڈ ہونے کی صورت میں ان کی شنوائی بھی نہیں ہوتی۔ اور چائینز گینگ اور ان کے سہولت کار ان سب حالات سے بخوبی واقف تھے اور اس لئے انہوں نے مسیحی خصوصاً غریب لوگوں کو ٹارگٹ کیا اور فائدہ اٹھایا ان کی مالی ضروریات اور مشکلات کا۔ جس طرح سے ایف آئی اے نے کارروائیاں کی ہیں اس سے وقتی طور تو نئی شادیوں کا سلسلہ تھمے گا مگر جو پہلے سے ہو چکی ہیں ان کے لئے معاشرتی مشکلات بڑھیں گی اس لئے متاثرہ خواتین کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے گورنمنٹ کو سیاسی اور معاشرتی سطح پر بھی اس معاملے تر جیحاً حل کرنا چاہیے۔

بے شک ان شادیوں میں چائینز گینگ کا فراڈ اور غیر قانونی سرگرمیاں شامل ہیں، مگر ساتھ ساتھ معاشرتی مالی مشکلات کا ادراک بھی کرنا چاہیے اور لوگوں کی غربت کا احساس بھی کرنا چاہیے۔ مذہبی لیڈروں کے کردار کا جائزہ بھی لینا چاہیے اور میڈیا کو بھی مسیحیوں اور غریبوں کے ایشوز کو بھی سامنے لانا چاہیے اور حکومت کو بھی اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے مذہبی اقلیتوں کو مسائل کوبھی بروقت حل کرنا ہو گا اور خصوصاً خاندانوں کو ایسے تما م سبز باغوں اور لالچ کا خاتمہ کرنا چاہیے تا کہ مزید لڑکیاں ایسے واقعات کا شکار نہ ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).