کشمیر میں 3 سالہ بچی کے ریپ کے خلاف احتجاج


انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے بانڈی پورا علاقے سمیت دیگر مقامات پر پیر کو ایک 3 سالہ بچی کے مبینہ ریپ کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا، جس کے بعد بچی اور ملزم کے آبائی علاقے میں کرفیو لگا دیا گیا ہے۔

پولیس اور نیم فوجی دستوں نے علاقے کو جانے والی تمام سڑکوں کو سیل کر دیا ہے اور علاقے میں سکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کٹھوعہ ریپ کیس کی منتقلی پر حکومت سے جواب طلب

انڈیا: کیا بچوں کے خلاف جنسی جرائم بڑھ رہے ہیں؟

’پاکستان میں ہر روز 9 بچے جنسی زیادتی کا شکار‘

باراملہ میں پرتشدد مظاہروں میں کئی لوگوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں جن میں سے ایک کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔

پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا ہے اور تفتیش جاری ہے۔

اس واقعے نے پوری وادی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

بچی کے والد کا کہنا ہے کہ ان کی بچی کو سکول کے باتھروم میں ریپ کیا گیا۔ سکول ان کے گھر کے قریب واقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا پورا خاندان اس واقعے کے بعد سکتے میں ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’یہ سب 9 مئی کو تقریباً شام کے 7 بجے ہوا۔ میں افتار کے لیے مسجد گیا ہوا تھا۔ اور میری بیوی بچی کو ڈھونڈتے ہوئے گھر سے باہر نکلی تھی۔ بچی کو آواز دینے پر کوئی جواب نہیں آیا۔ وہ اسے پکارتی رہی اور پھر سکول سے کچھ آواز آئی۔ سکول میں ایک تالاب ہے۔ ہمیں لگا شاید اس میں گر گئی ہے۔

’محلے کی کچھ لڑکیوں نے میری بیوی کو بتایا کہ سکول سے کچھ آوازیں آ رہی ہیں، شاید تالاب میں گر گئی ہو۔ ہم تالاب گئے، مگر وہ وہاں نہیں تھی۔ ہم بہت پریشان تھے کہ کہاں چلی گئی۔ ایک وقت تو لگا کہ کہیں تالاب میں گر کر ہلاک تو نہیں ہوگئی۔‘

ان کے مطابق ’ہم نے اسے پھر پکارا۔ تو اس کی ہلکی سی آواز سنی۔ وہ ممی، ممی پکار رہی تھی۔ پھر وہ ہمیں سکول کے باتھ روم میں ملی۔ اس کی حالت بہت بری تھی۔ ملزم نے بھاگنے کی کوشش کی تھی مگر ہمارے ہمسایوں نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ میری بچی کے کپڑوں پر خون کے دھبے تھے اور باتھ روم میں بھی۔

’ہم نے اسی وقت ملزم کو اس کے گھر والوں کے سپرد کر دیا۔ اس کے والد اور بھائیوں کو بلایا اور انہیں اس کا جرم دکھایا۔ پھر ہم پولیس سٹیشن گئے اور اسے پولیس کے حوالے کر دیا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم اسے اس کے بچپن سے جانتے ہیں۔ وہ ہمارا ہمسایہ ہے۔ وہ اکثر ہماری بچی کو باہر لے جاتا تھا۔ مگر ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ ایسا ہوگا۔ میری بچی ایک رات ہسپتال میں تھی۔ اس کی حالت اب بھی ٹھیک نہیں۔‘

پولیس کی کارروائی نے بارے میں ان کا کہنا تھا ’فی الحال ہم مطمئن ہیں۔ پولیس اپنا کام کر رہی ہے۔ ہمیں انصاف چاہیے اور ملزم کے لیے سخت سزا۔‘

ملزم کے والد نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے بی بی سی کو بتایا ’یہ الزامات سو فیصد بےبنیاد ہیں۔ یہ زمین کا معاملہ ہے۔ میں نے انہیں اپنا گھر بیچا تھا۔ بچی کے گھر والوں کا بیان غلط ہے۔ میرا بیٹا رنگے ہاتھوں نہیں پکڑا گیا۔ جب یہ ہوا وہ اس وقت اپنے گھر میں تھا۔ میں یہ بھی کہوں گا کہ اگر میرا بیٹا مجرم ثابت ہوتا ہے تو اسے سزا ملنی چاہیے۔‘

بانڈی پورا کے ایس پی راہل ملک نے کہا ہے کہ ملزم کو گرفتار کیا گیا ہے اور کیس کی تفتیش جاری ہے۔

انہوں نے بی بی سی کو بتایا ’ہم نے ایک خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دی ہے جس نے کام شروع کر دیا ہے اور بچی کا میڈیکل بھی کرایا ہے۔ بچی کی عمر قریب 3 سال ہے۔ ہم جلد از جلد اس معاملے کی تفتیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

ملزم کی عمر کے بارے میں سوال پر راہل ملک نے کہا ’اس کی عمر کی تصدیق کی جا رہی ہے۔ وہ ایک سکول ڈراپ آؤٹ ہے اور اب تک تین سکول بدل چکا ہے۔‘

مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ سکول کے پرنسپل نے ملزم کی پیدائش کا ایک جعلی سرٹیفیکیٹ جاری کیا ہے، جس سے وہ نابالغ ظاہر ہوتا ہے۔ اس کے مطابق وہ چوتھی جماعت کا طالب علم ہے اور اس کی عمر 10 سال ہے۔ ایک مقامی رہائشی کے مطابق یہ بالکل غلط ہے اور ملزم بچہ نہیں مرد ہے۔

ایس پی راہل ملک نے بی بی سی کو یہ بھی بتایا کہ سکول پرنسپل کو بھی پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔

علیحدگی پسند رہنما علی شاہ گیلانی نے اس واقع کو کشمیری معاشرے پر ایک کالا دھبا قرار دیا ہے اور ملزم کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

دو ماہ قبل ایک دوسرے واقعے میں بانڈی پورا کے ہی علاقے میں ایک باپ پر اپنی ہی بیٹی کے ریپ کا الزام لگا تھا جس کے بعد لڑکی نے خود کشی کر لی تھی۔

اس سے پہلے 2018 میں ایک 8 سالہ بکروال لڑکی کو جموں کے کٹھوا علاقے میں اغوا کر کے اجتماعی ریپ کا نشانے بنا کر مندر کے اندر قتل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد شدید احتجاج کیا گیا تھا۔

اس واقعے کے بعد میرواعظ عمر فاروق نے کہا تھا کہ خواتین کے خلاف تشدد کو ختم کرنے کے لیے اس سال رمضان کے مہینے میں اسی بارے میں خطبے دیے جائیں گے۔

عمر فاروق نے اس تازہ واقعے کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیتے ہوئے امن کی اپیل کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp