مجھ سے کچھ بھی پوچھیے؟


انٹر نیٹ کی دنیا میں صارفین کی دلچسی کے لئے ہر روز کوئی نہ کوئی ایپلیکیشن یا گیم متعارف کروائی جاتی ہے اور اگر کوئی گیم یا ایپ مشہور ہو جائے تو پھر ٹرینڈ بن جاتا ہے، جس کی وجہ سے اک بہت بڑی تعداد اس گیم یا اپلیکیشن کا استعمال شروع کر دیتی ہے۔ حالیہ دنوں میں ”آسک می‘‘ نامی ایک گیم لانچ ہوئی جس میں کوئی بھی شخص اپنی پہچان چھپاتے ہوئے کسی سے کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ دل کی بات کرنی ہو، کسی کو گالیاں نکالنی ہوں، دل کی بھڑاس نکالنی ہو، کسی کو کم تر کہنا ہو، کسی کی تعریف کرنی ہو یا کوئی سخت سوال کرنا ہو وہ بنا پہچان ظاہر کیے ممکن ہوا، اس سے پہلے بھی ’’صراحۃ‘‘ نامی اک ایپ ماضی میں بہت مشہور ہوئی تھی۔

چونکہ میں ایک بد نام لکھاری ہوں، سیکس، مذہب اور معاشرتی گھٹن پر لکھتا ہوں جس کی وجہ سے دو دوست سو دشمن والی ’’کھرب المثل‘‘ پر پورا اترنے کی کوشش کرتا ہوں اس لئے درجنوں سیکڑوں سوالات موصول ہوئے۔

سوال: آپ شدید احساس کم تری کا شکار ہیں، کیا آپ اس سے واقف ہیں، کبھی علاج کروانے کا سوچا؟

جواب: میرے خیال میں ہر انسان نفسیاتی ہوتا ہے کیونکہ انسان میں ہی نفسیات پائی جاتی ہیں، علاج کسی نفسیاتی انسان کو نہیں بلکہ ایسے انسان کو کروانے کی اشد ضرورت ہے جو یہ کہے کہ میں نفسیاتی نہیں ہوں۔ دنیا کا غریب سے غریب انسان ہو، لوئر کلاس ہو، لوئر مڈل کلاس ہو، مڈل کلاس ہو یا پھر اپر کلاس ہو، سب کے ساتھ نفسیاتی مسائل موجود ہوتے ہیں، دنیا کے کم عقل انسان سے لے کر دنیا کے سب سے زیادہ ذہین انسان تک کے ساتھ نفسیاتی مسائل ہوتے ہیں بلکہ میرا تو یہ ماننا ہے کہ بڑے بڑے مفکر، ادیب، سائنس دان اور دیگر ایسے لوگ جو معاشرے کی بہتری کے لئے یا اپنے مفادات کے لئے کچھ بھی ایسا سوچیں، لکھیں یا ایجاد کریں کہ جس سے وسیع پیمانے پر انسانوں کی سوچ بدل سکے یا طرز زندگی میں تبدیلی آئے وہ شدید سنکی ہوتے ہیں، شدید ترین ذہانت بھی شدید ترین نفسیاتی مسئلہ کا موجب ہوتی ہے۔

جنون کے بنا کسی بھی بظاہر نا ممکن چیز کو ممکن بنانا ممکن نہیں ہو پاتا۔ مسافر اگر منزلوں سے ضد نہ لگائے تو سفر کٹنا ممکن نہیں، زندگی اگر موت سے ضد نہ کرے تو انسان پیدا ہوتے ہی مر جائے۔ مسائل اگر وسائل کو آنکھیں نہ دکھائیں تو اک پل جینا دو بھر ہوجائے، دوا اگر مرض کو آڑے ہاتھوں نہ لے تو پوری دنیا سسک سسک کر مر جائے اس لئے ہر ایک انسان کو نفسیاتی ہونا بہت ضروری ہے۔ ہمارے یہاں اکثریت شدید خوش فہی، احساس تفاخر و احساس برتری کا شکار ہے اور اسے خبر تک نہیں ہوتی، ہاں مجھے اپنی احساس کمتری کا شدت سے احساس ہے اور میں علاج پر بھی یقین رکھتا ہوں بس آج تک کوئی ایسی مہ جبیں ملی نہیں کہ جس کے چھونے سے تنہائیاں، ناکامیاں، درد، رنج و الم، تاریکیاں اور یاسیت کافور ہو جائے۔ آپ کے قرب و جوار میں اگر کوئی صندل دہن، مخمل بدن معالجہ ہوتو ضرور آگاہ کیجئے گا۔ للہ اب یہ مت کہیے گا کہ وہ ایسی نہیں ہیں۔

سوال : آپ کے ساتھ بچپن میں زیادتی ہوئی ہے یا نہیں؟ کیا آپ کو کبھی مفعول بنایا گیا؟ اس کام میں کتنا لطف ہے اور تب آپ کتنے سال کے تھے۔

جواب : پاکستان جیسے تھرڈ ورلڈ کے ممالک میں چائلڈ ایبیوز اک بہت دردناک لیکن اٹل حقیقت ہے کہ جس سے منہ موڑنا ممکن نہیں۔ میرے حساب سے تو ساٹھ فی صد سے زیادہ افراد بچپن میں چائلڈ ایبیوز کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں لیکن لیکن عزت یا مردانگی کا بھرم رکھتے ہوئے مانتے نہیں۔ انسانی معاشروں میں جس کے ساتھ زیادتی ہو یا اسے ہراس کیا جائے اس بچے کے ساتھ بہت ہمدردی کی جاتی ہے، اسے انکرج کیا جاتا ہے اور اس کا حوصلہ بڑھایا جاتا ہے کہ وہ ماضی کی تلخیوں سے نکل کر اک بہترین انسان بننے کی کوشش کرے۔ ان معاشروں میں گھٹیا، قابل نفرت و تضحیک مجرم کو سمجھا جاتا ہے مظلوم کو نہیں۔ یہ ہماری سوسائٹی کی اجتماعی سوچ کا نچوڑ ہے کہ ہم جس کی تضحیک کرنا چاہیں اس سے پوچھتے ہیں بچپن میں تمہارے ساتھ کوئی زیادتی تو نہیں ہوئی؟

وطن عزیز میں بہت بڑے بڑے علاقے اس عمل کی وجہ سے مشہور ہیں، ایسی قبیل کے لوگوں سے جب بھی بات ہو وہ اکثر کہتے پائے جاتے ہیں کہ ”کبھی آو نا ہمارے پاس خوشبو لگا کے“۔ محترمین۔ التماس ہے کہ جس بچے کے ساتھ بچپن میں زیادتی ہوئی ہو یا متشدد رویے برتے جائیں وہ بچہ بڑا ہو کر متشدد رویوں کا حامل ہوتا ہے، وہ بھی ویسے ہی کسی کو اذیت دینا پسند کرتا ہے جیسے کہ اس کے ساتھ ہوا تھا۔ ماضی میں اک ڈراما چلا کرتا تھا جس کا نام تھا۔ ’’ساس بھی کبھی بہو تھی‘‘۔ کسی کو بھی نیچا دکھانے سے پہلے یہ گانا اک بار ضرور گنگنا لیا کیجئے کیونکہ اگر ایسا ہے تو پھر آپ بھی بچپن میں ضرور کبوتر اڑایا کرتے تھے۔

جس معاشرے میں کم سن بچی کے ساتھ ہم بستری کو جرم کے بجائے فن سمجھا جائے، بسترپر خون کی دھاریں عزت اور ہسپتال میں زندگی کی کشمکش میں موجود ٹانکے دینے والے عمل کو مردانگی سمجھا جاتا ہو وہاں ایسا سوال بہت علم، حکمت اور دانائی کا استعارہ ہوتا ہے۔

سوال آپ ہفتے میں کتنی بار خود لذتی کرتے ہیں؟

جواب: جتنی بھی کوئی عام انسان کرتا ہے اس سے دو چار گنا زیادہ، کیونکہ میں شدت پسند اور نفسیاتی مریض ہوں ناں۔ ہمیں بچپن میں ہی بتایا جاتا ہے کہ یہ بہت گھٹیا اور غلط عمل ہے، اس سے رگیں خراب ہو جاتی ہیں، ٹیڑھا پن واقع ہوتا ہے اور انسان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نا مرد ہو جاتا ہے۔ جس معاشرے میں خود لذتی جیسے عمل کو بھی گناہ وہ ثواب میں مقید کر دیا گیا ہو وہاں درندے نہیں تو کیا فرشتے پیدا ہوں گے؟ جس گھٹن زدہ معاشرے میں انسان اپنی جبلتوں کی تسکین کا صرف سوچنے پر مار دیا جاتا ہو، جہاں لڑکیاں کسی سے محبت کا اظہار کرنے پر قتل کر دی جاتی ہوں، جہاں لڑکے بچپن میں زیادتی کا شکار ہوں اور بڑے ہوکر ریپ کرنے پر تلے ہوں، جہاں معاشرہ جائز یا نا جائز عمل میں بھی دولت، اقدار اور جرم کا تصور لئے پھرے وہاں پھر مشت زنی اک نعمت ہو جاتی ہے، کیونکہ یہ بھی نہ ہو تو اک ماہ میں اگر 100 ریپ ہوتے ہیں تو اس کے بعد یہ تعداد 10 ہزار ہو جائے گی۔

خود لذتی خالصتہََ نیچرل عمل ہے جو کہ ظاہر ہے عدم دستیابی کی وجہ سے کیا جاتا ہے، معاشرہ اگر اپنے مروجہ اصولوں پر ہی چلتے ہوئے کم سے کم شادی کو آسان بنا دے تو کسی سے یہ سوال پوچھنے کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔ ویسے بھی خود لذتی خدا کے گھروں میں نا بالغ بچوں کو چیرنے پھاڑنے، کسی زینب کو روند کر کچرے پر پھینکے اور مقدس رشتوں تک کو پامال کرنے سے تو کہیں بہتر ہے۔

سوال : آپ شراب پینا کب چھوڑو گے؟

جواب : جس دن امت مسلمان ہو جائے گی اس دن چھوڑ دوں گا۔ جس دن مساجد سے پھٹے بچوں کی لاشیں ملنا بند ہو جائیں گی چھوڑ دوں گا، جس دن عزت اور غیرت کے نام پر لاشیں ملنا بند ہو جائیں گی چھوڑ دوں گا، جس دن دین کے نام پر داڑھیاں رکھ کر قسمیں کھاتے ہوئے الحاج جھوٹ بول کر، ملاوٹ کرتے ہوئے سودا سلف بیچنا بند کر دیں گے چھوڑ دوں گا، جس دن جنت کے نام پر ہزاروں انسان لقمہ اجل بنانے والے ختم ہو جائیں گے چھوڑ دوں گا۔ میری مے نوشی تو معاشرے کے ہاتھ میں ہے، آپ اک پل میں چھڑوا سکتے ہو، لیکن کیا آپ چھڑوانا چاہو گے بھی؟

سوال : نکاح کے بغیر کسی سے رومانس یا سیکس کا پچھتاوا ساری عمر کیوں نہیں جاتا؟ حالانکہ دونوں کی مرضی سے ہوا تھا۔

جواب : میرا نہیں خیال کہ پچھتاوا رومانس یا جنسی عمل کا ہوتا ہے۔ میرے خیال میں پچھتاوا ان ہزاروں جھوٹے وعدوں اور قسموں کا ہوتا ہے جن کی بدولت لڑکی حاصل کی جاتی ہے۔ قسمیں کھائی جاتیں ہیں کہ میں تم سے شادی کروں گا، کہا جاتا ہے کہ ہم آج سے میاں بیوی ہیں۔ ”یہ ستارے گواہ ہیں، یہ چاند ہمارا نکاح خواں ہے، خدا ناظر ہے، فرشتوں نے مبارک دی ہے، آج سے ہم ایک ہوئے“۔ جب ایسی فنکاریوں کی وجہ سے کسی کو حاصل کیا جائے اور بعد میں مکر جایا جائے تو پچھتاوا جنسی عمل کا نہیں بلکہ اپنی خباثتوں کا ہو گا۔

بالکل اسی طرح جب کسی سے پیسے درکار ہوتے ہیں، کوئی ملازمت درکار ہوتی ہے، کسی سے انتقام لینا ہوتا ہے یا اور کوئی دستیاب نہیں ہوتا تو لڑکیاں کسی سے محبت کر لیتی ہیں۔ عجیب بات ہے کہ لڑکی محبت تو کسی سے بھی کر لیتی ہے لیکن شادی بہت سوچ سمجھ کر کسی ویل سیٹلڈ بندے سے کرتی ہے۔ کیونکہ جنسی عمل میں سکون، کھانا پینا تحائف سب ملتا ہے، اگر عاشق کنگال بھی ہو تو دل کے ارمان پورے کر لیے جاتے ہیں کہ کم سے کم اپنی محبت کو تو پا لیا ہے اور محبت سے پیٹ نہیں بھرتا بہن۔

! نہ تو مرد کو پچھتاوا ہوتا ہے اور نا ہی عورت کو، بطور مجموعی دونوں جنس ہی انسان ہیں اور انسان بہت کرپٹ ہوتا ہے۔ بطور انسان ہم اپنے پارٹنر کو ایک لاکھ پچانوے ہزار نو سو باون جھوٹ بول کر پچھتر ہزار کلو میٹر چل چکی گاڑی برانڈ نیو کہہ دیتے ہیں، کھنڈر کو محل کہنا ہماری فطرت میں ہے، بھیڑیے کو خرگوش، سانپ کو رسی اور بچھو کو مخمل کہہ کر بیچنا ہماری پہچان ہے اس لئے ہمیشہ پچھتاوا ہمارے جھوٹ کا ہوتا ہے، محبت کا نہیں۔

پچھتاوا اک دوسرے کو دیے گئے دھوکوں کا ہوتا ہے ورنہ جنسی عمل جیسا لطیف احساس نہ ہوتا تو نہ آپ یہ سوال پوچھ رہے ہوتے نا ہی میں یہ جواب لکھنے لئے موجود ہوتا۔ جنسی عمل، رومانس، پیار محبت جائز ہے یا نا جائز یہ محبت یا رومانس کا مسئلہ نہیں ہے، یہ مذہب کا مسئلہ بھی نہیں ہے۔ یہ تو آپ کا معاشرتی مسئلہ ہے۔ آپ کو میٹرک پاس کے لئے ڈاکٹر بیوی درکار ہوتی ہے اور سلائی کڑھائی جاننے والی پرائمری پاس لڑکی کے لئے انجنیئر لڑکا چاہیے۔

ککھ پتی کو لکھ پتی رشتہ چاہیے تو لکھ پتی کو کروڑ پتی۔ رومانس کیجئے، سچ بول کر کیجئے، جس سے کرنا چاہ رہے ہیں اس کو حقیقت میں، سچ میں اپنانا ہے تو کیجئے، بھلے اپنانے کے بعد کیجئے لیکن فنکار بننے کی کوشش مت کیجئے کہ آپ جیسے پچھتانے والے اور والیاں ہی دوستوں اور سہیلیوں کو بتا رہی ہوتی ہیں۔ ۔ 176 سکور ہے تیرے بھائی کا۔ آئی فون منگا لیا ہے تیری بہن نے۔ وما علینا۔ اسی کی لینا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).